"IYC" (space) message & send to 7575

ڈبہ، ٹھپہ اور بٹن

حکومت نے حیران نہ کرنے والا سرپرائز دے ہی دیا۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے الیکشن اصلاحات ترمیمی بل منظور کروا لیا۔ آئندہ انتخابات میں اوورسیز پاکستانی بھی ووٹ ڈالیں گے۔ یہی نہیں اپنے پسندیدہ امیدوار کو ووٹ دینے کے لیے اب مہر ثبت کرنے کے بجائے، الیکٹرانک ووٹنگ مشین یعنی ای وی ایم کا بٹن دبایا جائے گا۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے پہلے ہی حکومتی وزرا اور معاونین سرپرائز دینے کی نوید سنا رہے تھے۔
وزیر اعظم عمران خان پارلیمنٹ ہاؤس کی راہداری میں پہنچے تو صحافی نے سوال کیا کہ آپ ارکان سے ملاقاتیں کر رہے ہیں، کیا کوئی پریشانی ہے؟ شیخ رشید کی سفارش پر وزیر اعظم عمران خان صحافیوں کے پاس آئے اور جواب دیا: کون کر رہا ہے ملاقاتیں؟ اس موقع پر عمران خان خاصے پر اعتماد نظر آئے اور انہوں نے ایک بار پھر کہا ''کھلاڑی جب میدان میں چلتا ہے، تو وہ ہر چیزکے لیے تیار ہوتا ہے، وہ مخالف سے بہتر کارکردگی دکھانے کے لیے تیار ہوتا ہے‘‘۔
بدھ کے روز تحریک انصاف کی حکومت نے اپنی جماعت کے ناراض ارکان اور اتحادیوں کو ساتھ ملا کر الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں سمیت انتخابی اصلاحات کا بل اور درجنوں مزید بل منظور کرا لیے۔ سب سے زیادہ شور الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور انتخابی اصلاحات پر تھا۔ حکمران جماعت اسے اپنی سب سے بڑی کامیابی قرار دے رہی ہے اور اس کا موقف ہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی طرف سے بھیجا گیا زر مبادلہ تو ہر کوئی چاہتا ہے لیکن انہیں ووٹ کا حق دینے پر اعتراض کرتے ہیں؛ تاہم تحریک انصاف نے انہیں یہ حق دے دیا‘ اسی طرح الیکٹرانک ووٹنگ مشین سے دھاندلی کا راستہ روک دیا گیا ہے جس پر کپتان مبارکباد کا مستحق ہے۔ اپوزیشن کا موقف ہے کہ آر ٹی ایس کے ذریعے الیکشن چرایا گیا تھا اب الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے دھاندلی کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ کے حق پر اپوزیشن کا موقف ہے کہ ان کے ووٹ اور نمائندگی کے مخالف نہیں‘ لیکن ووٹ پیرس میں پڑے اور نتیجہ ملتان کا بدل جائے یہ طریقہ کار منظور نہیں۔
دراصل ہو کیا رہا ہے؟ یہ کوئی بھی بتانے کو تیار نہیں۔ واقفان حال کے مطابق کچھ حلقے اب بھی جمہوریت کے نام پر من مرضی کا نظام بنائے رکھنا چاہتے ہیں؛ چنانچہ ممکن ہے کہ آج جو خوشی کے شادیانے بجا رہے ہیں کل وہی اس کا رونا روتے نظر آئیں۔ منصوبہ ساز کب کیا کر جائیں مجھے غیب کا علم بالکل نہیں، لیکن مکافات عمل بھی کسی شے کا نام ہے۔ میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ آج جو شادیانے بجا رہے ہیں کل دھاندلی نہ بھی ہوئی تو روتے نظر آئیں گے اور الزام انہی الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں پر دھریں گے۔ اصل کہانی یہ ہے کہ اس نظام کو بنانے اور چلانے والے پورا زور لگا کر اس بل کو منظور کرانے کی کوشش کرتے رہے اور کامیاب بھی ہوئے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق آر ٹی ایس کے معاملے میں جو کچھ ہوا‘ اس پر انگلیاں اٹھنے کے بعد اگلی بار کے لیے کیا جانے والا یہ بندوبست کامیاب نہ بھی رہا تو اس کے الزام کے لیے کوئی چہرہ سامنے نہ ہو گا۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشین ایک بے چہرہ اور بے زندگی شے ہے جس پر الزام آیا بھی تو کبھی بول نہیں سکے گی اور مشینوں کے ساتھ کیا ہوا اور ووٹ کتنے اور کیسے ادھر سے ادھر ہوئے اس پر جتنے بھی اندازے لگائے گئے کوئی چہرہ ٹارگٹ نہیں ہو گا۔
اس مشترکہ اجلاس میں بننے والے نئے قانون کے مطابق گورنر سٹیٹ بینک کو صرف کوئی عدالت سنگین مس کنڈکٹ کی صورت میں ہٹا سکے گی اور سٹیٹ بینک کے گورنر، ڈپٹی گورنرز، بورڈ آف ڈائریکٹرز کے خلاف کوئی حکومتی ادارہ سرکاری ذمہ داریوں کے سلسلے میں کسی قسم کی تحقیقات صرف تبھی کر سکے گا جب سٹیٹ بینک کا بورڈ خود اس کی منظوری دے۔ یہ ایک ایسی ترمیم ہے جس کے بعد گورنر سٹیٹ بینک اس ملک کی کسی بھی قیادت کو جوابدہ نہیں رہے گا۔
سٹیٹ بینک کے آئی ایم ایف سے درآمدہ گورنرز اور حکومتوں کے ساتھ چپکائے گئے خزانہ کے مشیر کیا کریں گے‘ اس کی تصدیق اسی حکومت کے مشیر خزانہ نے کارپوریٹ فلنتھراپی سروے کے اجرا کے موقع پر خود کی۔ شوکت ترین نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ آئی ایم ایف سے معاملات طے پا چکے ہیں، بس پانچ پیشگی اقدامات (شرائط) پوری کرنا ہیں، پہلی شرط: سٹیٹ بینک ترمیمی بل کی منظوری، دوسری: ٹیکسوں میں دی گئی چھوٹ کا خاتمہ اور تیسری شرط بجلی، گیس کے بلوں میں اضافہ ہے۔ بجلی کے یونٹ کا نرخ بڑھا کر ایک شرط پوری کی جا چکی ہے مزید اضافہ مارچ 2022ء میں بھی کرنا ہو گا۔ مشترکہ اجلاس میں سٹیٹ بینک ترمیمی بل منظور کر کے دوسری شرط بھی پوری کر دی گئی۔ ان ترامیم کے بعد حکومت کا کردار ختم ہو جائے گا اور سٹیٹ بینک بین الاقوامی مالیاتی اداروں کو قرض ادا کرے گا۔ قانون میں ترمیم کے مطابق جب سٹیٹ بینک کے پاس موجود ذخائر میں کمی ہو گی تو حکومت کو اسے ہر صورت میں پیسے ادا کرنا پڑیں گے جس کے لیے اسے غیر ملکی قرضہ حاصل کرنا پڑے گا‘ یعنی قرض کو ادا کرنے کے لیے مزید نیا قرض لینا پڑے گا۔ اس بل کی منظوری کے دو دن بعد سٹیٹ بینک شرح سود کا اعلان طے شدہ وقت سے ایک ہفتہ پہلے کرنے والا ہے اور ممکن ہے مانیٹری پالیسی اس کالم کی اشاعت تک سامنے آ جائے۔
اس مشترکہ اجلاس میں مزید کئی ایسے اقدامات کیے گئے‘ جن کا علم وقت کے ساتھ ہو گا۔ یہی حکمران جب اپوزیشن میں تھے تو سابق حکومت کو کلبھوشن یادیو کے طعنے دیا کرتے تھے، اب انہوں نے ہی ایک بل منظور کیا ہے جو بقول اپوزیشن، اس بھارتی جاسوس کے لیے 'این آر او‘ ثابت ہو گا۔
سچ پوچھیں تو سارا قصور حکومت کا بھی نہیں۔ کہتے ہیں کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا، اس اپوزیشن نے جن سے امیدیں لگا رکھی تھیں اب اگر انہوں ساتھ نہیں دیا تو کیا، کیا جائے۔
ہم جس نظام اور جن سیاست دانوں سے امیدیں لگائے بیٹھے ہیں ان سے سوائے مایوسی کے کچھ برآمد ہونے کا نہیں۔ یہ سب ایک اشارہ ابرو پر سب کچھ کرنے کو تیار رہنے والے لوگ ہیں، اور طاقت کی بساط پر جب کوئی چاہتا ہے انہیں آگے بڑھاتا‘ اور جب چاہتا ہے پیچھے کھینچ لیتا ہے۔ آج فتح کے شادیانے بجانے والے میرا یہ لکھا سنبھال کر رکھ لیں۔ یہ بندوبست اپنے اگلے پانچ سال کے لیے نہیں کیا بلکہ مجھے تو لگتا ہے کہ اس ملک اور آنے والی نسلوں کا معاشی مستقبل آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھوا دیا گیا ہے۔ میرا یہ بھی گمان ہے کہ اقتدار جانے کی دیر ہے یہی کپتان اور کھلاڑی پچھتاوے کے ساتھ ٹی وی انٹرویوز میں بے بسی کی کہانیاں سناتے نظر آئیں گے۔ اللہ کرے ایسا نہ ہو لیکن حالات کے تیور یہی اشارے دے رہے ہیں۔
مشترکہ اجلاس میں سب نے اپنے اپنے حصے کا کردار ادا کر لیا‘ اب نئے نئے نکتے اٹھائے میڈیا کے سامنے ہیں۔ ایک نکتہ یہ بھی لایا جا رہا ہے کہ ترمیم کی منظوری کے لیے 222 ووٹوں کی ضرورت تھی لیکن سپیکر نے رولز کو بالائے طاق رکھ کو ایوان میں موجود ارکان کی اکثریت کی بنیاد پر بلز منظور کیے۔ اب یہ امید دلائی جا رہی ہے کہ عدالتوں میں یہ بلز چیلنج ہوں گے اور وہاں سے عوام کو ضرور انصاف ملے گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں