''میں امید کرتا ہوں آپ سے پاکستان میں جلد ملاقات ہو گی‘‘۔
''موجودہ حکمرانوں کا دھڑن تختہ ہونیوالا ہے، ان کے گھبرانے کا وقت آنے والا ہے‘‘
''اگلے ماہ نواز شریف کو لینے لندن جا رہا ہوں، نواز شریف سے مل کر آیا ہوں میری مسکراہٹ بتا رہی کہ حالات کیا ہیں‘‘۔
"I heard you're a player. Nice to meet you, I'm the coach."
یہ ہیں وہ چند فقرے جو گزشتہ دو تین دنوں میں اپوزیشن رہنمائوں کے منہ سے سننے کو ملے۔ ان چند جملوں نے تو جیسے پاکستان کی سیاست میں ہلچل سی مچا دی ہے۔ ویسے تو پاکستانی سیاست کا کچھ پتہ نہیں چلتا کہ وہ کب گرم ہوجائے اور کب ایک دم سے نرم پڑ جائے۔ کچھ ایسا ہی خیبر پختونخوا میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے نتائج سامنے آنے کے بعد ہوا۔ کے پی کے بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں آنے والے نتائج نے یخ بستہ سیاسی پانیوں کو پگھلایا ضرور تھا لیکن اس قدر نہیں کہ سیلاب کا گمان ہو۔ وہ سیاست دان ہی کیا جو پانی میں آگ نہ لگا سکے۔ نواز شریف، شہباز شریف، سردار ایاز صادق اور مریم نواز کے بیانات نے تو ایسی آگ بھڑکائی کہ جنہیں فائر فائٹنگ کرنا تھی وہ بھی جلتی پر تیل ڈالتے نظر آئے۔ مسلم لیگ (ن) تو چاہتی ہی یہ ہے کہ کارکنوں کے ذہنوں میں نواز شریف کی واپسی کی امید برقرار رہے۔ کپتان کے پی الیکشن میں ہونے والی ناکامیوں کا احتساب کرنے بیٹھے تو سیاسی حریف نواز شریف کی واپسی کے راستے نکالے جانے کی کوششوں اور سزا کے خاتمے کی باتیں لے بیٹھے اور مسلم لیگ نواز کے رہنماؤں کو تو جیسے من کی مراد مل گئی۔
سردار ایاز صادق نے نواز شریف کو وطن واپس لانے کیلئے 20 جنوری کو لندن روانگی کا شیڈول دے کر پارٹی کیلئے ایک کھڑکی کھولی تھی‘ لیکن کپتان کے رد عمل نے مسلم لیگ نواز کو لمبی اننگز کا موقع دے دیا ہے۔ اب حکومتی ترجمان روز کسی ڈیل کی بات کریں گے اور مسلم لیگ نواز ان سے ڈیل کرنے والوں کے نام پوچھے گی۔ یوں ایک نیا کھیل شروع ہوجائے گا۔
خیبر پختونخوا کے بلدیاتی الیکشن نے حکمران جماعت کو دفاعی کھیل پر مجبور کردیا ہے اور اپوزیشن جارحانہ کھیل سے پی ٹی آئی اور کپتان کو غلطیوں پر اکسا رہی ہے۔ نواز شریف کے لیے راستے تلاش کرنے کا بیان دے کر کپتان نے پہلی غلطی کردی ہے۔ باؤلنگ کرتی ٹیم کو اندازہ ہوگیا کہ اب بیٹنگ لائن کانپ رہی ہے۔ اس موضوع پر مزید کوئی بات کرنے سے پہلے وزیر اعظم پاکستان اور تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی گفتگو پر نظر ڈالتے ہیں۔
وزیراعظم عمران خان نے پارٹی ترجمانوں کے اجلاس کے دوران کہا ''نواز شریف کی سزا ختم ہونے سے متعلق قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں، یہ کیسے ممکن ہے کہ سزا یافتہ شخص کی سزا ختم ہو جائے؟ نواز شریف نے عوام کا پیسہ لوٹا اور باہر منتقل کیا، پانامہ میں نواز شریف کا نام آیا اور عدالت نے اسے ڈس کوالیفائی کیا، نواز شریف آج تک منی ٹریل بھی نہیں دے سکے، ایک مجرم کی سزا ختم کر کے کیسے چوتھی بار وزیر اعظم بنایا جا سکتا ہے؟ نواز شریف کو اعلیٰ عدلیہ نے سزا سنائی۔ اب نواز شریف کی نا اہلی ختم کرانے کے لیے راستے نکالے جا رہے ہیں۔ نواز شریف کی سزا ختم کرنے کا کوئی اخلاقی جواز نہیں، نواز شریف کی جو نا اہلی ہوئی اگر وہ کرپشن نہیں تو کرپشن کیا ہوتی ہے؟ نواز شریف کی سزا ختم کرنی ہے تو ساری جیلیں کھول دینی چاہئیں۔ چھوٹے کیسز میں ملوث لوگ جیلوں میں بند ہیں، بڑے چوروں کے لیے راستے نکالے جانے کی باتیں ہو رہی ہیں‘‘۔ وزیراعظم عمران خان نے ترجمانوں کو اہم ٹاسک دیتے ہوئے کہا کہ نواز شریف کی کرپشن اور نا اہلی کو ہائی لائٹ کیا جائے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق وزیر اعظم عمران خان کی یہ گفتگو دراصل تحریک انصاف اور خصوصاً ایوان وزیر اعظم میں پائے جانے والے سیاسی اضطراب اور بے چینی کو ظاہر کرتی ہے۔ پچھلے چند روز سے طاقتور حلقوں کے غیر جانب دار ہو جانے کے تاثر اور اپوزیشن خصوصاً مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف اور دیگر رہنمائوں کے جارحانہ بیانات اور بظاہر بڑھتے ہوئے اعتماد نے شاید وزیر اعظم عمران خان کو بھی بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ہو گا اور پھر خیبر پختونخوا کے بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے کے نتائج نے تو ان خدشات کو جیسے جلا بخش دی ہو۔
اب تھوڑی سی بات اپوزیشن کی بھی کر لیتے ہیں۔ لاہور میں خواجہ محمد رفیق شہید کی یاد میں ہونے والی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور سابق وزیر اعلی پنجاب میاں شہباز شریف نے وزیر اعظم عمران خان اور ان کی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا۔ انہوں نے کہا ''جب پاکستان میں بجلی کے اندھیروں نے بسیرا کر رکھا تھا، 20 بیس گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ تھی تو نواز شریف نے لوڈ شیڈنگ سے نجات کا قوم سے وعدہ کر رکھا تھا، آپ میری بات چھوڑیں، میں ہمیشہ جلد بازی میں فقرے کس دیتا ہوں، میں نے ایسے حالات میں کہہ دیا کہ اگر 6 ماہ میں لوڈ شیڈنگ ختم نہ کر سکا تو میرا نام بدل دینا، میں نے جب یہ بات کی تو میں ایسے لمحات میں بہکا ہوا نہیں تھا اور نہ ہی جادو ٹونے کا شکار تھا۔ عمران خان نے ساڑھے 3 سال میں معیشت کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ہے۔ لاکھوں لوگ بے روزگار ہو چکے ہیں، 50 لاکھ گھر تو کیا کسی کمرے کی اینٹ تک نہیں رکھی، حکومت نے ساڑھے 3 سال نواز شریف کے منصوبوں پر تختیوں پر تختیاں لگائیں، اگر تختیاں لگانے کا شوق تھا تو ہمیں بتاتے ہم آپ کو تختیاں لگانے پر لگا دیتے۔ اب تختیاں لگانے سے کام نہیں بنے گا، آپ کے دھڑن تختے کا وقت آ گیا ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ ان کا گریبان ہو اور ہمارا اور آپ کا ہاتھ ہو۔‘‘
سابق سپیکر قومی اسمبلی اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما ایاز صادق نے انکشاف کیا کہ وہ 20 جنوری کو نواز شریف کو لینے دوبارہ لندن جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ''ریاست نوجوان نسل کو کیا اتنا حق نہیں دے سکتی کہ وہ رائے کا اظہار کر سکے؟ سیاست میں پیسے نے سیاسی ورکر کی حیثیت کم کر دی، عمران خان کا وقت آنے والا ہے‘ جب ٹرک پر ہو گا۔ عمران خان نے جمہوریت کے جوتے نہیں پہنے، اسے پہننا پڑیں گے‘‘۔
اپوزیشن کی دوسری بڑی سیاسی جماعت پاکستان پیپلزپارٹی کی بات کریں تو صابق صدر آصف علی زرداری نے بھی حکومت کے خلاف طبل جنگ بجا دیا ہے۔ ٹنڈو الہ یار میں خطاب کرتے ہوئے انہوں کہا کہ مخالفین سے مقابلہ کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ لاہور اور اسلام آباد میں بیٹھ کر ان کا مقابلہ کرنے جا رہا ہوں۔ نیازی حکومت کے خاتمے تک خیمہ لگا کر عوام کی جنگ لڑیں گے۔ ہمیں انجینئرڈ الیکشن میں پھنسا کر من پسند لوگوں کو کامیاب کرایا گیا۔ میں نے پہلے دن ہی کہہ دیا تھا: آپ لوگ کام چلا کر دکھائیں۔
اپوزیشن رہنماؤں کے ان بیانات اور حکومتی صفوں میں پائی جانے والی اضطرابی کیفیت مجھ سمیت بہت سے سیاسی تجزیہ کاروں کو یہ سوچنے پر مجبور کر رہی ہے کہ کہیں نہ کہیں کچھ نہ کچھ ضرور پک رہا ہے!!!