جنگ کوئی بھی ہو ایک نہ ایک روز ختم ہو جاتی ہے۔ امریکا کی افغانستان میں 20 سال طویل جنگ بھی آخرکار ختم ہو گئی۔ امریکی فوج کی سنٹرل کمانڈ نے افغانستان میں امریکی فوج کے آخری ممبر 82ویں ایئربورن ڈویژن کے کمانڈر میجر جنرل کرس ڈوناہو کی طیارے میں سوار ہونے کی تصویر جاری کی اور ساتھ ہی یہ اعلان کیا کہ افغانستان سے امریکی فوج کا انخلا مکمل ہو گیا۔ افغان طالبان نے امریکی فوج کو انخلا مکمل کرنے کیلئے 31اگست کی ڈیڈ لائن دی تھی۔ ستمبر2001ء کے حملوں کے بعد اس وقت کے امریکی صدر جارج بش نے القاعدہ اور طالبان کے خلاف یہ جنگ شروع کی تھی۔ بش نے وائٹ ہاؤس میں اپنی صدارت کی دو مدتیں پوری کیں پھر بارک اوباما آئے، انہوں نے بھی وائٹ ہاؤس میں 8 سال گزارے۔ ڈونلڈ ٹرمپ اگلے چار سال وائٹ ہاؤس کے مکین رہے۔ اب جوبائیڈن کے دور میں امریکی فوجی افغانستان سے وطن واپس لوٹ رہے ہیں۔
دہشتگردی کے خلاف جنگ نے ان 20 سالوں میں دنیا میں بہت کچھ بدل کر رکھ دیا، ایک نسل جوان ہوئی، ایک نسل اپاہج ہوئی اور ایک نسل موت کے منہ میں چلی گئی۔ جنگ شروع کرنے والوں نے دنیا کو رہنے کیلئے ایک محفوظ مقام بنانے کے نعرے دیئے تھے‘ اب 20 سال طویل جنگ کے بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا دنیا واقعی پہلے سے محفوظ ہو چکی ہے؟ کیا دہشتگردی اور انتہاپسندی کے عفریت قابو میں آچکے ہیں؟ 20 سال پہلے امریکا نے طالبان کی افغانستان میں حکومت ختم کی تو جارج بش اور ان کے اتحادیوں نے افغانستان کو تنہا نہ چھوڑنے کے اعلانات کیے۔ 20 سال بعد دنیا نے دیکھا کہ امریکا رات کی تاریکی میں افغانستان سے نکل آیا۔ امریکا نے طالبان کی حکومت ختم کرنے کیلئے افغانستان پر حملہ کیا تھا، اب 20 سال بعد ایسا مجبور ہوا کہ افغانستان ایک بار پھر انہی طالبان کے کنٹرول میں چھوڑ آیا۔ امریکا نے 3اور 4 جولائی کی درمیانی شب بگرام کا سب سے بڑا فوجی اڈہ بھی رات کی تاریکی میں خالی کیا تھا۔ میجر جنرل کرس ڈوناہو بھی رات کی تاریکی میں طیارے میں سوار ہوئے ہیں۔ فوجی وردی میں ملبوس امریکی کمانڈر نے داہنے ہاتھ میں گن اٹھا رکھی ہے، سپاٹ چہرہ کے ساتھ طیارے میں سوار ہوتے کرس کی تصویر تاریخ کے اوراق میں ہمیشہ زندہ رہے گی۔ اس تصویر کے ساتھ یہ سوال جنم لیتا رہے گا کہ 20 سال کی جنگ نے امریکا، افغانستان اور دنیا کو کیا دیا؟
امریکی فوج کا انخلا مکمل ہونے پر طالبان نے خوب جشن منایا، افغانستان ایک بار پھر ایک سپر پاور کا قبرستان بن گیا۔ روس بھی 10سال طویل جنگ کے بعد افغانستان سے خالی ہاتھ رخصت ہوا، سلطنت برطانیہ بھی افغانستان کو سرنگوں کرنے کا خواب پورا نہ کرسکی تھی۔ عالمی طاقتوں کی افغانستان میں شکست اپنی جگہ لیکن اس سرزمین پر مسلط کی گئی جنگوں نے انہیں افغانوں کیلئے ضرور قبرستان بنائے رکھا۔ پاکستان سمیت دنیا کے کئی ممالک میں افغان شہری بے وطنی کی زندگیاں گزارنے پر مجبور ہیں۔ امریکی فوج کے انخلا کے اعلان کے ساتھ دنیا بھر کی ٹی وی سکرینوں اور سوشل میڈیا پر کابل ایئرپورٹ کے مناظر بار بار دہرائے جاتے رہے۔ ان میں وہ دل دوز مناظر بھی تھے جن میں زندگی کی تلاش میں طیاروں کے پہیوں کے ساتھ لٹک کر افغانستان سے نکلنے والے موت کے منہ میں چلے گئے۔پھر کابل ایئرپورٹ پر دھماکے اور فائرنگ کے بعد برپا ہونے والی قیامت نے دل دہلا کر رکھ دیئے۔ اس دھماکے کے انتقام کے لئے امریکی ڈرون حملے میں بے گناہ شہریوں اور بچوں کی ہلاکت نے دل چیر کر رکھ دیئے۔ سوشل میڈیا پر اس ڈرون حملے میں جان سے جانے والے ننھے بچوں کی تصاویر عالمی امن کے ضامنوں سے سوال کرتی نظر آتی ہیں کہ ان کے پیدا ہونے سے پہلے ان پر مسلط ہونے والی جنگ ختم ہونے کے بعد بھی ختم ہونے میں کیوں نہیں آرہی۔ افغانستان سے زندہ بچ کر نکل جانے والے خاندانوں کے بچوں کے بھی دوسرے ممالک کے ایئرپورٹس پر خوشی سے جگمگاتے چہرے نظرآتے ہیں۔ افغانستان سے زندہ بچ کرنکل جانے کی خوشی اس سوال کو بھی جنم دیتی ہے کہ امریکا 20 سال بعد واپس تو چلا گیا لیکن کتنا محفوظ افغانستان چھوڑ کر گیا ہے؟ اب طالبان کے ہاتھوں میں افغانستان کتنا محفوظ ہوگا؟
طالبان ابھی حکومت سازی کے عمل میں مصروف ہیں۔ طالبان کا اب تک کا مجموعی رویہ کافی مثبت اور حوصلہ افزا ہے۔ دنیا بھرکی نظریں اب طالبان کے طرز عمل کو جانچ رہی ہیں جس کے بعد دنیا افغانستان میں بننے والی طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرے گی۔ انگریزی کی ایک کہاوت ہے ''جتنا بڑا عہدہ ہوتا ہے پریشانی بھی اتنی زیادہ ہوتی ہے‘‘۔ اقتدار کانٹوں کی سیج ہے۔ طالبان نے دنیا کی سب سے بڑی سپرپاور سے ایک طویل عرصے تک گوریلا جنگ لڑی اور پھر اپنا وطن واپس حاصل کرلیا۔ اب اس ملک کو سیاسی اور معاشی طور پر چلانا اور یہاں کے عوام کو اپنی طرز حکمرانی سے مطمئن رکھنا طالبان کیلئے ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ کابل ایئرپورٹ پر ہونے والے دھماکے بھی طالبان کے لئے ایک خطرے کی گھنٹی ہیں۔ داعش کی صورت میں طالبان کے اقتدار کو چیلنج کرنے والی ایک اور قوت بھی افغانستان میں موجود ہے۔ امریکا 20 سال تک دہشتگردی اور شدت پسندی کے خلاف جنگ کرکے تھک ہار کر اس خطے سے چلا گیا تاہم شدت پسندی اور دہشتگردی کا خطرہ کیا واقعی ختم ہو گیا ہے؟ افغان عوام کو یہی سوال سب سے زیادہ ستا رہا ہوگا۔ یہی سوال افغانستان کے ہمسایہ ممالک کیلئے بھی تشویش کا باعث ہے۔ امریکا کی جنگ تو ختم ہو گئی‘ کیا افغان عوام اور افغانستان کے ہمسایوں کیلئے بھی جنگ ختم ہوگئی ہے؟ کیا 20 سال طویل یہ جنگ اس خطے میں امن کی راہ ہموار کرگئی ہے؟ افغانستان میں جس تیزی سے منظرنامہ بدلا ہے‘ ایسے میں کچھ تجزیہ کار مثبت اشارے دیکھتے ہوئے پُرامید ہیں کہ امن جلد قائم ہوگا۔ ایسا ہو جائے تو گزشتہ 40 سال سے جنگوں کی بھٹی میں جلتے افغان عوام کیلئے یہ واقعی خوش کن امر ہوگا تاہم یہ سوال اپنی جگہ پر اب بھی قائم ہے کہ واقعی سب اتنا سادہ ہے جتنا نظر آ رہا ہے یا صرف امریکا کی طویل ترین جنگ کا خاتمہ ہوا ہے؟
دوسری طرف امریکااور نیٹو افواج کے انخلا کے بعد افغانستان پر طالبان کی عملداری تو قائم ہو گئی ہے لیکن میرے نزدیک ایک اہم سوال یہ ہے کہ مختلف ادوار میں سپر پاورز براہ راست یا اپنی کٹھ پتلیوں کے ذریعے یہاں حکومتیں کرتی رہی ہیں۔ پہلے روس نے ببرک کارمل اور نجیب اللہ کے ذریعے اور پھر امریکا نے حامد کرزئی اور اشرف غنی کی صورت میں افغانستان پر اپنا تسلط قائم رکھا لیکن افغانستان کے عام عوام کی حالت نہ بدل سکی۔ اشرف غنی کے دور میں وزارت خزانہ کی طرف سے جاری کئے جانے والے اعدادوشمار کے مطابق آج بھی 90فیصد سے زائد افغان شہری خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ افغانستان میں اس وقت عام آدمی کیلئے صحت، تعلیم اور اس جیسی دیگر بنیادی سہولیات کاڈھانچہ بری طرح متاثر ہوا ہے۔ حالیہ افراتفری میں افغانستان سے کئی قابل ڈاکٹرز، انجینئرز اور دیگر ماہرین ملک چھوڑ کر جا چکے ہیں۔ افغانستان کاشمار دنیاکے ان چند ملکوں میں ہوتا ہے جہاں پولیوآج بھی موجود ہے۔ اب بھی ان خدشات کااظہارکیا جارہا ہے کہ 30 لاکھ سے زائد بچے اس سال بھی پولیو کی ویکسین سے محروم رہ جائیں گے۔ کابل، قندھار اور جلال آباد سمیت چند بڑے شہروں کو چھوڑ کر افغانستان کی تقریباً ڈھائی کروڑ کے قریب آبادی آج بھی ایسے شہروں، قصبوں اور دیہات میں رہتی ہے جہاں ان کیلئے بنیادی سہولیات کا فقدان ہے۔ یہ محرومیاں افغان عوام کو کسی نئی جنگ کی طرف تو نہیں دھکیل دیں گی؟ ایک کہاوت ہے: امن دو جنگوں کے درمیان کا ایک وقفہ ہوتا ہے۔ ہمیں اللہ سے دعا کرتے ہوئے یہ امید رکھنی چاہئے کہ اب کی بار افغانستان میں امن ایک وقفہ ثابت نہ ہو!!