خیبر پختونخوا کے بلدیاتی انتخابات کے نتائج کئی حلقوں کیلئے غیر متوقع کہے جا سکتے ہیں۔ اس میں حکومت تو شامل ہے ہی، جس کو اپنے گڑھ میں ہزیمت اٹھانا پڑی لیکن ساتھ ہی اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کیلئے بھی اس میں ایک پیغام چھپا ہوا ہے۔ وزیراعظم عمران خان صاحب کا کہنا ہے کہ کے پی بلدیاتی انتخابات میں تحریک انصاف کی اس بری کارکردگی کی ایک بڑی وجہ امیدواروں کا غلط انتخاب اور پارٹی کی اندرونی چپقلش ہے۔ آپ کا موقف درست جناب! لیکن کیا آپ ایک عام آدمی کی پریشانیوں، اپنی وفاقی و صوبائی حکومتوں کی مایوس کن کارکردگی اور تاریخی مہنگائی و ڈوبتی ہوئی معیشت سے بالکل صرف نظر کر لیں گے؟ کیا ان انتخابات میں بری کارکردگی کو جانچنے کا ایک زاویہ نظریہ نہیں ہونا چاہئے کہ جتنی نشستیں ہاتھ لگ گئیں وہ بھی غنیمت ہیں، کیونکہ عام آدمی نے اپنے جس غیظ و غضب کا اظہار بیلٹ پیپر کے ذریعے کیا ہے وہ اگر بلدیاتی سیاست کے تابع نہ ہوتا تو پی ٹی آئی کیلئے یہ نتیجہ اور بھی بھیانک ثابت ہو سکتا تھا۔ خیبر پختونخوا کے صوبائی دارالحکومت پشاور کی 6 تحصیلوں میں صرف ایک تحصیل میں کامیابی حاصل کر پانا، اور جن چار نشستوں پر میئر کے انتخابات ہوئے وہاں سے ایک نشست پر بھی کامیاب نہ ہونا، پاکستان تحریک انصاف کی عوام میں تیزی سے گرتی ہوئی مقبولیت کا اعلان نہیں تو اور کیا ہے؟ حکومت اگر اب بھی اس ہار کو اندرونی خلفشار، باہمی اختلافات اور ٹکٹوں کی غلط تقسیم کے کارپٹ کے نیچے ڈال دے گی تو مجھے قوی یقین ہے کہ عام انتخابات میں یہی کارپٹ اس کیلئے کیلے کا چھلکا ثابت ہو گا کیونکہ ہار کا سبب بننے والے جن عوامل کو کلیدی قرار دیا جا رہا ہے وہ صرف ایک جزو ہیں اور اگر اس جزو کو کل بنا کر کبوتر کی طرح آنکھیں میچ لی گئیں تو معاف کیجئے پھر بلی سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ دوسری طرف یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ پاکستان تحریک انصاف کے خلاف یکسوئی اور دھڑلے سے جس جماعت نے گزشتہ تین ساڑھے تین سالوں میں اپوزیشن کی ہے اس کا نام جمعیت علمائے اسلام (ف) ہے۔ مولانا فضل الرحمن کی اسی یکسوئی نے انہیں خیبر پختونخوا میں ایک متبادل کے طور پر لا کھڑا کیا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان اور ان کے وزیروں، مشیروں اور معاونین خصوصی سمیت پاکستان تحریک انصاف کی تمام تر قیادت کی طرف سے مولانا فضل الرحمن کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ کبھی ان پر اور ان کے خاندان کے دیگر افراد پرکرپشن کے الزامات لگائے جاتے رہے اور کبھی عوامی جلسوں میں ان کو ڈیزل وغیرہ جیسے القابات سے نوازا جاتا رہا۔ اور تو اور خود وزیر اعظم عمران خان نے اپنی تقریروں اور مختلف انٹرویوز میں کئی بار مولانا فضل الرحمن کو ایک سیٹ اور پرمٹ کی مار قرار دیا لیکن خیبر پختونخوا کے حالیہ بلدیاتی انتخابات میں وہاں کے عوام نے مولانا فضل الرحمن اور ان کی جماعت جمعیت علمائے اسلام پر جس اعتماد کا اظہار کیا ہے وہ ارباب اختیار کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔ میرے نزدیک صرف حکومت ہی نہیں بلکہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی سمیت اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کو بھی اس سے سبق سیکھنا چاہئے کہ جب آپ کا ہاتھ عوامی نبض کے بجائے اپنے لئے دیگر راستے ٹٹولنے پر لگا ہو گا تو پھر آپ کو اور آپ کی جماعت کو ایسے ہی ایک ایک دو دو نشستوں پر اکتفا کرنا پڑے گا۔
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق خیبر پختونخوا کے بلدیاتی انتخابات میں اس بری کارکردگی کے باوجود پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شاید اب بھی سچ سننے اور صورتحال کی سنگینی کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہیں، وہ اب بھی اپنی غلطیوں اور ناکامیوں پر نظر دوڑانے اور اپنی اصلاح کرنے کے بجائے مختلف طرح کے بہانے تراشتے نظر آتے ہیں جس کا واضح ثبوت خود وزیر اعظم عمران خان کا اپنا بیان ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے کے نتائج میں پی ٹی آئی کی ناکامی پر کہا ہے کہ ''ہم نے غلطیاں کیں اور خمیازہ بھگتا، بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں غلط امیدواروں کی وجہ سے ہارے، اگلے مرحلے میں نئی قوت بن کر ابھریں گے، آئندہ انتخابات کی نگرانی میں خود کروں گا‘‘۔
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات جناب فواد چوہدری کا حالیہ بیان بھی قابل ذکر ہے۔ وہ کہتے ہیں ''عمران خان کے بغیر پاکستان کی سیاست ٹکڑوں میں تقسیم ہو جائے گی، پی ٹی آئی نہیں ہوگی تو کوئی قومی پارٹی نہیں ہوگی، ہماری غلطیوں کی وجہ سے خیبرپختونخوا میں جے یو آئی جیت گئی، فضل الرحمن کا اقتدار میں آنا بڑی بدقسمتی کی بات ہوگی، پی ٹی آئی کا متبادل اگر جے یو آئی ہے تو پھر سوچنے کی ضرورت ہے‘‘۔
دوسری جانب اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے پی ٹی آئی کی اس شکست کو آڑے ہاتھوں لیا جا رہا ہے۔ جمعیت علمائے اسلام اور اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کا کہنا ہے کہ ''عوام نے ووٹ کی طاقت سے جعلی حکمرانوں کا خاتمہ کر دیا ہے، ہم نے ہراس طاقت کا مقابلہ کیاہے جس نے ہماری اصولی سیاست کو ختم کرنے کی کوشش کی، جمعیت علمائے اسلام اور دیگر سیاسی و مذہبی جماعتوں کو گزشتہ انتخابات میں پارلیمنٹ سے دور رکھنے کے لیے ایسی حکومت مسلط کی گئی جس کی وجہ سے آج ملک بحرانون کا شکار ہے، عوام نے ووٹ کی طاقت سے خیبر بختونخوا کے بلدیاتی انتخابات میں جعلی حکمراوں کا خاتمہ کر دیا اور ان کو عبرتناک شکست سے دوچار کیا‘‘۔
مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز نے اس حوالے سے ٹویٹ کیا کہ ''تبدیلی آ نہیں رہی، تبدیلی جا رہی ہے وہ بھی رسوائی، بدنامی اور کروڑوں بد دعائیں سمیٹ کر ،ملک کو مہنگائی، لاقانونیت، نالائقی اور نااہلی کی دلدل میں دھکیل دیاگیا، ہر شعبہ میں بدترین اور تاریخی ناکامی کے انمٹ داغ اپنے ماتھے پر سجا کر وہ جا رہی ہے تبدیلی‘‘۔ یہی نہیں مریم نواز نے تو پی ٹی آئی کے ٹکٹ کو رسوائی کا نشان قرار دے دیا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ میں میڈیا سے گفتگو کے دوران کہا کہ ''اب تو کوئی پی ٹی آئی کا ٹکٹ لینے والا نہیں رہے گا، پی ٹی آئی کا ٹکٹ لینے والوں کو عوام کے پاس ہیلمٹ پہن کر جانا ہو گا، لوگوں کی بات تو الگ آپ کے ایم پی اے، ایم این اے آپ کے ساتھ نہیں ہیں، یہ پہلی سٹنگ حکومت ہے جو ایک کے بعد ایک ضمنی انتخاب ہاری ہے، تاریخی نااہلی اور ناکامی کا دور ختم ہونے جارہا ہے‘ ہم سب شہباز شریف کے ساتھ کھڑے ہیں اور نوازشریف جلد واپس آئیں گے‘‘۔
خیبر پختونخوا کو تحریک انصاف کی سیاسی طاقت کا مرکز سمجھا جاتا ہے۔ 2013ء کے انتخابات میں کامیابی کے بعد پی ٹی آئی کی حکومت نے اپنے قائد عمران خان کی قیادت میں اپنے لیے ایک رول ماڈل بنایا، اور پھر اسی بنا پر 2018ء کے انتخابات میں وہاں کے عوام نے پی ٹی آئی کو بھاری اکثریت کے ساتھ کامیابی دلائی جس کے باعث پی ٹی آئی نہ صرف خیبر پختونخوا میں بلکہ وفاق میں بھی حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی۔ اب اگر سوا تین سال کے بعد پی ٹی آئی کے پشاور سے میئر کے امیدوار رضوان بنگش سمیت پی ٹی آئی کے مرکزی قائدین کے قریبی عزیز و اقارب بھی اپنے اپنے حلقوں میں الیکشن ہار گئے ہیں تو یہ بات کم از کم وزیر اعظم عمران خان کے لیے ضرور پریشانی کا باعث ہو گی۔