''میرا نام (فرضی نام آنسہ) ہے اور میں ننکانہ صاحب کی رہنے والی ہوں۔ میں میڈیکل کالج میں تھرڈ ایئر کی طالبہ ہوں۔ میرے والد ایک سرکاری ملازم ہیں۔ میری سیکنڈ ایئر میں اپنے ایک کلاس فیلو سہیل سے دوستی ہو گئی۔ میرا وہ کلاس فیلو بظاہر بہت شریف اور بااخلاق انسان تھا۔ اس نے مجھے بتایا کہ اس کا تعلق ضلع لودھراں کے ایک زمیندار گھرانے سے ہے اور اس کے والد اپنے گاؤں کے نمبردار بھی ہیں۔ یہ کہ وہ تین بہنوں کا اکلوتا بھائی ہے اور اپنی والدہ کی خواہش پر ڈاکٹر بن رہا ہے کیونکہ اس کی والدہ چاہتی ہیں کہ وہ اپنی پڑھائی مکمل کرنے کے بعد اپنے گاؤں میں ایک فری ہسپتال چلائے، جہاں علاقے کے لوگوں کا مفت علاج ہو۔ سہیل نے مجھے یہ کہہ کر شادی کے لئے پرپوز کیا کہ اگر میں اس کی شریک حیات بن جائوں گی تو اس کے لئے اپنا یہ مشن پورا کرنا آسان ہو جائے گا اور ہم دونوں مل کر انسانیت کی خدمت کر سکیں گے۔ اس کی یہ چکنی چپڑی باتیں سن کر میں بہت متاثر ہوئی اور یوں ہماری دوستی ہر آنے والے دن کے ساتھ مضبوط ہوتی گئی۔ اس دوران ایک بار وہ مجھے اپنی بڑی بہن سے ملوانے کے بہانے گلبرگ لاہور کے ایک ہوٹل میں لے گیا۔ وہاں اس نے میری چند نازیبا تصاویر اور ویڈیوز بھی بنا لیں۔ اس واقعہ کے چند ہفتے بعد اس نے بلیک میل کرنا شروع کر دیا۔ پہلے ڈرا دھمکا کر میرے ساتھ زیادتی کی اور پھر رقم کا تقاضا کرنا شروع کر دیا۔ اب وہ کہتا ہے کہ میرے ساتھ پارٹیوں میں چلو اور میرے دوستوں کو بھی خوش کرو ورنہ میں تمہاری یہ ویڈیو نا صرف تمہارے گھر والوں کو بھیج دوں گا بلکہ ان کو وائرل کر کے تمہیں کسی قابل نہیں چھوڑوں گا‘‘۔ ایف آئی اے کے ڈائریکٹر سائبر کرائمز کو یہ خط موصول ہوا تو انہوں نے خود ذاتی طور پر اس لڑکی سے رابطہ کیا۔ آنسہ اس ساری صورت حال سے اتنی دلبرداشتہ ہو چکی تھی کہ اس نے ڈائریکٹر ایف آئی اے سے کہا کہ 'اگر آپ نے میری کوئی مدد نہ کی تو میں خود کشی کر لوں گی کیونکہ میں اپنے اور اپنے خاندان کے لئے مزید ذلت و رسوائی برداشت نہیں کر سکتی‘ خدا را میری حالت میں رحم کھائیں اور مجھے انصاف دلائیں‘۔ ڈائریکٹر صاحب نے اپنے سٹاف کو بلایا اور لیڈی سب انسپکٹر کو سب کچھ سمجھا کر اس لڑکی کے ساتھ بھجوا دیا۔ اگلے ہی روز جب ایف آئی اے نے سہیل کو گرفتار کر کے اس کا موبائل فون اور لیپ ٹاپ برآمد کیا تو یہ انکشاف ہوا کہ سہیل نے صرف آنسہ کو ہی بلیک میل نہیں کیا بلکہ وہ اپنے میڈیکل کالج کی تین اور لڑکیوں سمیت درجنوں لڑکیوں کو ورغلا کر نہ صرف اپنی ہوس کا شکار بنا چکا تھابلکہ وہ اور اس کے دو دوست مل کر ایک گروہ کے طور پر کام کرتے ہیں اور معصوم اور سادہ لوح لڑکیوں کو ورغلا کر بلیک میل کرتے تھے۔ ایف آئی اے ڈائریکٹر سائبر کرائم کے مطابق آنسہ کے ساتھ پیش آنے والا یہ واقعہ کوئی اپنی نوعیت کا پہلا، اکلوتا یا منفرد واقعہ نہیں ہے۔ انہوں نے میرے ساتھ جو اعداد و شمار شیئر کئے وہ انتہائی پریشان کن ہیں۔
انفارمیشن اینڈ ٹیکنالوجی انڈسٹری میں تیزی سے ہونے والی ترقی اور روز بروز آگے بڑھتی ہوئی ٹیکنالوجی کے ساتھ، دنیا بھر میں سائبر کرائمز کی شرح میں بھی تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان بھی اس رجحان سے مستثنیٰ نہیں، جس کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایف آئی اے‘ جو پاکستان میں سائبر کرائمز سے نمٹنے کے لیے قانون کے لحاظ سے ایک مجاز ادارہ ہے‘ کو 2020ء میں 84 ہزار 7 سو 64 شکایات موصول ہوئیں، جو 2019ء میں موصول ہونے والی شکایات سے 300 فیصد زیادہ تھیں۔ اسی طرح 2021ء میں ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کو پورے پاکستان میں 95 ہزار 5 سو 67 شکایات موصول ہوئیں۔ وسائل کی شدید کمی کے باوجود، ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ اس کثیر جہتی چیلنج سے نمٹنے اور عوام کی توقعات پر پورا اترنے کے لیے مسلسل کوششیں کر رہا ہے۔ ان شکایات میں زیادہ تعداد مالی فراڈ، ہراساں کرنا، ہتکِ عزت، چائلڈ پورنوگرافی اور نفرت انگیز تقاریر سے متعلق ہیں۔ ان جرائم کی روک تھام، تفتیش اور مقدمہ چلانے کے لیے خصوصی سیل قائم کیے گئے ہیں۔ سائبر کرائم ونگ، سول سوسائٹی، میڈیا اور کمیونٹی پر مبنی تنظیموں کے تعاون سے عام آگاہی اور رہنما اصولوں کے لیے 'سائبر کرائمز کا شکار ہونے سے خود کو کیسے محفوظ رکھا جائے‘ کے حوالے سے لوگوں خصوصاً ٹین ایجر لڑکیوں کے لیے بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان میں سائبر کرائمز سے متعلق مالیاتی فراڈوں میں جعلی سموں کا استعمال عام ہے اور یہ استعمال عام اس لیے ہے کہ جعلی سموں کی دستیابی عام ہے جو سیلیکون پیپرز کے ذریعے، جعلی انگوٹھوں کی مدد سے استعمال میں لائی جاتی ہیں۔ تمام بینکنگ فراڈ، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے نام سے فراڈ، جیتو پاکستان کے نام سے فراڈ وغیرہ، سب کچھ جعلی سمز کے ذریعے کیے جاتے ہیں۔ یہ جعل سازی زیادہ تر کال/ ایس ایم ایس، ای میل، واٹس ایپ، فیس بک، جعلی ویب سائٹس اور سکمنگ ڈیوائسز کے ذریعے کی جاتی ہے۔ 2021ء میں ملک کے مختلف حصوں میں کریک ڈاؤن کے دوران 60 ہزار سے زائد جعلی ایکٹویٹڈ سمز، 6 ہزار 7 سو سیلیکون انگوٹھوں کے نشانات اور 3 ہزار سے زائد سیلیکون شیٹس برآمد کی جا چکی ہیں۔ ڈی جی ایف آئی اے نے سائبر کرائم کے حکام کو اپنے نظام میں بہتری لانے کے لیے مختلف سٹیک ہولڈرز کے ساتھ متعدد میٹنگز کرنے اور مؤثر اقدامات کرنے کی ہدایت کی ہے۔
انٹرنیٹ کے وسیع استعمال کے ساتھ، چائلڈ پورنوگرافی مارکیٹ، آن لائن کمیونٹیز نے چائلڈ پورنوگرافی کے مجرموں کے درمیان رابطے اور تعاون کو فروغ دیا ہے۔ جرم کی گھناؤنی نوعیت کی وجہ سے سائبر کرائم ونگ نے اس لعنت کو روکنے کے لیے ایک علیحدہ سیل قائم کیا ہے۔ 2021ء میں ایک سال کے دوران چائلڈ پورنوگرافی کے 15 سے زیادہ کیسز درج کیے گئے ہیں، جبکہ سینکڑوں انکوائریاں جاری ہیں۔ سوشل میڈیا/ انٹرنیٹ پر آن لائن بلیک میلنگ اور ہراساں کرنا بھی سائبر کرائم میں رجسٹرڈ ہونے والی شکایات کا ایک بڑا حصہ ہے، جو 2021ء میں ہونے والی کل شکایات کا تقریباً 20 فیصد ہیں۔ الیکٹرانک کرائم کی روک تھام کرنے اور اس میں ملوث مجرموں کو سزا دلوانے کے لیے پیکا ایکٹ 2016ء (PECA-2016) کی دفعہ 20/21/24 کے تحت آن لائن ہراساں کرنے اور بلیک میلنگ کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے۔ معاشرے میں بڑھتے ہوئے ان جرائم کی تعداد کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہر سال سینکڑوں ایف آئی آرز درج کی جا رہی ہیں۔
ان اعداد و شمار پر نظر دوڑاتے ہوئے ہمیں یہ بات ضرور یاد رکھنی چاہیے کہ ہمارے معاشرے میں آنسہ جیسی کتنی لڑکیاں ہیں، جو حالات کی سنگینی اور تمام تر خدشات کے باوجود انصاف کے لیے قانون کا دروازہ کھٹکھٹاتی ہیں؟ کیونکہ مشاہدہ تو یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہمارے ہاں مجبوری کی حالت میں اور گھٹ کے زندگی گزارنے والوں کی تعداد زیادہ ہے۔