قومی اسمبلی کی جانب سے کالعدم تحریک لبیک پاکستان کے مطالبے پر فرانس کے سفیر کی ملک بدری پر بحث کے لیے ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دینے کے فیصلے کے بعد مذہبی جماعت کی قیادت نے احتجاج ختم کر دیا۔ اس کمیٹی کی تشکیل کا مطالبہ منگل کے روز قومی اسمبلی کے اجلاس میں تحریکِ انصاف کے رکنِ اسمبلی امجد علی خان کی جانب سے پیش کی گئی قرارداد میں کیا گیا تھا۔ یہ قرارداد لانے کا فیصلہ حکومت اور کالعدم تحریکِ لبیک پاکستان کے مابین پیر کی شب ہونے والے مذاکرات میں کیا گیا۔
حکومتی ارکان کے علاوہ پاکستان مسلم لیگ ن اور جمعیت علمائے اسلام ف کے ارکان اسمبلی نے اس اجلاس میں شرکت کی؛ تاہم حزبِ اختلاف کی بڑی جماعت پیپلز پارٹی نے اجلاس میں شرکت نہیں کی اور جماعت کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ یہ وزیراعظم عمران خان کا اپنا پھیلایا ہوا گند ہے جسے انہیں خود ہی صاف کرنا ہوگا۔ حکومتی ارکان نے جہاں اس قرارداد کی حمایت کی وہیں اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں نے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت اس معاملے پر پالیسی بیان دے اور قرارداد کو اتفاق رائے کے ساتھ پیش کیا جانا چاہیے۔
دھرنا ختم ہونے سے ملک میں امن و امان کی حالت بہتر ہوئی ہے جس سے حکومت اور عوام نے سکھ کا سانس لیا ہے لیکن میرے خیال میں اب بھی حالات مکمل قابو میں نہیں آئے۔ ملک کو کئی دن تک یرغمال بنائے رکھے جانے اور کئی قیمتی جانوں کے نقصان کے بعد بھی حالت یہ ہے کہ جہاں سے چلے تھے وہیں کھڑے ہیں بلکہ شاید اس سے بھی کئی قدم پیچھے کی طرف کا سفر طے کرلیا گیا ہے۔
کالعدم قرار دی گئی جماعت کا احتجاج تحریک کے سربراہ کی گرفتاری پر شروع ہوا تھا، ایک بار پھر حکومت نے معاہدہ کیا ہے بظاہر اس پر عمل بھی شروع کر دیا گیا ہے لیکن نیا معاہدہ بدامنی کی ایک اور لہر کی بنیاد بن سکتا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ حکومت اور کالعدم قرار پانے والی جماعت کے درمیان مذاکرات کیونکر ممکن ہوئے؟ جس جماعت کو قانونی طور پر تسلیم ہی نہیں کیا گیا اس کے ساتھ مذاکرات کس نے اور کس حیثیت میں کئے؟ ان مذاکرات میں کوئی ثالث یا ضامن بھی تھا؟ اگر ایسا ہے تو وہ ثالث اور ضامن سامنے کیوں نہیں آئے یا لائے گئے؟
دوسرا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ حکومت اور کالعدم قرار پانے والی جماعت کے مابین معاہدے کے تحت ایک قرارداد قومی اسمبلی میں پیش کی گئی لیکن حکومت اب اسے ایک پرائیویٹ ممبر کی قرارداد بتاکر اس سے پیچھے ہٹنے کی کوشش کررہی ہے۔ معاہدے کی ایک فریق حکومت اور دوسری فریق ایک کالعدم جماعت ہے تو امجد نیازی صاحب کس طرح اور کس کی نمائندگی کر رہے ہیں؟ پرائیویٹ ممبر کے ذریعے قرارداد لانے کا ایک مقصد یہ بتایا جا رہا ہے کہ حکومت بین الاقوامی فورمز پر خود کو بری الذمہ رکھنے کی کوشش کرے گی۔ اگر یہی مقصد ہے تو حاصل ہوتا نظر نہیں آتا اور ایک بار پھر عجلت میں کیا گیا معاہدہ اس حکومت کے گلے کی پھانس بن سکتا ہے۔ اگر یہ پرائیویٹ ممبر کی قرارداد ہے تو سپیکر یا حکومت یہ موقف کیوں اپنا رہے ہیں کہ معاہدے کے تحت قرارداد کا متن تیار ہوا اس لیے اس میں ردوبدل ممکن نہیں، ایک طرح سے حکومت اس قرارداد کو 'اون‘ بھی کررہی ہے اور خود کو اس سے دور رکھنے کی کوشش بھی کررہی ہے۔
حکومت اور کالعدم قرار دی گئی جماعت کے مابین مذاکرات کے نتیجے میں شنید ہے کہ کالعدم جماعت کے رہنما اور کارکن رہا کئے جائیں گے اور ان کے مقدمات بھی ختم کر دیئے جائیں گے۔ اگر اس طرح امن ممکن نظر آتا ہے تو کسی کو کیا اعتراض ہوسکتا ہے لیکن کیا کسی نے سوچا کہ اس بدامنی کے دوران جو پولیس اہلکار اور عام شہری جان بحق اور زخمی ہوئے ان کا کیا ہوگا؟ کیا طاقت کے بل پر ریاست اور حکومت کو یرغمال بنانے کا عمل درست تسلیم کرلیا گیا اور مستقبل میں ایسی احتجاجی تحریکوں کو کھلا راستہ دے دیا گیا ہے؟ کیا صرف ایک قرارداد ان تمام مسائل کا حل ہے؟
نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی حرمت و ناموس پر ہم سب کی عزت اور جان قربان، اس سے بڑا فخر اور اثاثہ کوئی نہیں ہو سکتا۔ اس سب کے باوجود اس بات پر غور کی ضرورت ہے کہ کیا ہم اپنے بھائیوں کا خون ناحق بہاکر اور اپنی ہی املاک جلا کر دین کی کون سی خدمت کررہے ہیں؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس کا محافظ تو خود رب تعالیٰ ہے جس نے قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا، و رفعنا لک ذکرک، اے نبی ہم نے آپ کو عظمتوں کی انتہا پر فائز کر دیا۔ رب تعالیٰ کے اس فرمان کے بعد کون ہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کو کم کر سکے۔ ہم نے اسلام اور مقدس ہستیوں کو سیاست کے گھٹیا مقصد کیلئے استعمال کرنے کی روش ترک نہ کی تو مستقبل میں بھی ہم اس طرح کے بحرانوں کا شکار رہیں گے۔
پچھلے دور حکومت میں جب فیض آباد پر دھرنا ہوا تو آج جو لوگ حکومت میں بیٹھے ہیں، انہوں نے اس دھرنے کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیا تھا۔ الیکشن میں بینرز اور پوسٹرز چھپوائے گئے جن پر فخریہ لکھا گیا، مجاہد ختم نبوت، اس وقت کے دھرنے کے بعد کچھ ارکان اسمبلی مسلم لیگ ن کو چھوڑ کرنئی منزلوں کے راہی بنے اور جواز ایک تحریک کو بنایا گیا۔ ایک ایسا بیانیہ تشکیل دے دیا گیا جس نے ایک جماعت کی حمایت کو گستاخی کے مترادف بنا دیا، اسی بیانیے کی وجہ سے لیگیوں کا گھروں سے نکلنا مشکل بنا دیا گیا۔ بوجوہ منحرف ہونے والے اسمبلیوں میں جا بیٹھے اور نئی حکومت کا حصہ بن گئے۔ آج جب ویسی ہی صورتحال درپیش ہوئی تو وہی منحرف ہونے سب پھر غائب ہو چکے تھے۔
حکومت اور کالعدم قرار پانے والی جماعت کے مابین معاہدے کے تحت بنائی گئی قرارداد کو جس طرح عجلت کے ساتھ ایوان میں پیش کیا گیا اس کے نتیجے میں اسمبلی میں نازیبا الفاظ اور جملوں کا تبادلہ بھی سننے کو ملا۔ نازیبا گفتگو کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی کو قوم کا نمائندہ ہونے کے رتبے کا خیال رکھنا چاہئے تھا جبکہ سپیکر بھی جانبداری کے تاثر کو زائل کرنے کی کوشش کریں تو معاملات خوش اسلوبی سے آگے بڑھائے جا سکیں گے اور سازگار ماحول میں مثبت بحث ممکن ہو سکے گی۔ مسلم لیگ ن کے ارکان احسن اقبال اور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے لہجوں کی تلخی ماضی کے مجاہدین اور آج کے حکومتی بینچوں کے رویوں کی وجہ سے تھی۔
پیپلز پارٹی نے اس تنازع سے دور رہنے کی کوشش کی جو سیاسی طور پر اچھی حکمت عملی ہے لیکن قومی امور سے لاتعلقی بھی قومی جماعتوں کو زیب نہیں دیتی۔ اگر پیپلز پارٹی حالات کو سدھارنے کے لیے اپنا کردار ادا کرتی اور اس کے منجھے ہوئے سیاستدان نابالغوں کے ٹولوں کو آگے آنے سے روکتے تو قوم کے حق میں بہتر ہوتا۔ بلاول بھٹو زرداری کا یہ کہنا کہ تحریک لبیک سے کیا گیا معاہدہ پارلیمان میں نہیں لایا گیا اور نہ ہی وزیراعظم نے اس معاملے میں کسی بھی مرحلے پر پارلیمان کو اعتماد میں لیا اور اب تحریک انصاف قومی اسمبلی کے پیچھے چھپنا چاہتی ہے، ان کی سیاسی بالغ نظری کا ثبوت ہے۔ یہ بات درست ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت قومی اسمبلی کے ایوان کے پیچھے چھپ کر کئی دن تک ملک پر چھائی بدامنی اور خون خرابے کا ملبہ دوسروں پر منتقل کرنے کی کوشش کر رہی ہے، یہ مطالبہ جائز اورآئینی ہے کہ حکومت اور کالعدم جماعت کے درمیان ہونے والا معاہدہ ایوان کے سامنے رکھا جائے، ایوان سے اس پر رائے لی جائے نہ کہ پوری اسمبلی کو ربر سٹمپ کی طرح استعمال کیا جائے، ماضی میں بھی پارلیمنٹ کو ربر سٹمپ بنا کر رکھا گیا جس کا نتیجہ ہم آج بھگت رہے ہیں اور آج دوبارہ جو کوشش ہوئی ہے یہ ایک نئی فصل ہے جس کو ہمیں وقت آنے پر دوبارہ کاٹنا پڑے گا۔