''انکوائری ضرور کی جائے لیکن کسی ایک فون کال پر نہیں۔ میں اپنا دفاع عدالت میں کروں گا اور سرخرو ہوں گا۔ جب بھی عدالت بلائے گی پیش ہوں گا، قانون سے نہیں بھاگ رہے اور نہ ہی بھاگیں گے، تحقیقات ضرور کریں لیکن شفاف ٹیم بنائیں جو متنازعہ نہ ہو، میں پی ٹی آئی میں ہی ہوں، پارٹی میں نہیں ہوں گے تو کہاں جائیں گے؟ میرے خلاف ایف آئی آر اسلام آباد میں بنی، یو ایس بی میں یہاں آئی اور دستخط ہوئے۔ میرے خلاف تحقیقات کسی کے کہنے پر کی جا رہی ہیں‘ نئی ٹیم تشکیل دی جائے اور پھر تحقیقات کی جائیں‘‘۔
یہ ہے وہ گفتگو جو تحریک انصاف کے رہنما اور ماضی میں وزیراعظم عمران خان کے انتہائی قریبی سمجھے جانے والے جہانگیر خان ترین نے عدالت میں پیشی کے موقع پر میڈیا سے کی۔ اس سے پہلے جمعہ کی رات جہانگیر ترین کی رہائش گاہ پر دیئے گئے عشائیے میں قومی اسمبلی کے 8 اراکین، صوبائی اسمبلی کے 16 اراکین، 2 صوبائی وزرا، 5 مشیروں اور معاونینِ خصوصی نے شرکت کی۔ اس موقع پر تمام شرکا نے نہ صرف جہانگیر ترین پر بھرپور اعتماد کا اظہار کیا بلکہ ان سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے اس بات کا فیصلہ بھی کیاکہ وزیراعظم کو حقائق سے آگاہ کرنے کیلئے ملاقات کی جائے گی اور اس ملاقات کے وقت کیلئے خط لکھا جائے گا۔ آج 30 ممبروں نے اس درخواست نما خط پر دستخط کر دیئے اور وزیر اعظم سے ملاقات کیلئے وقت مانگا ہے۔
اس ساری صورتحال میں لوگ طرح طرح کے سوالات اٹھا رہے ہیں۔ ہر کوئی یہ جاننا چاہتا ہے کہ جہانگیر ترین اور ان کے ساتھیوں کا اگلا قدم کیا ہو گا؟ وزیر اعظم اب بھی اپنی بات پر ڈٹے رہیں گے یا پھر کوئی لچک دکھائیں گے؟ تحریک انصاف میں کوئی ''فارورڈ بلاک‘‘ یا ''ہم خیال گروپ‘‘ تو نہیں بننے جا رہا؟ کیا کپتان اس ''بائونسر‘‘ کو بھی بائونڈری سے باہر پھینکنے میں کامیاب ہو جائیں گے؟ آج جب یہ کالم لکھنے بیٹھا تو ماضی کے کئی واقعات ''فلیش بیک‘‘ کی طرح سامنے آنا شروع ہو گئے۔ ان سارے واقعات پر غور کرنا شروع کیا تو احساس ہوا کہ کیا ایک بار پھر کوئی نیا کھیل تو شروع نہیں ہونے والا؟
بادی النظر میں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے آئندہ یعنی 2023ء میں ہونے والے انتخابات کے لیے کام شروع ہو چکا ہے۔ کیا ''نیو پولیٹیکل انجینئرنگ‘‘ شروع کر دی گئی ہے؟ اس سوال کا جواب جاننے کے لیے ہمیں ماضی کے دریچوں میں جھانکنا ہو گا۔
90ء کی دہائی میں مسلم لیگ (ن) کے دوسرے دورِ حکومت میں شریف خاندان کے انتہائی قریب سمجھے جانے والے، ماضی میں میئر لاہور اور گورنر پنجاب کے عہدے پر خدمات سرانجام دینے والے میاں محمد اظہر نے جب اپنی ہی حکومت پر تنقید شروع کر دی اور پھر اپنی بیٹی کی شادی پر اس وقت کی قائدِ حزبِ اختلاف محترمہ بے نظیر بھٹو کو مدعو کیا تو شریف خاندان نے بہت برا منایا۔ اسی وجہ سے ان کے درمیان فاصلے بڑھنا شروع ہو گئے اور پھر انہوں نے اعلانیہ بغاوت کر دی۔ نواز حکومت کے آخری دنوں میں میاں محمد اظہر نے خورشید محمود قصوری، غلام سرور چیمہ، سکندر ملہی، فخر امام، عابدہ حسین اور میاں منیر کے ساتھ مل کر ہم خیال گروپ تشکیل دیا۔ یہ گروپ نواز شریف حکومت کے گھر جانے کے بعد بھی قائم رہا‘ اور مزید کچھ لوگ بھی اس میں شامل ہو گئے۔
پیپلز پارٹی کی بات کریں تو جنرل پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں ان کی آشیرباد پر مخدوم فیصل صالح حیات اور رائو سکندر اقبال نے مل کر اپنی قائد محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف پیپلز پارٹی پیٹریاٹ بنائی اور مسلم لیگ (ق) کے ساتھ ہاتھ ملا کر حکومت بنالی۔ یہ ان کے اس تعاون کا ہی کمال تھا جس کی وجہ سے میر ظفراللہ جمالی ایک ووٹ کی اکثریت سے وزیراعظم پاکستان منتخب ہو گئے۔ ایک ٹی وی انٹرویو میں فیصل صالح حیات نے اس بات کا اعتراف کیا کہ ''پیپلز پارٹی کے اندر نظریاتی سیاست تو ختم ہو گئی تھی اور ذاتی فوائد کے لیے کھیل کھیلے جا رہے تھے‘ چنانچہ ہم دوستوں نے باہمی مشاورت کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ ہم بھی اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کریں‘ لہٰذا ہم نے اپنی بہتری کے لیے جنرل پرویز مشرف سے معاہدہ کر لیا۔ یہ انوکھی بات نہیں تھی کیونکہ خود محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھی تو جنرل پرویز مشرف کی بات مان کر پیپلز پارٹی کے بجائے پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرین بنا کر انتخابات میں حصہ لیا تھا‘‘۔
ہم خیال گروپ کہیں یا فارورڈ بلاک، بات یہیں ختم نہیں ہوتی 2009ء میں پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے دوران مسلم لیگ (ق) کے ٹکٹ پر ممبر اسمبلی منتخب ہونے والے عطا محمد مانیکا کی قیادت میں ایک ہم خیال گروپ تشکیل پا گیا۔ مسلم لیگ (ق) کے 84 رکن صوبائی اسمبلی میں سے 50 کے قریب ممبروں نے اپنے دستخط کے ساتھ سپیکر پنجاب اسمبلی کو یہ درخواست دی کہ ان کو یونیفکیشن گروپ کے نام سے ایک الگ پارلیمانی گروپ تسلیم کیا جائے۔
اس سارے پس منظر کی روشنی میں موجودہ حالات کا جائزہ لیا جائے تو یوں لگتا ہے کہ ''طاقت وروں‘‘ نے شاید پھر کوئی نیا پلان تیار کر لیا ہے۔ ایسا لگتا ہے‘ جیسے کوئی ''نئی سیاسی انجینئرنگ‘‘ ہونے جا رہی ہے لیکن کیا کہیں کہ تکنیک وہی پرانی ہے۔ ''واقفانِ حال‘‘ کے مطابق مسلم لیگ (ق) کے چودھری، باپ، جی ڈی اے، پیر صاحب پگاڑا، جنوبی پنجاب صوبہ محاذ اور اب جہانگیر خان ترین کو اکٹھا کر کے ایک ایسا نیا سیاسی اتحاد بنایا جا سکتا ہے جس سے یا تو کوئی نئی مسلم لیگ پھوٹ سکتی ہے یا پھر کوئی نیا انتخابی اتحاد جنم لے سکتا ہے۔ ہوا کا رخ دیکھ کر اڑان بھرنے والے پرندے کبھی بھی ہوا کی مخالف اڑان بھرنے کا حوصلہ نہیں رکھتے۔ کچھ سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف اگر اپنے بڑے بھائی اور مسلم لیگ کے قائد میاں محمد نواز شریف کو ''طاقت وروں‘‘کی مرضی کے مطابق ''رام‘‘کرنے میں کامیاب ہو گئے تو پھر بہت سے پرندے ان کے ''گھونسلے‘‘ میں آ کر بھی بیٹھ سکتے ہیں اور اگر ایسا ممکن نہ ہوا تو پھر ماضی کی طرح کسی مسلم لیگ کے بطن سے کوئی نئی مسلم لیگ بھی جنم لے سکتی ہے۔
اس ساری صورتحال میں اب اگر وزیراعظم اور ان کی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف کی بات کی جائے تو میں نہیں سمجھتا کہ جہانگیر خان ترین کے ساتھ ہونے والا سلوک، ان کو یا ان کی جماعت کو کوئی فائدہ پہنچائے گا‘ البتہ ان کو سیاسی طور پر اس سے نقصان ہونے کے اندیشے زیادہ ہیں۔ جہانگیر خان ترین اپنے خلاف ہونے والے اس سارے معاملے کا ذمہ دار وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری ، معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر اور ایک سول ایجنسی کے سربراہ کو قرار دیتے ہیں۔ جہانگیر ترین کے قریبی حلقوں کے مطابق تحریک انصاف میں کراچی گروپ کے نام سے پہچانے جانے والے وفاقی وزرا اسد عمر، علی زیدی اور فیصل واوڈا بھی اسی کھیل کا حصہ ہیں۔
جہانگیر ترین کی جانب سے یوں کھلے بندوں اپنے ہم خیال لوگوں کو اکٹھا کرنا اور پھر ان کا اس طرح سے میڈیا سے گفتگو کرنا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ کھیل کچھ ''بڑا‘‘ہے۔ اس سارے سیاسی کھیل میں اگر کوئی یہ سمجھ رہا ہے کہ یہ سب کچھ وزیراعظم کے خلاف کوئی اعلان بغاوت یا بہادری ہے تو اپنی غلط فہمی دور کر لے، میرے نزدیک تو ایسا کچھ نہیں، مجھے نہ جانے کیوں یہ محسوس ہو رہا ہے کہ اس ملک اور عوام کا دردِ دل رکھنے والے یہ سیاسی پرندے صرف موسم کے مطابق ہجرت کرنے کی تیاری میں ہیں!!