''مجھے وزیر اعظم ہائوس بلا کر کہا گیا کہ آپ ایک قابل افسر ہیں آپ ہمت کریں آپ کر سکتے ہیں، اس وقت مجھے یہ علم نہیں تھا کہ کام کیا ہے؟ شہزاد اکبر کے کمرے میں گئے تو کہا گیا کہ جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف کیس بنانا ہے اور انکوائری کرنی ہے۔ وہاں سے شہزاد اکبر، اعظم خان اور میں تینوں فروغ نسیم کے کمرے میں گئے، وہاں ڈاکٹر اشفاق بھی موجود تھے اور ای سی ڈی کا ڈیٹا ان کے پاس تھا، فروغ نسیم پہلے ہی کنونسڈ تھے کہ ایف آئی اے یہ کیس بنائے لیکن میں نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ کے جج کے خلاف انکوئری کرنا ایف آئی اے کا کام نہیں، یہ سپریم جوڈیشل کونسل کا کام ہے، جس کے جواب میں کہا گیا کہ آپ اور ایف بی آر مل کر انکوائری کریں جسے میں نے مسترد کر دیا، مجھے پتا تھا کہ جوڈیشل مجسٹریٹ سے سپریم کورٹ کے جج تک میں انکوائری نہیں کر سکتا، فروغ نسیم جسٹس فائز عیسیٰ پر منی لانڈرنگ کا کیس بنانا چاہتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ منی لانڈرنگ کا کیس بنانا ایف آئی اے کا مینڈیٹ ہے لیکن میرا کہنا تھاکہ حکومت کے کہنے پر کسی جج کے خلاف منی لانڈرنگ کا کیس نہیں بنایا جا سکتا‘ اپنی قانونی ٹیم سے مشاورت کی تو انہوں نے بھی کہا کہ آپ کا موقف بالکل درست ہے۔ ایک ماہ بعد شہزاد اکبر نے پھر مجھ سے جسٹس فائز عیسیٰ اور ان کی فیملی کی ٹریول ہسٹری مانگی جس پر میں نے کہا کہ آپ نے ابھی تک جان نہیں چھوڑی، آپ ایسا نہ کریں، وزیر اعظم کی مجھ سے ناراضی کی ایک وجہ یہ بھی تھی، میں نے ریٹائرمنٹ سے 15 دن پہلے استعفا دیا، مجھے غلط او ایس ڈی بنایا گیا حالانکہ 15 دن پہلے ٹرانسفر بھی نہیں کیا جاتا، مجھے علم تھا کہ میرا نقصان ہوگا۔ میں کیریئر کے جس عروج پر تھا مجھے اس میں توسیع کی ضرورت نہیں تھی‘‘
یہ ہے سنگین الزامات اور انکشافات پر مبنی وہ چارج شیٹ جو سابق ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن نے وزیر اعظم اور ان کی کچن کیبنٹ کے خلاف ٹی وی انٹرویو میں پیش کر دی۔ سابق ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن نے ایک نیا پینڈورا باکس کھول دیا ہے اور وزیراعظم سمیت موجودہ حکومت کے کئی سینئر وزرا اور مشیروں کے خلاف سنگین الزامات لگائے ہیں۔ میڈیا پر اپنا موقف دیتے ہوئے بشیر میمن نے جو تصویر کھینچی ہے وہ ہمارے سامنے ایک بھیانک صورتحال لے کر آتی ہے اور اس ملک میں معاملات کیسے چلائے جا رہے ہیں اس پر سنجیدگی سے غور کرنے کی دعوت دیتی ہے۔
بشیر میمن جو کہانی سنا رہے ہیں اس سے موجودہ حکومت کے احتساب کے خوشنما نعرے سے سیاسی انتقام، ذاتی پسند ناپسند اور آئین و قانون کی دھجیاں بکھیرنے کی بو آ رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم ایک جمہوری ملک ہی ہیں یا ایک بنانا ریپبلک میں‘ جہاں احتساب کسی قانون کے تابع نہیں بلکہ ذاتی بغض اور عناد کی لونڈی دِکھ رہی ہے۔ بشیر میمن کے مطابق کس طرح سپریم کورٹ کے ایک حاضر سروس جج کے خلاف کیس بنانے کیلئے انہیں وزیر اعظم ہاؤس بلایا گیا اور بریف کیا گیا جب انہوں نے قانون کی بات کی تو کس طرح انہیں قانون کو پس پشت ڈالنے کا کہا گیا۔ اپوزیشن اور خاص طور پر نون لیگ کے رہنماؤں پر غیر قانونی کیسز بنانے کے لئے دباؤ ڈالا گیا اور ان کے انکار پر نیب کی مثالیں دی گئیں کہ وہاں ایک فون کال پر شہباز شریف کو گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ مریم نواز کی پریس کانفرنس پر دہشتگردی کا کیس بنانے کے لئے کہا گیا اور کیسے خواجہ آصف پر سنگین غداری کا مقدمہ قائم کرنے کیلئے کہا جاتا رہا۔ بشیر میمن کے مطابق انہوں نے جب آئین و قانون کی بات کی تو انہیں سعودی عرب کی مثالیں دی گئیں کہ کیسے بیک جنبش قلم وہاں لوگوں کو پکڑ لیا جاتا ہے۔ ان سنگین الزامات کی تحقیقات ہونی چاہئے اور ان الزامات پر مٹی نہیں ڈال دینا چاہئے کیونکہ یہ الزامات کسی گلی کے غنڈے پر نہیں بلکہ 22 کروڑ عوام کے ایک منتخب وزیراعظم اور حکومت کے کرتا دھرتاؤں پر لگائے جا رہے ہیں۔ اگر بشیر میمن غلط بیانی سے کام لے رہے ہیں تو انہیں قرار واقعی سزا ملنی چاہئے لیکن اگر ان کے الزامات میں صداقت ہے تو یہ وزیراعظم اور ان کی کچن کیبنٹ پر سنگین چارج شیٹ ہے۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہبازشریف نے سابق ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن کے اس انٹرویو پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ''ان کے انکشافات سے میرے مؤقف کو تقویت ملی ہے۔ یہ وہی انکشافات ہیں جن کے بارے میں آگاہ کرتا رہا ہوں، نیب نیازی گٹھ جوڑ نون لیگ کی قیادت کے خلاف جھوٹے مقدمات بنانے میں مصروف ہے، جھوٹے مقدمات بنا کر نون لیگی رہنماؤں کو جیل میں ڈالا جا رہا ہے، یہ گٹھ جوڑ اب بے نقاب ہو چکا ہے‘‘
دوسری طرف اس سارے کھیل کے ایک مرکزی کردار اور وزیر اعظم کے مشیر داخلہ و احتساب شہزاد اکبر کا کہنا ہے کہ بشیر میمن نے ٹی وی انٹرویو میں صریحاً غلط بیانی سے کام لیا، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے معاملے پر بشیر میمن کو کبھی بھی وزیراعظم یا مجھ سے ملاقات کیلئے نہیں بلایا گیا۔ وزیرقانون فروغ نسیم اور بشیر میمن کے درمیان نہ تو کبھی کوئی ملاقات ہوئی اور نہ ہی انہیں کسی انفرادی شخصیت کے خلاف کوئی کیس شروع کرنے کا کہا گیا، بشیر میمن کے اس بیان پر قانونی کارروائی کے لیے وکلا کو ہدایات جاری کردی گئی ہیں۔
سابق ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے بشیر میمن نے جو سنگین الزامات وزیراعظم اور ان کی قریبی ٹیم پر لگائے ہیں اس کے کیا نتائج نکلیں گے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن اس سارے معاملے کا جائزہ لیں تو بطور ایک سیاسی مبصر کے مجھے یوں محسوس ہو رہا ہے کہ کہیں نہ کہیں کوئی ''کھچڑی‘‘ ضرور پک رہی ہے۔ وزیر اعظم کے حوالے سے اس طرح کی خبریں کئی بار سامنے آچکی ہیں کہ وہ مختلف ایشوز پر مستعفی ہونے کا ارادہ ظاہر کر چکے ہیں‘ لیکن ہر بار انہیں ایسا نہ کرنے کے حوالے سے قائل کر لیا جاتا ہے، اب وفاقی سطح کے ایک تحقیقاتی ادارے کے سابق سربراہ اور اچھی شہرت رکھنے والے گریڈ 22 کے پولیس افسر بشیر میمن کی طرف سے لگائے گئے یہ سنگین الزامات کہیں ایک ایسی چارج شیٹ تو بننے نہیں جا رہے کہ جس کو بنیاد بنا کر ملکی سیاست میں ایک بھونچال آ جائے۔
بشیر میمن کے الزامات کی بنا پر ایک پریشان کن سوال منہ پھاڑے کھڑا ہے کہ کیا احتساب کی کوشش اندھے انتقام کے جنون میں تبدیل تو نہیں ہو چکی؟ اور کیا قانون نامی کوئی شے اس ملک میں وجود رکھتی ہے؟ بشیر میمن ایک 22ویں گریڈ کے قابل افسر تھے‘ کسی گاؤں کی پولیس چوکی کے محرر نہیں کہ جن کی باتوں کو یہ کہہ کر رد کر دیا جائے کہ یہ ذاتی رنجش کا معاملہ ہے۔