انتخابات کہیں بھی ہوں؟ حکومت کوئی بھی ہو؟ اپوزیشن کتنی ہی نالائق کیوں نہ ہو؟ سیاسی جماعتیں کتنی ہی پارسا، قابل اور جمہوریت پسند کیوں نہ ہوں انتخابی جلسوں میں ایک دوسرے پر تنقید کرنا، ایک دوسرے پر مختلف طرح کے الزامات عائد کرنا اور تابڑتوڑ حملے کرنا ہمارے سیاسی کلچر کا حصہ بن چکا ہے‘ لیکن اس بار آزاد کشمیر کے انتخابات میں حکومتی جماعت پاکستان تحریک انصاف سے لے کر اپوزیشن کی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی قیادت تک‘ جو الزامات ایک دوسرے پر لگائے جا رہے ہوں اور جس گھن گرج کے ساتھ مخالفین کو کشمیر فروش ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اس کی مثال ماضی میں کم ہی ملتی ہے۔ آج کے کالم میں اپنے رہنمائوں کی گفتگو سنیں اور پھر کوئی نتیجہ اخذ کریں کہ کیا مہذب معاشروں میں سیاسی چلن ایسے ہی ہوتے ہیں؟
وفاقی وزیر برائے امور کشمیر علی امین گنڈا پو رویسے تو کسی نہ کسی بات پر خبروں کی زینت بنے رہتے ہیں ، لیکن ان کے قبضے سے برآمد ہونے والی ''شہد کی بوتلوں‘‘ والی خبر کو لوگ آج تک نہیں بھولے، آزاد کشمیر میں ہونے والے انتخابی جلسوں میں دھواں دھار تقریروں اور کشمیری عوام میں رقوم تقسیم کرنے کی ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد وہ اب ایک بار پھر میڈیا پرموضوعِ بحث ہیں۔25 جولائی کو ہونے والے آزاد کشمیر کے انتخابات کی انتخابی مہم میں پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتیں زور لگانے میں مصروف ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں کی بات کریں تو مسلم لیگ (ن) نے اگر سابق وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز کو میدان میں اتارا ہے تو پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو خود مہم چلا رہے تھے۔ اگرچہ اب وہ امریکہ کے نجی دورے پر ہیں لیکن پیپلز پارٹی کی قیادت اپنی مہم جاری رکھے ہوئے ہے۔ دوسری طرف حکومت کی جانب سے وفاقی وزیر برائے امور کشمیر علی امین گنڈا پور پی ٹی آئی کی مہم کے سرخیل ہیں۔ علی امین صاحب الیکشن مہم کے آغاز میں ہی تنازعات کی زد میں آگئے تھے جب ان کی مبینہ طور پر پیسے بانٹنے کی ویڈیو منظر عام پر آئی۔ اس کے بعد وزیر موصوف اپنی تقریر میں نامناسب الفاظ کے استعمال پر بھی خبروں کی زینت بنے رہے۔ پھر ان کی جانب سے 500 ارب روپے کے فنڈز کا اعلان بھی کر دیا گیا ہے، جو پی ٹی آئی الیکشن جیتنے کی صورت میں وہاں کی حکومت کو دینے کا ارادہ رکھتی ہے۔ پتا نہیں یہ آفر صرف پی ٹی آئی کے ہی الیکشن جیتنے کی صورت میں برقرار رہتی ہے یا اگر کوئی اور جماعت الیکشن جیت گئی تو اسے بھی حاصل ہوگی‘ اس کا واضح طور پر نہیں بتایا گیا‘ لیکن علی امین اپنی اس ویڈیو میں ایک شخص کو رقم تھماتے ہوئے یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ میں آپ کو یہ پیسے دے رہا ہوں، فی الحال اتنا گزارہ کرلیں۔ پی ٹی آئی رہنما چوہدری راسب نے یہ اعتراف تو کیا کہ انہیں وفاقی وزیر سے تین لاکھ نوے ہزار روپے ملے تھے‘ لیکن ان کا کہنا تھاکہ اس رقم کا پی ٹی آئی کے امیدوار اظہر صادق اور ان کے الیکشن سے کوئی تعلق نہیں۔ انتخابی مہم میں علی امین گنڈا پور نے آزاد کشمیر کے باسیوں کو پی ٹی آئی کے امیدواروں کو ووٹ دینے کے نتیجہ میں ناصرف بڑے ترقیاتی پیکیج دینے کا اعلان کیا بلکہ ان کو گلگت بلتستان میں ایک ووٹ کی لیڈ پر ایک کروڑ روپے کا پیکیج دینے کا اپنا ہی وعدہ بھی یاد دلایا، اور کہا کہ آپ لوگ جو مانگ رہے ہیں ان سے کہیں زیادہ ملے گا۔
آزاد کشمیر میں ایک انتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے علی امین گنڈا پور نے سابق وزیراعظم ذوالقفار علی بھٹوکو غدار اور سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کو ڈاکو قرار دیا، انہوں نے الزام عائد کیاکہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے کرپشن کے تمام ریکارڈ توڑے۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان کشمیریوں کے وکیل بن کر ان کا مقدمہ ہر فورم پر لڑ رہے ہیں‘ وہ پسماندہ علاقوں کو ترقی دینا چاہتے ہیں۔ فارورڈ کہوٹہ میں انتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر مراد سعید نے کہا کہ اس وقت بھی آزاد کشمیر میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہے اور وزیر اعظم بھی نون لیگ کا ہے‘ لیکن یہ اب بھی چیخیں مار رہے ہیں، فریاد کر رہے ہیں کہ دھاندلی ہو رہی ہے، یہ بالکل اسی طرح ہو رہا ہے جیسے گلگت بلتستان میں ہوا تھا۔
اپوزیشن کی بات کریں تو مسلم لیگ ن کی جانب سے مریم نواز جلسوں میں ہدف تنقید وزیر اعظم عمران خان کو ہی بنا رہی ہیں۔ کوٹلی آزاد کشمیر میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے مریم نواز نے الزام عائد کیا کہ عمران خان کشمیر کا مقدمہ ہار کر آ گئے اور کہتے ہیں کہ میں کیا کروں؟ وہ بزدل بھی ہیں۔ میں نے کافی جگہ یہ نعرہ سنا اور اب میں خود بھی یہی نعرہ لگاتی ہوں،... بچہ بچہ کٹ مرے گا... کشمیر صوبہ نہیں بنے گا... ہم شہدائے کشمیر کی قربانیوں کو ضائع نہیں ہونے دیں گے۔
دوسری طرف بلاول بھٹو زرداری نے اپنی توپوں کا رخ پی ٹی آئی کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ ن کی طرف بھی رکھا اور نون لیگ پر چوٹ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا۔ انہوں نے مسلم لیگ (ن) پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ہم تو جیل میں ملنے گئے تھے، انہوں نے باہر آ کر بیان دیا کہ یہ نظریاتی ہو گئے ہیں‘ پہلے کہتے تھے آر ہو گا یا پار ہو گا، اب کہتے ہیں پائوں پکڑیں گے۔ سلیکٹڈ کو ہٹانے کے لیے ان لوگوں نے ساتھ نہ بھی دیا تو جیالوں کے ساتھ مل کر اس حکومت کو گھر بھیجیں گے۔ وزیر اعظم عمران خان اور ان کی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ ''کشمیر کے عوام نہ نئی دہلی کی ڈکٹیشن پر چلیں گے اور نہ ہی بنی گالا کی ڈکٹیشن پر چلیں گے‘ کلبھوشن کو این آر او دینا ہے تو عمران خان خود دیں، پیپلز پارٹی اس میں ملوث نہیں ہوں گی‘‘۔ کسی وفاقی وزیر کا نام لیے بغیر پیپلزپارٹی کے چیئرمین نے کہا کہ ''عمران خان ہر دوسرے روز ایک گندا وزیر لے آتے ہیں، سنا ہے کوئی گندا وزیر کشمیر پہنچ کر ووٹ خریدنے کی کوشش کر رہا ہے، کشمیری عوام ایسے حربوں کو ناکام بنا دیں گے‘‘۔
یاد رہے کہ پانچ برس قبل جولائی ہی میں منعقد ہونے والے آزاد کشمیر کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) نے اس وقت کی 49 نشستوں میں سے 31 نشستوں پر کامیابی حاصل کرکے دو تہائی اکثریت کے ساتھ حکومت بنائی تھی۔ اب کی بار آزاد کشمیر اسمبلی کی نشستوں کی تعداد 53 ہے جس میں خواتین کے لیے 5، ٹیکنوکریٹ، علما مشائخ اور بیرونِ ملک کشمیریوں کے لیے ایک ایک نشست مخصوص ہے۔
45 براہ راست نشستوں میں سے 33 جموں و کشمیر کے علاقے میں ہیں، جہاں 28 لاکھ 17 ہزار سے زائد ووٹرز رجسٹرڈ ہیں جن میں 12 لاکھ 97 ہزار خواتین ہیں، جبکہ 12 نشستیں پاکستان کے مختلف حصوں کی ہیں، جس کے 4 لاکھ 30 ہزار 456 رجسٹرڈ ووٹرز ہیں، جن میں ایک لاکھ 70 ہزار 931 خواتین ہیں۔ پاکستان میں پائی جانے والی ان 12 نشستوں پر سب سے بڑا اعتراض شفافیت کا ہی ہوتا ہے جبکہ نون لیگ آزاد کشمیر کے اندر دھاندلی کا عندیہ بھی دے رہی ہے۔ ماضی میں آزاد کشمیر کے انتخابات اور ان کے نتائج کا جائزہ لیں تو یہی بات سامنے آتی ہے کہ ان انتخابات میں عموماً وہی جماعت حکومت بناتی ہے جسے اسلام آباد کی اشیرباد حاصل ہو، وفاق پاکستان میں برسراقتدار جماعت ہی مظفر آباد میں اپنی حکومت قائم کرتی ہے۔ اس کا ایک مظہر ہم گلگت بلتستان میں بھی دیکھ چکے ہیں کہ اپوزیشن کی بھرپور مہم کے باوجود میدان پی ٹی آئی نے ہی میدان مارا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے یا 25 جولائی کے نتائج نئی تاریخ بناتے ہیں۔