پاکستان کے عوام مہنگائی، بیروزگاری اور غربت سے ضرور پریشان ہیں؛ تاہم کم ہی کوئی ایسا دن گزرتا ہے جب ان کی دادرسی کا وعدہ کرتے اور مسیحائی کا دم بھرتے سیاستدان انہیں حیران نہ کریں۔ ابھی چند دن پہلے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے سیاسی اتحاد نے 23 مارچ کے اہم دن حکومت کے خلاف لانگ مارچ کا اعلان کیا تھا۔ جب سے پی ڈی ایم کا اتحاد تشکیل پایا تھا تب سے عوام یہ آس لگائے بیٹھے تھے کہ جلد انقلابی تحریک چلے گی، حکومت کا تختہ الٹے گا اور پھر ان کے دن پھر جائیں گے۔ مولانا فضل الرحمن کب لانگ مارچ کا اعلان کریں گے‘ اس بات کو سننے کیلئے جہاں عوام کے کان ترس رہے تھے وہیں صحافی برادری اور حکومت بھی پی ڈی ایم کے اجلاسوں پر نظر رکھے ہوئے تھی کہ دیکھو کیا خیر خبر ملے۔ اور جب دسمبر میں بالآخر یہ اعلان ہوا تو صرف عوام نہیں صحافی اور تجزیہ نگار حضرات بھی ضرور حیران ہوئے؛ تاہم حکومت نے یقینا سکھ کا سانس لیا ہوگا۔ پی ڈی ایم نے لانگ مارچ کی تاریخ ہی اتنی دور کی دے دی ہے کہ تب تک نہ جانے کیا کچھ ہوجائے۔ اب نئے سال میں ایک اور نئے لانگ مارچ کا اعلان کیا جاچکا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے جیالے 27 فروری کو کراچی سے اسلام آباد تک اپنے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں لانگ مارچ کریں گے۔
پیپلز پارٹی کی جانب سے کئے گئے حالیہ فیصلوں پرتبصرے سے پہلے ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ یہ جماعت ایسے فیصلے کیوں کر رہی ہے ؟ ایک وقت تھا،جب پاکستان پیپلز پارٹی کسی بھی حکومت کا متبادل سمجھی جاتی تھی اور ایسا مانا جاتا تھا کہ اگر حکومت ٹھیک پرفارم نہیں کر سکے گی تو پھر اس کی جگہ پیپلز پارٹی لے لے گی‘ لیکن پھر وزیر اعظم عمران خان پاکستان تحریک انصاف کی صورت میں ایک ایسی سیاسی جماعت کو منظر نامے پر لے آئے جس نے ویسے تو تمام سیاسی جماعتوں کا ووٹ بینک توڑا لیکن خاص طور پر پنجاب میں تو جیسے پیپلزپارٹی کو کھا ہی گئی۔ اگرچہ اس میں خاصا قصور پیپلز پارٹی کا اپنا تھا، جس کو ہمیشہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ اور اینٹی 'سٹیٹس کو‘ سیاست کرنے والی جماعت سمجھا جاتا تھا لیکن پھر جناب آصف علی زرداری کی قیادت میں اس جماعت نے ایسی مفاہمتی پالیسیاں اپنائیں‘ جن کی وجہ سے نہ صرف اس کا ووٹر دور ہوتا چلا گیا بلکہ پارٹی کا تشخص بھی خراب ہوا۔موجودہ سیاسی منظر نامے کا جائزہ لیں تو پچھلے چند ماہ میں ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے سابق صدر آصف علی زرداری نے کچھ طاقت وروں کے ساتھ اپنے معاملات طے کر لئے ہیں اور پیپلز پارٹی بھی یہ تاثر دے رہی تھی کہ اگلی حکومت اس کی ہوگی لیکن جیسے ہی پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف کے معاملات طے ہوجانے کی خبریں آنا شروع ہوئیں تو پیپلز پارٹی نے بھی اپنی پالیسی پر غور شروع کر دیا۔ بلاول بھٹو زرداری کا پی ڈی ایم سے پہلے لانگ مارچ کا اعلان بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی معلوم ہوتا ہے۔ ناجانے کیوں ایسا محسوس ہوتا ہے‘ جیسے حکومت اور اپوزیشن سمیت تمام سٹیک ہولڈرز کو اپنی اپنی پڑی ہے اور وہ عوام کی مشکلات کو حل کرنے کے بجائے اپنے لئے اقتدار کے راستے ڈھونڈ رہے ہیں۔
حکومت نے پہلے سے مہنگائی کی چکی میں پس رہے عوام کو نئے سال پر پٹرول مہنگا کرکے تحفہ دیا تھا۔ اب اپوزیشن کی اہم جماعت پیپلز پارٹی کے سربراہ کی جانب سے اس لانگ مارچ کے اعلان کے بعد وہ اپنی خوش بختی پر نازاں ‘اور سوچتے ہوں گے کہ جیسے رہنما انہیں میسر ہیں، ترقی یافتہ ممالک میں کیوں نہیں؟ خیر عوام اکثر ناشکرے ہوجاتے ہیں ۔ایسے میں حکومتی وزرا انہیں صبر شکر کرنے اور مہنگائی کی صورتحال پر دوسرے ممالک کو دیکھنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ موجودہ حکومت کا چوتھا سال چل رہا ہے ، عوام نے مشکل وقت کا بڑا حصہ تو جیسے تیسے گزار لیا، اور اب بلاول اعلان کرچکے ہیں تو 27 فروری تک مزید انتظار کرلیں‘ اگر تب بھی کچھ نہ ہوا تو امید کریں 23مارچ کو مولانا فضل الرحمن ضرور انقلاب لے ہی آئیں گے، اور اگر انقلاب پھر بھی کہیں راستے میں رہ جائے تو حکومت کے پانچ سال پورے ہونے پر کچھ نہ کچھ ضرور ہوجائے گا۔ ایک مہینے کے وقفے سے اپوزیشن جماعتوں کے الگ الگ دو لانگ مارچ ہوں گے تو سیاست میں رونق لگی رہے گی۔ اپوزیشن حکومت کو نہ بھی گراسکی تو کم از کم گرما گرم تقریریں ضرور کرلے گی۔ ہماری اپوزیشن کی جدوجہد میں ایک انوکھی بات یہ بھی ہے کہ حکومت کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے یہ ایک بار خود بھی تقسیم ہوچکی ہے۔ بات ان دنوں کی ہے جب پی ڈی ایم کی چھتری تلے پیپلز پارٹی سمیت تمام بڑی سیاسی جماعتیں اکٹھی تھیں۔ تب بھی یہی طے پارہا تھا کہ حکومت کو نکالنے کے لیے سڑکوں پر آنا ہوگا، لانگ مارچ ہوگا اور عوام کا جم غفیر حکومت کو گھر بھیج کر ہمارے اپوزیشن رہنماؤں کو کندھے پر اٹھائے اقتدار کی سیج پر بٹھادے گا۔ تب ہوا کچھ یوں کہ پیپلز پارٹی کی نیت پر اپوزیشن کے چند دوستوں کو شاید اعتبار نہیں تھا، پی ڈی ایم میں شامل کچھ حضرات کا خیال تھا کہ آصف علی زرداری صاحب اپنے کارڈ بہت سنبھال کر کھیلتے ہیں اور وہ بالکل نہیں چاہیں گے کہ سندھ حکومت ان کے ہاتھ سے نکلے ۔ اپوزیشن کے ان انقلابی رہنماؤں کو یہ بھی یقین تھا کہ لانگ مارچ سے پہلے حکومت کے پاؤں تلے سے زمین نکالنے کے لیے ضروری ہے کہ اسمبلیوں سے استعفے دئیے جائیں‘ یہ جعلی اسمبلیاں ہیں جو آر ٹی ایس کی مرہون منت ہیں‘ عوام کا مینڈیٹ چوری ہوا ہے لہٰذا ایسے ایوانوں میں رہنے سے بہتر ہے کہ عوام میں آکر اصلی انقلابی جدوجہد کی جائے۔ پیپلز پارٹی عام طور پر پارلیمانی سیاست سے پیچھے نہیں ہٹتی اور نظام میں رہ کر اس بدلنے کی کوشش کرنا چاہتی ہے ۔ اس تجویز پر اس کا بدکنا بنتا تھا‘ تو پی ڈی ایم کے ایک اجلاس میں کچھ تلخ باتیں ہوئیں اور پیپلز پارٹی الگ ہوگئی۔
اس علیحدگی کے بعد اکثر بلاول بھٹو پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں سے سوال کرتے رہے ہیں کہ وہ کب استعفے دے رہیں اور کب لانگ مارچ کریں گے ؟ خیر استعفے نہ آنے تھے اور نہ ہی آئے ، یہ بات بلاول بھی جانتے تھے اور شاید اندر سے کہیں مولانا فضل الرحمن بھی‘ اسی لیے بغیر اسمبلی سے استعفیٰ دئیے عوام اور حکومت دونوں کو لمبی تیاری کا وقت دے کر 23 مارچ کو لانگ مارچ کی تاریخ دی گئی۔ بلاول بھٹو ایسے میں یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ لانگ مارچ کررہے ہیں تو اسمبلی سے استعفے کیوں نہیں دے رہے ؟
تحریک انصاف نے اب تک جیسے تیسے حکومت کی ہے اس کے پیچھے کوئی حکمت عملی کم ہی نظر آتی ہے‘ لیکن اپوزیشن کی انقلابی حکمت عملی کو دیکھتے ہوئے یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ حکومت کو کسی قسم کی حکمت عملی کی ضرورت ہے ۔ 27 فروری کو کراچی سے اسلام آباد تک بلاول بھٹو کا لانگ مارچ سیاسی منظر نامے کو رونق بخشے گا؛ تاہم اس کے نتیجے میں حکومت گھر چلی جائے‘ ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ 23مارچ یوم پاکستان ہے۔ پی ڈی ایم کے رہنماؤں کا شاید یہ خیال ہے کہ اس وقت لانگ مارچ کی ضرورت ہی نہ رہے ، اگر ضرورت پڑی تو تب مولانا فضل الرحمن باقی اپوزیشن کے ساتھ سڑکوں پر آئیں گے۔ یہ تاریخ اس لیے بھی اہم ہے کہ اس کے چند دن بعد رمضان المبارک کا مقدس مہینہ آجائے گا۔ عبادت سیاست پر مقدم ہے تو کچھ بھی ہوجائے رمضان المبارک میں لانگ مارچ والے حضرات کا فوکس اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے پر ہوگا۔ عوام کو بھی ناشکری نہیں کرنی چاہیے ۔