"IYC" (space) message & send to 7575

داسو حادثہ اور سی پیک!!

خیبر پختونخوا کے ضلع اپر کوہستان میں داسو ہائیڈرو پاور پلانٹ کے قریب ایک حملے میں 9 انجینئرز، دو فرنٹیئر کور (ایف سی) اہلکاروں سمیت کم از کم 12 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے؛ تاہم پاکستانی حکام کی طرف سے ابتدائی اطلاعات یکساں نہ تھیں۔ وزیر اعظم کے مشیر برائے پارلیمانی امور بابر اعوان نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے اسے ایک 'بزدلانہ حملہ‘ قرار دیا۔ کئی گھنٹے بعد دفتر خارجہ نے حملے کی خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ بس 'تکنیکی خرابیوں‘ کے باعث کھائی میں گر گئی، جس کے نتیجے میں گیس کا اخراج ہوا جس سے دھماکا ہوا۔
قومی میڈیا ایسے معاملات میں مکمل طور پر سرکاری اطلاعات پر انحصار کرتا ہے کیونکہ ایسے واقعات نا صرف ملک کی سکیورٹی صورت حال کے حوالے سے اہم ہوتے ہیں بلکہ کسی دوست ملک کے شہری ایسے واقعات میں جان سے جائیں تو سفارتی سطح پر بھی پیچیدگیاں بن سکتی ہیں۔ قومی میڈیا نے محتاط اور درست رویہ اپنایا اور سرکاری اطلاعات پر کسی تبصرے سے گریز کرتے ہوئے ان اطلاعات کو خبروں میں جگہ دی۔
ملکی حکام کی جانب سے یکساں معلومات نہ ملنے کے بعد جب بیجنگ میں چینی وزارت خارجہ کے ترجمان ژاؤ لیجیان نے رد عمل دیا تو صورت حال کچھ واضح ہوئی۔ چینی وزارت خارجہ کے ترجمان ژاؤ لیجیان نے واقعہ کو بم حملہ قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی اور پاکستان پر زور دیا کہ وہ ملک میں 'چینی شہریوں، تنظیموں اور منصوبوں کی حفاظت‘ کے لیے 'مجرمان کو‘ سخت سے سخت سزا دے۔ چین کی وزارت خارجہ کے رد عمل نے قومی میڈیا کو قدرے کنفیوز کیا لیکن بھارت سمیت پاکستان مخالف سوچ رکھنے والے غیر ملکی میڈیا نے اس تضاد بیانی کو نمایاں کرتے ہوئے کسی اختلاف‘ یا دوستی میں کسی دراڑ کو تلاش کرنے کی کوشش کی، جو ناکام رہی۔ ایسا غالباً اس لیے ہوا کہ وفاقی حکومت کے ترجمانوں اور وزرا کو ہر معاملے پر رائے دینے کی آزادی ہے اور متعلقہ وزارتوں یا حکام کی رائے کا انتظار کئے بغیر ہر کوئی سب سے پہلے کی دوڑ میں شامل ہو جاتا ہے۔ دفتر خارجہ کی طرف سے ابتدائی بیان جاری کرنے میں بھی قدرے جلدی کی گئی اور دور دراز علاقے میں پیش آئے واقعہ کی ابتدائی تحقیقات کا بھی انتظار نہ کیا گیا‘ یوں ایک ایسا ابہام پیدا ہوا جس نے پاکستان مخالف میڈیا کو اپنی مرضی کے رنگ بھرنے کا موقع مہیا کیا۔
ابتدائی تحقیقات میں اس واقعہ کو حملہ قرار دیا گیا اور مشترکہ تحقیقات بھی شروع کی جا چکی ہیں لیکن اب بھی کچھ حلقے ابتدائی کنفیوژن کی بنیاد پر مفروضے گھڑنے میں مصروف ہیں۔ صورت حال کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے چین کے ہم منصب سے رابطہ کرکے چینی انجینئرز کی ہلاکت پر تعزیت کی اور چینی وزیر اعظم کو ابتدائی تحقیقات کے نتائج سے آگاہ کیا۔ وزیر اعظم کا چینی ہم منصب کو فون دونوں ملکوں کے باہمی اعتماد اور اس واقعہ کو سنجیدگی سے لینے کا عکاس ہے۔
جو لوگ پاک چین تعلقات پر قیاس آرائیاں کر رہے ہیں انہیں چین کے میڈیا اور سکیورٹی ماہرین کی رائے بھی ضرور پڑھنی اور سننی چاہئے۔ بیجنگ کی سنگ ہوا یونیورسٹی کے نیشنل سٹریٹیجی انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر چیان فینگ نے گلوبل ٹائمز سے بات کرتے ہوئے اس معاملے پر رائے دی اور واقعہ میں کالعدم ٹی ٹی پی کے ملوث ہونے کا شبہ ظاہر کیا۔ چیان فینگ نے کہا کہ کالعدم ٹی ٹی پی پاکستانی حکومت، شہریوں اور فوج پر حملوں میں ملوث رہی ہے اور حالیہ برسوں میں اس گروہ نے پاکستان میں چین کے منصوبوں کو بھی نشانہ بنایا‘ جبکہ چین کے سیاحوں پر حملوں میں بھی اس کا نام آتا رہا ہے۔ اس گروہ کو علم ہے کہ پاکستان‘ چین کے ساتھ تعلقات کو انتہائی اہمیت دیتا ہے؛ چنانچہ یہ گروہ دونوں ملکوں کے دو طرفہ تعلقات کو سبوتاژ کرنا چاہتا ہے۔ پاکستان نے اس گروہ کے خلاف مسلسل آپریشنز کئے ہیں اور اس گروہ کا پاکستان میں تقریباً خاتمہ ہو چکا تھا اور اس تنظیم کے بچے کھچے لوگ افغانستان میں پناہ لئے ہوئے تھے‘ لیکن امریکی انخلا کے بعد سے یہ گروہ دوبارہ حوصلہ پکڑ رہا ہے۔
چین کے ایک اور سٹریٹیجک اور انٹرنیشنل امور کے ادارے 'ساؤتھ ایشیا، ساؤتھ ایسٹ ایشیا، اینڈ اوشیانا ریسرچ انسٹی ٹیوٹ‘ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سکیورٹی صورت حال گزشتہ برسوں کی نسبت بہتر ہوئی ہے اور حملوں کی تعداد میں کمی آئی ہے‘ لیکن چین کے منصوبوں اور شہریوں پر حملوں کا ٹرینڈ دو سال کے دوران بڑھا ہے، جس کی وجہ سی پیک کا بہترین انداز میں آگے بڑھنا ہے، جبکہ کچھ عناصر سی پیک منصوبے کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں۔ چینی ماہرین نے ایک اور اہم پہلو کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ 'ایسٹ ترکمانستان اسلامک موومنٹ‘ کے نام سے متحرک گروہ کے کچھ کارندے افغانستان سے پاکستان کا رخ کر چکے ہیں اور وہ بھی چین کے مفادات کو نشانہ بناتے ہیں۔ افغان طالبان اس گروہ کے کارندوں کو پناہ فراہم کرتے رہے ہیں‘ لیکن اب افغان طالبان چین کے ساتھ تعلقات میں بہتری چاہتے ہیں اس لیے ایسٹ ترکمانستان اسلامک موومنٹ کے کارندوں کے لیے افغان سرزمین تنگ ہو رہی ہے اور طالبان ان کو پناہ دینے سے انکاری ہیں۔ ممکن ہے اسی وجہ سے اس گروہ کے کارندے پاکستان کا رخ کر رہے ہوں اور کالعدم ٹی ٹی پی کی پناہ میں آ رہے ہوں۔ چین کے ماہرین نے بھارت کا نام لئے بغیر اس کی طرف بھی انگلی اٹھائی اور کہا کہ اس واقعے میں تیسرے ملک کی خفیہ ایجنسی بھی ملوث ہو سکتی ہے، اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ خطے کا ایک ملک پاک چین تعلقات کو سبوتاژ کرنا چاہتا ہے۔
چین کے سٹریٹیجک امور کے ماہرین نے اس واقعہ کے بعد سامنے لائی جانے والی معلومات یکساں نہ ہونے سے پیدا ہونے والی صورت حال کو بھی نوٹ کیا اور کہا کہ اس طرح کے معمولی تضادات غلط فہمی کی بنیاد پر ابھرے اور یہ اس قدر معمولی ہیں کہ ان کی وجہ سے مغربی دنیا کی خواہش کبھی پوری نہیں ہو گی، ایسے حملوں کی تصدیق کے لیے وقت درکار ہوتا ہے اور فوری رد عمل کی وجہ سے کبھی کبھی غلط اندازے ظاہر ہو جاتے ہیں۔ اب پاکستان کے وزیر اعظم کا فون پاکستان کے خلوص اور باہمی اعتماد کا مظہر ہے اور وقتی طور پر پیدا ہونے والا ابہام دم توڑ چکا ہے۔
اس حالیہ کارروائی سے اگرچہ دو طرفہ تعلقات پر اثر انداز ہونے کی بیرونی کوششیں تو کامیاب نہیں ہوئیں‘ لیکن پاکستان کو اب چینی کمپنیوں کی سکیورٹی کو مزید بہتر بنانے اور زیادہ چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔ افغانستان سے امریکی فوج کی واپسی کے خطے کے حالات پر بھی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ بھارت نے افغانستان میں جو سرمایہ کاری کی تھی‘ وہ خطرے میں پڑ چکی ہے اور پاکستان کے خلاف سفارتی سرگرمیوں کی آڑ میں اس نے جو دہشت گرد کا نیٹ ورک بنا رکھا تھا‘ اسے بھی کام کرنے کی آسانی میسر نہیں رہی، ان حالات میں دشمن، پاکستان کے اندر سے کارروائیوں کی کوشش کر سکتا ہے اور چینی ماہرین نے جس طرح کالعدم ٹی ٹی پی اور ایسٹ ترکمانستان اسلامک موومنٹ کی طرف اشارہ کیا، اس پہلو پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں