مسلم لیگ(ن)اور پیپلز پارٹی کے مابین حالیہ لفظی گولہ باری نے یہ تو بتا ہی دیا ہے کہ ایک خاص مقصد کیلئے اتحاد کا یہ 'بھان متی کا کنبہ‘ جوڑا گیا ہے۔ اگرچہ بلاول بھٹواور مریم نواز دونوں نے اپنی اپنی پارٹیوں کو ہدایت کر دی ہے کہ تلخ بیان بازیوں سے گریز کیا جائے لیکن دونوں طرف سے ایک دوسرے کو تنقید کا نشانہ بنا کر اپنی اپنی حد میں رہنے کا پیغام دے دیا گیا ہے اور شاید یہ وقت کا تقاضا بھی تھا کیونکہ چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کی شکست ہضم کرنے کیلئے اس غصے کا باہر نکلنا ہی بہتر تھا۔
پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کی ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی پر مایوسی کا اظہار کیا۔ مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں محمد نواز شریف اور پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے ساتھ ٹیلی فونک گفتگو میں مولانا فضل الرحمن نے دونوں رہنمائوں کو ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی سے گریز کا مشورہ دیا۔ انہوں نے کہا کہ ان متنازع بیانات سے پی ڈی ایم کو نقصان پہنچ رہا ہے ہم حکومت کے خلاف متحد ہوئے ہیں ایک دوسرے سے لڑنے کیلئے نہیں‘پی ڈی ایم کی تمام جماعتوں کو مشترکہ طور پر کئے گئے فیصلوں کا احترام کرنا چاہیے‘ فیصلوں کے مطابق سینیٹ میں قائد حزب اختلاف کی نشست مسلم لیگ (ن) کی بنتی ہے‘امید ہے پیپلزپارٹی مشترکہ فیصلوں کا احترام کرے گی۔ مولانا فضل الرحمن نے آصف زرداری اور نوازشریف کو پیغام دیا کہ بچوں کو سمجھائیں وہ بچگانہ سیاست نہ کریں۔ پی ڈی ایم کے سربراہ فضل الرحمن نے کہا کہ یہ طے ہوا تھا کہ 4 اپریل سے قبل کوئی کسی کے خلاف متنازع بیان نہیں دے گا‘ بلاول بھٹو اور مریم نواز سمیت دیگر رہنماؤں کے حالیہ بیانات پر بہت مایوسی ہوئی جو فیصلے پی ڈی ایم اجلاس میں ہوئے ان پر عمل ہونا چاہیے۔ مولانا فضل الرحمن کو پی ڈی ایم میں شامل ان دونوں بڑی پارٹیوں کے رہنمائوں سے بات کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی اور اپوزیشن اتحاد کے اندرونی حالات اس نہج تک کیسے پہنچے‘ اس کیلئے پس منظر میں جانا پڑے گا۔
پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) میں سیاسی رقابت اور اختلافات کوئی نئی بات نہیں۔ اگر یوں کہا جائے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں محمد نوازشریف کی ساری سیاسی جدوجہد ہی ایک دوسرے کی مخالفت پر مبنی رہی ہے توغلط نہ ہوگا۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی نہ صرف ایک دوسرے کے مدمقابل رہے ہیں بلکہ ایک دوسرے کی حکومتیں گرانے میں بھی بھرپور کردارادا کیا۔ 90ء کی دہائی کا جائزہ لیں تو یہ چیز واضح نظر آتی ہے۔ ان میں سے ایک پارٹی کی جیت ہمیشہ دوسری پارٹی کی ہار پر مبنی ہوتی تھی۔ دونوں پارٹیوں کی سوچ‘ اندازِ سیاست اورطریقہ کار میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان کے ووٹرز اور سپورٹرزآج بھی ایک دوسرے کو قبول کرنے کو تیارنظر نہیں آتے۔اس پس منظر میں دیکھا جائے تو مولانا فضل الرحمن کی میاں محمد نواز شریف اور آصف علی زرداری کے ساتھ ہونے والی ٹیلی فونک گفتگو کے بعد کیا دونوں طرف سے برف پگھلے گی اور سیز فائر ہو جائے گا‘ یہ ایک ملین ڈالر سوال ہے؟
مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے درمیان حالیہ ٹینشن اگرچہ اسمبلیوں سے استعفے دیے جانے کے معاملے پرشروع ہوئی اور پھر آصف علی زرداری کے پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں دھواں دھار خطاب نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ بات یہیں نہیں رکی بلکہ مریم نوازنے اپنے ایک ٹویٹ میں یہ تک کہہ دیا کہ نیا ''سلیکٹڈ‘‘تیار کیا جا رہا ہے‘ اس کے جواب میں بلاول بھٹو نے بھی مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو سخت جواب دیا۔ صحافی کے اس سوال پر کہ مریم نواز نے ''سلیکٹڈ‘‘ کس کو کہا؟ بلاول بھٹو نے مریم نواز کا نام لئے بغیر کہا کہ ''مسلم لیگ(ن) کی نائب صدر کو جواب دینا ہوتا تو اپنی پارٹی کے نائب صدر کو کہتا کہ اس کا جواب دیں۔ ہماری رگوں میں سلیکٹڈ ہونے کا خون شامل نہیں۔ لاہور سے کوئی دوسرا سیاسی خاندان ہے جو سلیکٹ ہوتا رہا ہے‘‘۔
بلاول بھٹو زرداری نے یہ بھی کہا کہ لانگ مارچ ملتوی نہیں ہونا چاہیے تھا‘ استعفوں کو لانگ مارچ سے منسلک کرنے کا آئیڈیا کس کا تھا؟ سینیٹ میں جس جماعت کی اکثریت ہو اپوزیشن لیڈر بھی اسی کا ہونا چاہیے۔ اس کے جواب میں مسلم لیگ (ن) کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال نے کہا کہ پی ڈی ایم کو نقصان پہنچانے والوں کو قوم کبھی معاف نہیں کرے گی‘ ہم اسمبلی میں کیا کر رہے ہیں جو باہر رہ کر نہیں ہوگا؟ پی ڈی ایم کے اجلاس میں یہ طے ہوا تھا کہ سینیٹ میں قائد حزب اختلاف مسلم لیگ (ن) سے ہوگا۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی دونوں یہ بات اچھی طرح جانتی ہیں کہ اسلام آباد میں اقتدار سنبھالنے کا راستہ پنجاب سے ہو کر جاتا ہے۔ پنجاب ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہونے کے باعث سب سے زیادہ نشستیں بھی رکھتا ہے اور کسی بھی الیکشن میں پنجاب میں زیادہ نشستیں جیتنے والی پارٹی ہی مرکز میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوتی ہے۔ پی ڈی ایم کے گزشتہ سربراہی اجلاس میں ہونے والی گرما گرمی کی بنیادی وجہ بھی یہی تھی۔ میاں محمد نوازشریف کو پیپلزپارٹی پر اس بات کا غصہ تھا کہ وہ استعفے دینے کیلئے رضامند کیوں نہیں ہو رہی جبکہ آصف علی زرداری اس بات پر طیش میں تھے کہ نوازشریف نے پنجاب میں ان ہاؤس تبدیلی کی ان کی تجویز کو رد کیوں کر دیا۔
''واقفانِ حال‘‘ کے مطابق پیپلزپارٹی نے پنجاب میں اقتدار کا جو فارمولہ دیا تھا اس کے مطابق مسلم لیگ(ق)‘ مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی مل کر بزدار سرکارکو ہٹا سکتے تھے۔ یہ فارمولہ مسلم لیگ (ن) نے رد کر دیا کیونکہ مسلم لیگ(ن) کو پنجاب میں عثمان بزدار جیسا کمزور وزیراعلیٰ ہی سوٹ کرتا ہے تاکہ وہ اسی وزیراعلیٰ کی کمزوریوں کو بنیا د بنا کر اگلے الیکشن میں عوام کے سامنے اپنا مضبوط کیس لے کر جاسکیں۔ دوسری طرف پیپلزپارٹی اقتدار میں آکر پنجاب اور خصوصاً جنوبی پنجاب میں اپنے لیے جگہ بناناچاہتی ہے۔ آصف زرداری کا خیال یہ ہے کہ پنجاب میں چھوٹے چھوٹے گروپوں اورالیکٹ ایبلز کو پیپلزپارٹی میں شامل کر کے پنجاب میں اپنی کھوئی ہوئی ساکھ کو کسی حد تک بہتر کیا جا سکتا ہے جو کہ مسلم لیگ (ن) کیلئے کسی طور بھی قابل قبول نہیں‘ لہٰذا جہاں کہیں بھی موقع ملے گا یہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے پر وار کرنے یا سبقت لے جانے سے گریز نہیں کریں گی۔سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق مولانافضل الرحمن اور میاں نوازشریف دونوں یہ سمجھتے ہیں کہ آصف علی زرداری پی ڈی ایم کے کندھے پر چڑھ کر نہ صرف مقتدرہ کے ساتھ اپنے معاملات بہتر کرنے میں مصروف ہیں بلکہ کسی حد تک اپنے اور اپنے ساتھیوں کیلئے نرم گوشہ حاصل کرنے میں کامیاب بھی ہو چکے ہیں۔
اس ساری صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے مسلم لیگ (ن) نے ایک نئی حکمت عملی اپنائی کہ مسلم لیگ (ن) پنجاب میں اپنی پوزیشن کو مزید بہتر بنانے کیلئے اپنے طور پر بھی سیاسی سرگرمیاں بڑھائے گی۔ نواز شریف‘ شہبازشریف‘ مریم نواز اور حمزہ شہباز چاروں اس بات پر متفق ہیں کہ اپنی ہوم گراؤنڈ پنجاب میں وزیراعلیٰ عثمان بزدار اور ان کی ٹیم کو آڑے ہاتھوں لیا جائے اور مسلم لیگ (ن) کے دورِ حکومت میں کئے جانے والے ترقیاتی کاموں اور روز مرہ بڑھتی ہوئی مہنگائی کو بنیاد بنا کر عوام سے رجوع کیا جائے۔ادھرمریم نواز کی نیب میں پیشی ایک چھوٹا موٹا سیاسی ایونٹ بن گیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) ان پیشیوں کو سیاسی بنا کر عوام کی نظروں میں اپنے اس بیانیے کو مزید تقویت دیتی ہے کہ یہ تمام کیسز انہیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنانے کیلئے بنائے گئے ہیں۔ اس پیشی کو بھی ایک طرف سیاسی ورکرز کو چارج کرنے کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے اور پیپلز پارٹی کو ایک پیغام دینے کیلئے بھی کہ اگر وہ ساتھ نہ آئے تو یہ گاڑی اس کے بغیر بھی چل نکلے گی۔