3مارچ اور 12مارچ 2021ء پاکستانی سیاست میں یاد رکھے جائیں گے۔ یہ دونوں روزHappenings سے بھرپور دن رہے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کے تجزیے، سیاستدانوں کی رائے، عوام کے اندازے غرض کہ بہت سی ہونیاں انہونیوں میں بدل گئیں۔ ایسا ''سسپنس‘‘ اور اتنا بہترین ''کلائمیکس‘‘تو شاید ''ہالی ووڈ‘‘کی فلموں میں بھی نہیں ہوتا جتنا اس مارچ کے مہینے میں پاکستانی سیاست میں دیکھنے میں آیا۔ فلم ہالی ووڈ کی ہو یا پھر بالی ووڈ کی، عام طور پر فلم بین اندازہ لگا ہی لیتے ہیں کہ رائٹر نے آگے کیا لکھا ہوگا‘ کہانی اب کیا موڑلے گی‘ اور ہیرو اپنے دشمنوں سے کیسے نمٹے گا‘ لیکن قربان جائیے اپنی پاکستانی سیاست پہ اور اس کے سکرپٹ رائٹرز کے، اس کے کلائمیکس کا نہ تو کوئی اندازہ لگا سکتاہے اور نہ ہی اس بات کی پیشگوئی کی جا سکتا ہے کہ آگے کیاہونے والاہے۔ یہاں جیتا ہوا کب ہار جائے اور ہیرو کب ولن بن جائے کسی کو کچھ پتہ نہیں چلتا۔
3مارچ کو سینیٹ الیکشن میں عبدالحفیظ شیخ کو شکست اور سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی جیت کیسے ہوئی؟ کس نے کیا رول پلے کیا؟ ان سب سوالوں کے جواب ملنا ابھی باقی تھے کہ 12 مارچ آ گئی‘ چیئرمین سینیٹ کا انتخاب ہوا‘ لیکن یہ کیا؟ ووٹنگ شروع ہونے سے پہلے پولنگ بوتھ کے ارد گرد کیمرے لگائے جانے کا انکشاف ہو گیا۔
اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے مصدق ملک اور مصطفی نواز کھوکھر نے سینیٹ ہال‘ جی ہاں سینیٹ ہال میں لگائے جانے والے خفیہ کیمروں کی نشاندہی بھی کردی۔ بات یہیں نہیں رکی بلکہ انہوں نے کیمرے اکھاڑ کر سب کے سامنے رکھے دیئے۔ اس سوال سے قطع نظر کہ یہ کیمرے کس نے اور کیوں لگائے‘ میرے نزدیک یہ عمل افسوسناک ہے۔ جس نے بھی یہ کیمرے لگائے وہ کم از کم حکومت پاکستان اور وزیر اعظم عمران خان کا خیر خواہ نہیں؛ اگرچہ بعض حکومتی اراکین کے مطابق یہ سکیورٹی کیمرے تھے۔ وفاقی وزیر اطلاعات اور سینیٹر فیصل جاوید نے تو یہ تک کہہ دیا کہ یہ ساری اپوزیشن کی کارروائی ہے۔ فیصل جاوید کے مطابق تو جنہوں نے یہ کیمرے ڈھونڈے‘ انہوں نے ہی لگائے ہیں۔ خیر یہ الزام تو مضحکہ خیز ہے، اس کے جواب میں اپوزیشن نے کہا کہ اگر یہ سچ ہے تو حکومت بھی آپ کی ہے، ادارے بھی آپ کے ہیں، یہ کسی دور دراز کے پولنگ سٹیشن کی بات نہیں ملک کے سب سے بڑے ایوان کی بات ہے‘ وہاں چپے چپے پر کیمرے فٹ ہیں‘ آپ ان سکیورٹی کیمروں کی فوٹیج نکلوائیں اور دکھائیں کہ یہ کیمرے کس نے فٹ کئے۔ میرے نزدیک ان تمام سوالوں کے جواب تلاش کرنا سب سے زیادہ خود حکومت کی اپنی ذمہ داری ہے کیونکہ اس حوالے سے جتنے بھی سوالات آئیں گے وہ بہرحال حکومت کی طرف ہی جائیں گے۔ ''واقفانِ حال‘‘ کے مطابق پی ڈی ایم کے رہنماؤں کو ہال کے اندر کیمرے نصب کئے جانے کی خبر بھی خود سینیٹ ملازمین کی طرف سے دی گئی۔
خیر بات کیمروں سے نکل کر چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کیلئے ووٹنگ تک پہنچی تو پی ڈی ایم کے امیدوار سید یوسف رضا گیلانی اپنی جیت کیلئے انتہائی پُرامید تھے۔ یہاں تک کہ انہوں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے بھی اپنی جیت کو 100 فیصد یقینی قرار دیا۔ دوسری طرف حکومتی امیدوار بھی پُرامید تھے کہ جیت کا ہما آج ان کے سر پر بیٹھے گا۔ ووٹنگ ختم ہونے کے بعد جب نتیجہ آیا تو یوسف رضا گیلانی کے 7 ووٹ مسترد قرار دیئے گئے اور یوں صادق سنجرانی 48 ووٹ لے کر چیئرمین سینیٹ منتخب ہوگئے۔
7 ووٹ مسترد ہونے کا معاملہ بھی کسی جاسوسی فلم کے سین سے کم نہ تھا۔ کچھ سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق مسلم لیگ ن، اے این پی، جے یوآئی اور اتحادیوں کے کچھ لوگوں نے جان بوجھ کر اپنے ووٹ ضائع کئے کیونکہ وہ یوسف رضا گیلانی کو ہرانا چاہتے تھے۔ کچھ نے کہا کہ نہیں کچھ اداروں نے اپنا کام دکھایا ہے اور صادق سنجرانی کو جتوانے کیلئے یہ ووٹ مسترد کرائے گئے جبکہ کچھ تجزیہ کاروں کے مطابق پیپلزپارٹی کے اپنے اندر سے ہی غداری ہوئی۔ اس شکست کے بعد سابق صدر آصف زرداری، سابق وزیراعظم نوازشریف اور پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کا آپس میں ٹیلی فونک رابطہ ہوا۔ تینوں رہنماؤں نے ناصرف شکست کی وجوہات تک پہنچنے کا عزم کیا بلکہ اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ صادق سنجرانی سے قریبی تعلق رکھنے والے اپوزیشن ارکان کو چیک کیا جائے۔ رات گئے جب بات کھلی تو یہ وجہ بھی سامنے آئی کہ پیپلزپارٹی نے خود ان سینیٹرز کو یوسف رضا گیلانی کے نام پر مہر لگانے کا کہا۔ یوسف رضا گیلانی کے بیٹے علی قاسم گیلانی اور دیگر قائدین نے سینیٹرز کو خصوصی طور پر ہدایات دیں اور اس بات کو یقینی بنانے کا کہا کہ وہ یوسف رضا گیلانی کے نام پرہی مہر لگائیں۔
پیپلزپارٹی نے اگرچہ ان 7 ووٹوں کو مسترد کرکے صادق سنجرانی کو کامیاب قرار دینے کے فیصلے کو عدالت میں چیلنج کرنے کافیصلہ کیا ہے، لیکن اس حوالے سے ماہرین قانون دو طرح کی رائے رکھتے ہیں۔ کچھ ماہرین کے مطابق سینیٹ کے اندرکی کارروائی کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا جبکہ دوسری رائے میں یہ فیصلہ اعلیٰ عدلیہ میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ معروف قانون دان اور سابق چیئرمین سینیٹ وسیم سجاد کے مطابق سپریم کورٹ کے 8 معزز ججز پر مشتمل بنچ کی اس حوالے سے رولنگ موجود ہے‘ ووٹ ڈالنے والے کی Consent دیکھی جاتی ہے کہ وہ اپنا ووٹ کسے دینا چاہتا ہے۔ بہرحال فیصلہ جو بھی ہو اس سارے معاملے میں بہت وقت لگے گا ۔ اب آتے ہیں الیکشن کے بعد کی صورتحال کی طرف۔ ہر پاکستانی کے ذہن میں چند سوالات ہیں کہ آگے کیا ہوگا؟ حکومت کیلئے اب چین ہی چین ہوگا؟ پی ڈی ایم کی سیاست ختم ہو جائے گی؟ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی میں اختلافات بڑھ جائیں گے؟ وغیرہ وغیرہ۔ میرے نزدیک 3مارچ کو سینیٹ الیکشن میں یوسف رضا گیلانی کی فتح نے جس طرح سے نئی ممکنات کا دروازہ کھولا تھا ویسے ہی 12مارچ کو چیئرمین سینیٹ کے الیکشن میں ان کی ہار نے بھی نئی امکانات کا دروازہ کھول دیا ہے‘ بس اب ان ممکنات کی ہیئت بدل گئی ہے۔
اس ہار نے پی ڈی ایم کے اندر اختلافات کے بیج بو دئیے ہیں‘ جس کا ایک اظہار طلال چودھری کا ٹویٹ اور پھر بلاول بھٹو کا جواب ہے۔ نون لیگ اور مولانا اس نظام کے اندر رہتے ہوئے تبدیلی کی کوششوں کے پیپلز پارٹی کے نظریے سے اتفاق نہیں کرتے‘ اور اس ہار نے پیپلز پارٹی کی اس پوزیشن کو کمزور بھی کردیا ہے۔ نون لیگ کے اندر جو جارحانہ سیاست کا موقف ہے وہ مولانا فضل الرحمن کے ساتھ مل کر پیپلز پارٹی کو اپنے اس موقف سے پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دے گا جبکہ پیپلزپارٹی کی کوشش ہوگی کہ جلد از جلد عدالت سے یوسف رضا گیلانی کی ہار پر ریلیف لیا جائے تاکہ پی ڈی ایم کے اندر اپنی کھوئی ہوئی ساکھ کو بحال کروایا جائے۔ اگر تو عدالت سے پیپلز پارٹی کو ریلیف مل جاتا ہے‘ جیسا کہ ان کا خیال ہے‘ تو پھر ان کا یہ موقف مزید تقویت پکڑے گا کہ سسٹم کے اندر رہتے ہوئے یہ جنگ جیتی جا سکتی ہے‘ لیکن اس حوالے سے ان کے پاس وقت کی کمی ہے کیونکہ لانگ مارچ سر پر آ رہا ہے اور مولانا اور نواز شریف یہ بات جانتے ہیں کہ ایک خالی خولی لانگ مارچ سے کچھ حاصل نہیں ہونے والا اور وہ صرف ایک فینسی قسم کا جلسہ بن کر رہ جانا ہے۔ پی ڈی ایم کے اندر اب جس ہتھیار پر شدومد کے ساتھ بحث متوقع ہے وہ استعفے، اور لانگ مارچ و دھرنے کے ممکنہ مقام کے نکات ہیں۔ پیپلز پارٹی ان دونوں باتوں پر ایک مختلف سوچ رکھتی ہے۔
آنے والے دنوں میں پیپلزپارٹی کو اپنی پوزیشن واضح کرنا ہو گی‘ ورنہ بادی النظر میں وہ بات درست ثابت ہوتی نظر آتی ہے کہ پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم اور سیاسی قوت کو استعمال کرکے پیپلز پارٹی نے اپنا الو سیدھا کیا اور سیاسی فائدے بھی اٹھا لیے ہیں۔