''آج کا پی ڈی ایم کا اجلاس لانگ مارچ کے حوالے سے تھا جس میں میاں نواز شریف، آصف رزداری اور بلاول زرداری صاحب نے ویڈیو لنک کے ذریعے شرکت کی۔ لانگ مارچ کے ساتھ استعفوں کو وابستہ کرنے کے حوالے سے 9 جماعتیں اس کے حق میں ہیں جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کو اس سوچ پر تحفظات ہیں، پیپلز پارٹی نے وقت مانگا ہے کہ ہم اپنی پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کی طرف رجوع کریں گے اور پھر اس کے بعد ہم پی ڈی ایم کو اپنے فیصلے سے آگاہ کریں گے‘ لہٰذا ہم نے انہیں موقع دیا ہے اور ہمیں ان کے فیصلے کا انتظار ہو گا‘ تب تک 26 مارچ کا لانگ مارچ ملتوی تصور کیا جائے گا‘‘
یہ تھی صرف ایک منٹ اور 15سیکنڈ پر مشتمل پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فصل الرحمن کی پی ڈی ایم کے 6 گھنٹے طویل سربراہی اجلاس کے بعد میڈیا سے کی جانے والی مختصر ترین گفتگو۔ پی ڈی ایم کے رہنما جب ایک گرما گرم اورگلے شکووں سے بھرپور اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرنے کے لیے باہر آئے تو تمام رہنمائوں کے چہرے اجلاس میں ہونے والی بد مزگیوں اور اختلافات کی بھرپور عکاسی کر رہے تھے۔ مولانا فضل الرحمن خلاف معمول اداس دکھائی دیے۔ ان کے چہرے پر شدید غم و غصے کے آثار نمایاں تھے‘ جس کا اندازہ اس بات سے بھی بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ میڈیا سے گھنٹوں تک ہنسی مذاق اور برجستہ گفتگو میں مہارت رکھنے والے مولانا صرف چند جملے ادا کرنے کے بعد ہی واپس چلے گئے۔ مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز نے مولانا کو روکنے کی کوشش کی مگر مولانا نے ان کی بھی ایک نہ سنی اور واپس چلے گئے۔
مولانا فضل الرحمن کی میڈیا کے ساتھ کی جانے والی اس گفتگو پر غور کریں تو ان چند جملوں میں پی ڈی ایم کی ساری کہانی نا صرف کھل کر سامنے آ جاتی ہے بلکہ وہ باتیں جو پہلے صرف قیاس آرائیاں اور افواہیں سمجھی جاتی تھیں‘ ان کے سچ ہونے پر مہر بھی ثبت کرتی ہیں۔ سیاسی تجزیہ کار پچھلے کافی عرصے سے یہ باتیں کر رہے تھے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کبھی بھی اسمبلیوں سے استعفے دینے پر راضی نہیں ہو گی اور نا ہی وہ اپنی ہوم گرائونڈ سندھ میں اپنی حکومت سے سبک دوش ہوں گے لیکن شاید کسی کو اس بات کی توقع نہیں تھی کہ سابق صدر آصف علی زرداری، سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کو اس طرح سے ''لتاڑیں‘‘ گے۔
سابق صدر آصف علی زرداری نے اپنی تقریر کے دوران استعفے دینے کے ایشو کو نواز شریف کی وطن واپسی سے مشروط کر دیا تو اجلاس میں سناٹا چھا گیا اور انہوں نے نواز شریف کو مخاطب کر کے کہا ''میاں صاحب پلیز واپس آ جائیں‘‘ اگر اس تحریک کو کامیاب کروانا ہے تو ہم سب کو جیل جانا پڑے گا۔ میں نے پہلے بھی 14 سال تک جیل کاٹی‘ میں اسٹیبلشمنٹ سے نہیں ڈرتا؛ تاہم اسٹیبلشمنٹ کے خلاف جدوجہد ذاتی عناد کے بجائے جمہوری اداروں کے استحکام کے لیے ہونا چاہئے‘ اگر جنگ کے لیے تیار ہیں تو لانگ مارچ ہو یا عدم اعتماد کا معاملہ آپ کو وطن واپس آنا ہو گا‘‘۔ آصف علی زرداری نے مزید کہا ''میاں صاحب آپ پنجاب کی نمائندگی کرتے ہیں‘ میں جنگ کے لیے تیار ہوں مگر میرا ڈومیسائل مختلف ہے‘ میں نے 18ویں آئینی ترمیم اور این ایف سی ایوارڈ منظور کیا‘ جس کی مجھے اور میری پارٹی کو سزا دی گئی، ہم اپنی آخری سانس تک جدوجہد کے لیے تیار ہیں‘ آپ اسحاق ڈار کو لے کر وطن واپس آئیں‘ ہم آپ کے پاس اپنے استعفے جمع کروا دیں گے، اسحاق ڈار تو سینیٹ کا ووٹ ڈالنے بھی نہیں آئے۔ اسمبلیوں کو چھوڑنا عمران خان کو مضبوط کرنے کے مترادف ہے‘ ایسے فیصلے نہ کیے جائیں جس سے ہمارے را ستے جدا ہو جائیں‘‘۔
آصف رزداری کی اس دھواں دھار تقریر کے بعد مریم نواز نے مائیک سنبھالا اور کہا ''آصف زرداری صاحب! میرے والد محترم کی جان کو خطرہ ہے‘ وہ وطن واپس کیسے آئیں؟ آپ گارنٹی دیں میرے والد کی جان کو پاکستان میں خطرہ نہیں ہو گا‘ میں اپنی مرضی سے یہاں ہوں، جیسے آپ ویڈیو لنک پر موجود ہیں ویسے ہی میاں صاحب بھی ویڈیو لنک پر موجود ہیں، نیب کی تحویل میں میاں صاحب کی زندگی کو خطرہ ہے، میرے والد کو جیل میں 2 ہارٹ اٹیک ہوئے‘‘۔
پی ڈی ایم کی 2 بڑی جماعتوں کے رہنمائوں کی اس گرما گرم گفتگو کے بعد دوسری جماعتوں کے پاس کہنے کو کچھ خاص بچا نہیں تھا۔ پیپلز پارٹی کی طرف سے آصف علی زرداری کی گفتگو خاص طور پر میڈیا کو لیک کی گئی۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے تو اس بات پر بھی شدید اعتراض کیا کہ آصف زرداری کی تقریر کے دوران میڈیا کو اس کا متن بھجوا دیا گیا۔
اب اگر ہم اس اجلاس میں پیش آنے والے واقعات اور پی ڈی ایم کی جماعتوں کے رویوں پر غور کریں تو یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں نظر آتی ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور مولانا فضل الرحمن ''ایگریسو موو‘‘ کے ذریعے حکومت اور اداروں کو دبائو میں لانا چاہتے ہیں‘ وہ چاہتے ہیں کہ اسمبلیوں سے استعفے دے کر اپنے کارکنوں کو سڑکوں پر لایا جائے‘ اور سیاسی ماحول کو گرم کیا جائے۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی یہ چاہتی ہے یہ نا ہو کہ استعفے دے کر اسمبلیوں سے باہر آ جائیں اور باہر بھی کوئی ماحول نہ بن سکے۔ نتیجہ کچھ بھی ہو‘ پی ڈی ایم کی جماعتوں میں پڑنے والی یہ دراڑ بظاہر کم ہوتی نظر نہیں آتی‘ ایسا لگتا ہے کہ ''تلخی‘‘ مزید بڑھے گی۔
پیپلز پارٹی نے پی ڈی ایم کے اجلاس میں جو کچھ کیا‘ کیا وہ پہلے دن سے سب کو پتا نہیں تھا؟ اپنی صوبائی حکومت کی قربانی کس بنا پر دی جائے؟ کیا سسٹم کے اندر رہتے ہوئے زیادہ فائدہ ہے یا پھر سسٹم سے باہر نکل کر؟ اس کا ایک تجربہ کر کے وہ دیکھ بھی چکے ہیں، جب اسلام آباد سے اکثریت نہ ہونے کے باوجود سینیٹ کی ایک نشست انہوں نے جیت لی۔ اس کے علاوہ بہت سے فوائد تو ایسے ہیں جو نظر نہیں آتے‘ اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات میں بہتری، سندھ میں اپنا قلعہ مزید مضبوط کرنا اور پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے پنجاب کے ان شہروں میں ہزاروں کے مجمع سے خطاب کرنا جہاں ان کے اپنے ٹکٹ پر کھڑے امیدوار کے ووٹ ''چند سو‘‘ میں ہوں۔ پیپلز پارٹی کے سامنے جو ایک سب سے بڑا سوال کھڑا ہوا ہے‘ یہ ہے کہ پارٹی اپنی سیٹوں کی اور اپنی صوبائی حکومت کی قربانی اس لیے کیوں دے کہ جس کا فائدہ براہ راست نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن کو پہنچے؟
دوسری طرف مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف تو واپس نہیں آنے والے جب تک کہ حالات ان کے حق میں نہ چلے جائیں اور اس بات کا اندازہ آصف زرداری کو بخوبی ہے، نواز شریف اور مریم نواز کو آہستہ آہستہ اس بات کا ادراک ہوتا چلا جا رہا ہے کہ یہ لڑائی انہیں مولانا کے ساتھ مل کر پیپلز پارٹی کے بغیر ہی لڑنا پڑے گی، سیاست بڑی ''دلچسپ‘‘ ہے اور یہ جو کہا جاتا ہے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا اس کا اندازہ اس بات سے اچھی طرح لگایا جا سکتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) جو اسٹیبلشمنٹ کے سایہ میں پلی بڑھی اور پیپلز پارٹی جو ہمیشہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ سمجھی جاتی تھی دونوں ہی آج اپنی ترتیب اور ترکیب بدل رہی ہیں۔ مسلم لیگ (ن) اب اینٹی اسٹیبلشمنٹ اور جارحانہ سیاست کا استعارہ بنتی جا رہی ہے اور پیپلز پارٹی ایک ایسی اعتدال پسند سیاسی جماعت جو اسٹیبلشمنٹ کے قریب رہے۔