بجٹ کے ہنگاموں کے بعد مستقبل کی تیاری شروع ہو چکی ہے۔ ہر کوئی آنے والے دنوں کی تیاری میں ہے۔ تین بڑی سیاسی جماعتوں کے ساتھ کئی چھوٹی اور علاقائی پارٹیاں تو میدان میں ہیں ہی، ان کے ساتھ ساتھ وقتی گروپ بندی بھی سر اٹھا رہی ہے۔گروپ بندی عام طور پر حکمران جماعتوں میں ہی ہوتی ہے۔ وہ ارکان جو حکومتی عدم توجہی کا شکار ہوتے ہیں وہ دھڑے بندی کرکے حکمرانوں کی توجہ اپنی طرف کرانے کی کوشش کرتے ہیں اور معاملات طے نہ ہونے کی صورت میں نئی منزلوں کی تلاش شروع کر دیتے ہیں۔ تحریک انصاف کے ساتھ بھی ان دنوں کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ 2018ء کے الیکشن میں 'دی ٹرانسپورٹر‘ کی شہرت پانے والے سیاستدان اور برسوں تک کپتان کے انتہائی قریبی ساتھی سمجھے جانے والے جہانگیر خان ترین کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی سلسلہ چل رہا ہے۔
وزیراعظم عمران خان کی طرف سے نظرانداز کئے جانے اور مختلف انکوائریوں کا سامنا کرنے پر، جہانگیر ترین نے بھی پارٹی میں اپنے دھڑے کو متحرک کرکے گلے شکوے کپتان تک پہنچانے اور معاملات کرنے کی کوشش کی تھی‘ لیکن کپتان کے گرد بیٹھے آج کے ساتھی اس پرانے دوست کو اب قریب پھٹکنے بھی نہیں دینا چاہتے۔
جہانگیر ترین اگرچہ عدالت سے نااہلی کا داغ لیے بیٹھے ہیں، اور وہ پارٹی جس کی خاطر انہوں نے سرمایہ اور وقت صرف کیا اب انہیں اہمیت دینے کو تیار نہیں، اس کے باوجود وہ اپنی سیاسی حیثیت چھوڑنے یا پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ جہانگیر خان ترین نے پارٹی کو دباؤ میں لا کر معاملات کرنے میں ناکامی کے بعد نئے آپشنز تلاش کرنا شروع کر دیئے ہیں۔ اپنے آپشنز ظاہر کئے بغیر وہ اہم سیاسی و سماجی حلقوں کی رائے بھی لے رہے ہیں۔ اسی حوالے سے انہوں نے جمعرات کے روز لاہور میں چند سینئر صحافیوں کے ساتھ دوپہر کے کھانے پر ایک تفصیلی ملاقات کی۔ اس ملاقات میں انہوں نے بظاہر کوئی نئی بات نہیں کی، کپتان کے ساتھ اختلافات کی وہی پرانی وجوہات دہرائیں کہ تین افراد تعلقات میں دراڑ کا ذمہ دار ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ اپنے اختلافات اور کپتان کے اس قدر سخت رویے کا ذمہ دار بھی وہ انہی تین کرداروں کو ٹھہراتے ہیں۔ شوگر سکینڈل کے حوالے سے انہوں نے یہی موقف اختیار کیا کہ شہزاد اکبر نے کپتان کو ان سے متنفر کرنے کیلئے جان بوجھ کر ان کے خلاف درج ہونے والی ایف آئی آر کو شہباز شریف کے خلاف درج ہونے والی ایف آئی آر کے ساتھ نتھی کرکے دکھایا اور یہ تاثر قائم کیاکہ دونوں کے خلاف ایک ہی طرح کے الزامات ہیں۔ اسی طرح سینیٹ الیکشن کے موقع پر بھی وزیراعظم کو یہ باور کرایا گیا‘ جیسے انہوں نے یوسف رضا گیلانی کو جتوانے کیلئے کوئی کردار ادا کیا ہو‘ حالانکہ ان دونوں ہی باتوں میں کوئی صداقت نہیں۔ جہانگیر ترین نے کپتان سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے بار بار نرم گوشے کا بھی اظہار کیا اور کہا کہ عمران خان کو بھی اندر سے اس بات کا اندازہ ہے کہ میں کس طرح کا آدمی ہوں‘ لیکن ان کے سامنے چیزیں کچھ اس انداز میں پیش کی جاتی ہیں جس سے وہ بہک جاتے ہیں۔ خان صاحب کو جس بات میں خود سے غلطی ہونے کا شک ہو جائے اس کو وہ بار بار دہراتے ہیں تاکہ اس کو ٹھیک کیا جا سکے۔
جہانگیر ترین کے ساتھ ہونے والی اس غیررسمی گفتگو میں ان کی طرف سے کوئی واضح اعلان تو سامنے نہیں آیا لیکن انہوں نے جو کچھ کہا اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ تحریک انصاف پر کی گئی مالی سرمایہ کاری اور طویل رفاقت کو بھول کر آگے بڑھنے کے بجائے پارٹی میں اپنا نیا کردار تلاش کر رہے ہیں۔ یہ نیا کردار کیا ہو گا؟ اور کیسا ہوگا؟ یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن ابھی یہ گمان ہے کہ وہ کپتان کے بعد خود کو تحریک انصاف کے لیے ابھی تک بڑی ڈرائیونگ فورس سمجھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ کپتان کے بعد اس جماعت کے اصل وارث وہی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے تحریک انصاف کی حریف جماعتوں کے ساتھ رابطے بھی برقرار رکھے ہوئے ہیں اور شہباز شریف اور آصف زرداری کی طرح مفاہمت کا بیانیہ اپنائے ہوئے ہیں۔ مفاہمت کی بات ہوئی تو میں نے ان سے پوچھا کہ آج کل عدالتوں سے سیاسی نااہلی کے فیصلے ختم ہونے کے بھی اندازے لگائے جا رہے ہیں، کیا ایسا کوئی اشارہ ہے؟ انہوں نے اس کی تصدیق یا تردید سے گریزکیا لیکن اس خیال کو یکسر مسترد بھی نہیں کیا۔ اس برے وقت میں اپنے ساتھ کھڑے ہونے والے ساتھیوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے جہانگیر ترین کا کہنا ہے کہ وہ ان ساتھیوں کی محبت کے مقروض ہیں۔ اس سے پہلے پاکستان میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی بھی سیاسی رہنما، حتیٰ کہ وزیراعظم کے ساتھ بھی اتنی بڑی تعداد میں ممبران اسمبلی عدالتوں میں پیش ہوئے ہوں۔ انہوں نے کہا: مجھے اپنی مٹی سے پیار ہے، میرا جینا مرنا، یہیں اس مٹی میں اپنے ان ساتھیوں کے ساتھ ہے‘ اس بات کا غالب گمان ہے کہ میرے ساتھ کھڑے ہونے والے ساتھیوں کو آئندہ انتخابات میں تحریک انصاف کا ٹکٹ نہ ملے، مگر یہ سب لوگ کشتیاں جلا کر میرے ساتھ آئے ہیں۔ وزیر اعظم صاحب کو تو ایک سویلین ادارے کی طرف سے یہ رپورٹ بھی دی گئی کہ جہانگیر ترین نے سب کو تین تین کروڑ روپے دئیے‘ اس لئے یہ اسکے ساتھ کھڑے ہیں۔
تحریک انصاف کے متعلق ان کے باتوں اور سوچ سے یہ گمان بھی ہوا کہ بڑی جماعتوں کو کٹ ٹو سائز کرنے کے پرانے حربے حکمران جماعت پر بھی آزمائے جا سکتے ہیں، جیسے مشرف دور میں مسلم لیگ سے ہم خیال نکالے گئے یا پیپلز پارٹی سے پٹریاٹ۔ جہانگیر ترین نے چونکہ مستقبل کے متعلق کوئی بھی واضح بات نہیں کی اس لیے یہ سب اندازے ہیں لیکن ماضی کے تجربے کی بنیاد پر ان اندازوں میں کچھ وزن بھی ہے۔ ان کے ساتھ موجود ایک سینئر سیاستدان کا یہ کہنا کہ پاکستان میں وفاقی سطح پر کسی بھی جماعت کو مسلسل دوسری بار حکومت نہیں ملی، ایک تاریخی حقیقت تو ہے ہی لیکن اس گروپ میں پائی جانے والی سوچ کی عکاسی بھی کرتی ہے کہ اگر یہ گروپ کسی اور جماعت کے ساتھ نہیں جاتا ، تب بھی یہ کپتان کی قیادت میں کھیلنے کے موڈ میں نظر نہیں آتا۔ اس بنیاد پر اس اندازے میں وزن ہو سکتا ہے کہ نئے ہم خیال یا پٹریاٹ کی تیاری ہے۔ اس کا ایک اور اشارہ جہانگیر ترین کی طرف سے یہ کہنا ہے کہ آنے والے دنوں میں ان کے گروپ میں مزید لوگ بھی شامل ہوں گے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ 'پٹریاٹ تجربہ‘ نہیں ہوگا بلکہ 'ہم خیال‘ فارمولا ہوگا، یعنی پارٹی میں بڑے پیمانے پر بغاوت اور پارٹی کے نام کے ساتھ نیا دھڑا، جسے مستقبل کے سیاسی منظرنامے میں بڑا کردار مل سکتا ہے۔ 'پٹریاٹ تجربہ‘ سیٹ اپ کے سہارے کیلئے کیا گیا تھا جبکہ 'ہم خیال‘ کا ڈول سیٹ اپ کی تشکیل کیلئے ڈالا گیا تھا اور ایسے لوگوں کو قومی منظرنامے پر بڑا کردار دیا گیا تھا جن کے بارے میں کبھی کسی نے سوچا بھی نہیں تھا۔
جہانگیر ترین اب کپتان کے بارے میں نرم رویہ رکھنے کے باوجود ایک ایسا مقدمہ کھڑا کر رہے ہیں جو آنے والے دنوں میں کپتان کیلئے مشکلات کا باعث بن سکتا ہے۔ ان کا یہ کہناکہ کپتان کے تمام فیصلے وزیر اعظم ہاؤس میں بیٹھا ایک بیوروکریٹ کر رہا ہے اور اب تو صورتحال اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ کابینہ کے ارکان کے ساتھ کپتان کی ون آن ون ملاقات بھی ون آن ون نہیں ہوتی بلکہ وہ بیوروکریٹ سائے کی طرح ساتھ رہتا ہے‘ میرے نزدیک یہ بات اس مقدمے کا ابتدائیہ ہے۔ جہانگیر ترین مستقبل میں وزیراعظم ہاؤس میں فیصلہ سازی کے معاملات پر زیادہ تفصیلی گفتگو شروع کر سکتے ہیں جس سے کپتان کے انداز حکمرانی کی جھلک نظر آئے گی۔ ابھی تک جہانگیر خان ترین حتمی فیصلہ نہیں کر پائے اس لیے تحریک انصاف کی کشتی سے اترنے کا اعلان نہیں کر رہے، جب فیصلہ ہو گیا تو گھر کا بھیدی لنکا ڈھانے سے گریز نہیں کرے گا۔