پاکستان کا مغربی بارڈر ایک بار پھر بحران کی طرف بڑھ رہا ہے۔ امریکا افغانستان سے نکلنے کے لئے پر تول رہا ہے تو اسی دوران افغانستان کی صورتحال تیزی سے بدل رہی ہے۔ سیاسی و دفاعی تجزیہ کاروں کے مطابق ماضی کی طرح اس بار بھی اس کا اثر لازمی طور پر پاکستان پر بھی پڑے گا، بلکہ اس بار تو شاید پاکستان کی اندرونی سیاست بھی اس سے متاثر ہوئے بنا نہ رہ سکے۔ یقیناً آپ نے بھی اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کی پریس کانفرنس سنی یا دیکھی ہو گی یا پھر اس کی خبر پڑھی ہو گی۔ اس بیٹھک کے بعد ہونے والی مختصر پریس کانفرنس کا محور افغانستان اور اس کی صورتحال پر پارلیمنٹ کا اجلاس بلانے کا مطالبہ تھا‘ البتہ مقامی سیاست کا بھی چلتے چلتے ذکر کر دیا گیا۔ عالمی میڈیا کے مطابق اس وقت افغانستان میں طالبان اور حکومتی افواج کے مابین جھڑپیں بہت زیادہ بڑھ گئی ہیں اور طالبان بڑے جارحانہ طریقے سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ جیسے جیسے امریکی انخلا کا وقت قریب آ رہا ہے طالبان جارحانہ انداز میں آگے بڑھ کر اپنی پوزیشن اس غیر یقینی اور غیر مستحکم افغانستان میں مضبوط بنانے میں لگے ہوئے ہیں‘ کیونکہ افغان حکومت اور افغان طالبان کے مابین امن مذاکرات بھی ڈیڈ لاک کا شکار ہیں۔ ایسے میں بزور بندوق اپنے آپ کو ایک طاقت کے طور پر منوانا مزید اہمیت کا حامل ہے۔ آنے والے دنوں میں افغانستان کی صورتحال یہ فیصلہ کرے گی کہ طالبان کسی مہم جوئی کے ذریعے اقتدار حاصل کریں گے یا پھر مذاکرات کے ذریعے اپنا حصہ وصولیں گے۔ انہی حالات کو بھانپتے ہوئے امریکا چاہتا ہے کہ کسی نہ کسی صورت میں افغانستان کی نگرانی اور طالبان پر نظر رکھنے کیلئے افغانستان کے قریب اپنی موجودگی برقرار رکھے۔ اس مقصد کے حصول کیلئے امریکا، پاکستان سمیت مختلف ممالک کا تعاون حاصل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔
ادھر پاکستان کی پوری کوشش ہے کہ طالبان، امریکا اور افغان حکومت کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر انداز میں استعمال کرکے افغان عوام کو ایک پرامن افغانستان دیا جا سکے۔ گزشتہ مہینے کے آغاز میں یہ خبریں بھی آئی تھیں کہ پاکستان نے امریکا، چین اور روس کو ساتھ ملا کر ایک وفد کی صورت میں دوحہ میں افغان حکومت اور طالبان کے نمائندوں سے ملاقات کی تھی اور افغان حکومت کے مذاکرات کاروں پر زور دیا کہ وہ طالبان کے ساتھ 'کھلے دل‘ کے ساتھ مذاکرات میں شامل ہوں تاکہ دہائیوں سے جاری جنگ کے پرامن تصفیہ تک پہنچا جا سکے۔ دوسری جانب ان مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کے لیے بھی بہت ساری طاقتیں موجود ہیں۔ خصوصاً بھارت کو پرامن اور پاکستان کے زیر اثر ایک دوست افغانستان ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ اشرف غنی کی قیادت میں تمام ایسے کردار جو پاکستان مخالف سوچ رکھتے ہیں، بھارت کے ساتھ ''آن بورڈ‘‘ہیں۔
امریکی فوج کے انخلا کا عمل شروع ہوتے ہی افغانستان میں ایک بار پھر افغان طالبان اور کابل انتظامیہ کے مابین چھڑپیں بڑھ گئی ہیں اور اس بات کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ غیر ملکی فوج کے مکمل انخلا کے بعد افغانستان میں ماضی کی طرح شدید خانہ جنگی شروع ہو جائے گی۔ شاید انہی حالات اور جھڑپوں کے باعث افغانستان سے امریکی اور اس کی اتحادی افواج کا انخلا پہلے سے طے شدہ پروگرام سے زیادہ تیزی کے ساتھ کیا جا رہا ہے اور افغانستان کے مختلف حصوں پر طالبان کا کنٹرول بڑھ رہا ہے۔ اس ساری صورتحال میں ناصرف پینٹاگون کے اعلیٰ حکام سر جوڑے بیٹھے ہیں بلکہ بائیڈن انتظامیہ میں اثرورسوخ رکھنے والے اہم سیاستدان بھی اب کابل انتظامیہ اور افغان فورسز کی صلاحیتوں پر انگلیاں اٹھا رہے ہیں۔ ایسے میں اگر خانہ جنگی کے واقعات میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے تو نہ صرف اندرونی مسائل میں اضافہ ہو گا بلکہ ہمسایہ ممالک کے لیے بھی مشکلات بڑھ جائیں گی۔ ان بڑھتے ہوئے مسائل کے ساتھ ہمسایہ ممالک کو افغان مہاجرین کے ایک نئے سیلاب کا بھی سامنا ہو گا۔ موجودہ حالات میں سب سے زیادہ توجہ طلب مسئلہ یہ ہے کہ خود امریکا ابھی تک افغانستان سے اپنی فوج کے انخلا کے بعد کی حکمت عملی واضح نہیں کر سکا۔ امریکی میڈیا کے مطابق پینٹاگون میں ابھی تک یہ پالیسی تیار کی جا رہی ہے۔ امریکا کی جانب سے فوجی انخلا کے بعد بھی افغانستان کی فوجی امداد جاری رکھنے اور دہشتگردوں کے نیٹ ورک کے خاتمے کے لیے تعاون اور کارروائیاں کرنے کے اعلان تو کیے گئے ہیں لیکن اس بات کا کوئی یقین نہیں کہ ان اقدامات کے بعد بھی افغانستان میں امن قائم کیا جا سکے گا جبکہ امریکا کی جانب سے ان ضمن میں حتمی طور پر ابھی کچھ کہا بھی نہیں جا رہا۔
اب دیکھتے ہیں کہ افغان صورتحال پاکستانی سیاست پر کیسے اثر انداز ہو رہی ہے۔ پورے ملک میں یہ چہ مگوئیاں ہو رہی ہیں کہ امریکا پاکستان سے فوجی اڈوں کا طلب گار ہے۔ اس سلسلے میں اگرچہ حکومت پاکستان کا دو ٹوک موقف تو سامنے آ چکا ہے لیکن پھر بھی بعض اوقات یہ ذکر نکل آتا ہے یا اس کی طرف اشارہ دیا جاتا ہے۔ ایک غیر مستحکم افغانستان، پاکستان کی معاشی اور سماجی صورتحال پر گہرے اثرات چھوڑتا ہے۔ پاکستان کے لئے یہ وقت بہت پھونک پھونک کر قدم رکھنے اور اپنے مفاد کو ترجیح دینے کا ہے۔
اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم افغانستان کی صورتحال پر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے کا مطالبہ کر چکا ہے۔ ہفتے کے روز اسلام آباد میں اجلاس کے بعد پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ خطے کی صورتحال تشویشناک ہوتی جا رہی ہے‘ موجودہ حکومت منتخب حکومت نہیں، افغانستان اور خطے کی صورتحال پر 'اِن کیمرا‘ اجلاس بلایا جائے۔ اس سے پہلے مولانا فضل الرحمن منگل 25 مئی کو اپنے بیان میں کہہ چکے ہیں کہ امریکا کو دوبارہ پاکستانی ہوائی اڈے دینا ملکی مفاد کے خلاف اور جنگ کو دعوت دینا ہے‘ ہماری زمین اور فضائیں کسی کے خلاف استعمال کرنے کی منظوری نہ دی جائے‘ امریکا کو ہوائی اڈے دینا ملکی آزادی کیلئے خطرہ ہے۔ 2001ء میں مشرف حکومت کے دور میں بھی ایسا ہی کیا گیا تھا تاکہ امریکا افغانستان میں طالبان کے خلاف جنگ لڑ سکے۔ پاکستان کی سرزمین افغانستان کے خلاف استعمال ہونا ملک کو جنگ میں دھکیلنے کے مترادف ہے۔
25 مئی‘ منگل کے روز سینیٹ کے اجلاس میں پی پی کے سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ پاکستان امریکا کو ہوائی اڈے کی فراہمی پر نظر ثانی کرے‘ اگر ایئر بیسز دینے کا فیصلہ ہوا ہے تو افسوسناک ہوگا خبردار کرتا ہوں اس سے ملک میں انتہا پسندی کی نئی لہر آئے گی۔ امریکا وسطی ایشیا کی ریاستوں چین یا ایران سے اڈے لے۔ ہمیں فیصلہ کرنا ہے ہمیں کہاں کھڑا ہونا ہے۔
24 مئی پیر کو ہونے والے سینیٹ کے اجلاس میں مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا تھا کہ ہمیں امریکا کو زمینی اور فضائی اڈے فراہم نہیں کرنے چاہئیں۔ اسی اجلاس میں مسلم لیگ (ن) کے احسن اقبال بھی کہہ چکے کہ ''خبر آئی ہے کہ حکومت پاکستان نے افغانستان سے انخلا کیلئے امریکا کو ہوائی اور زمینی رسائی دی ہے، ایسا فیصلہ ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے کیا تھا اور دوسرے لوگوں کو اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا، حکومت نے اگر پاکستان کے فوجی اڈے امریکا کو دینے جا فیصلہ کیا ہے تو ایوان کو آگاہ کیا جائے، پاکستان امریکاکے ساتھ سٹریٹیجک تعلق رکھنا چاہتا ہے، دیکھنا ہوگا پاکستان کے مفادات کو ملحوظ خاطر رکھا گیا یا نہیں‘‘۔
دوسری طرف وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی پہلے ہی واضح کرچکے ہیں کہ پاکستان میں امریکا کا کوئی اڈا نہیں، اور نہ ہی یہاں سے کوئی ڈرون اڑے گا۔ امریکا کو افغانستان سے انخلا کے بعد کوئی اڈے فراہم نہیں کر رہے۔ وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید بھی متعدد مواقع پر کہہ چکے ہیں کہ عمران خان امریکا کو کبھی اڈے نہیں دیں گے!