''وزیر اعظم عمران خان کی حکومت اپوزیشن کو تقریباً ہر محاذ پر شکست دے چکی ہے۔ سینیٹ سے سٹیٹ بینک ترمیمی بل بھی منظور ہوا۔ راوی اب ان کے لیے چین ہی چین لکھتا ہے۔ اپوزیشن ہر محاذ پر ناکام ہو چکی ہے وہ مختلف طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرکے این آر او حاصل کرنا چاہتے ہیں لیکن ہم انہیں بھاگنے نہیں دیں گے۔ وزیر اعظم عمران خان ان کو چھوڑیں گے نہیں ہرطرف سے ناکامی کے بعد اب اپوزیشن نے راوی اربن پروجیکٹ کا رخ کر لیا ہے‘‘۔
آج کل یہ اور اس طرح کی بہت سی باتیں حکومتی ترجمانوں کی جانب سے تواتر کے ساتھ کی جا رہی ہیں۔ راوی اربن پروجیکٹ کی بات کریں تو موجودہ حکومت اسے گیم چینجر منصوبہ قرار دیتی ہے۔ ویسے تو حکومتی ترجمانوں کے مطابق حکومت نے اب تک جتنے بھی منصوبوں پر کام کیا ہے وہ تاریخی ہیں اور پاکستان کی تاریخ میں کبھی کوئی کپتان جیسا دیدہ ور بھی نہیں آیا۔ حکومتی ترجمانوں کے مطابق راوی اربن پروجیکٹ، لاہور اور شیخوپورہ کے درمیان ایک عظیم الشان شہر بن رہا ہے۔ اس منصوبے سے وسطی پنجاب کو بہت فائدہ ہوگا۔ اربوں ڈالر کی بیرونی سرمایہ کاری ملک میں آئے گی۔ اب ماجرا کچھ یوں ہے کہ حکومت اس انقلابی منصوبے کی افادیت پر لاہور ہائی کورٹ کو قائل نہیں کر پائی۔ معزز عدالت نے اس بنا پر راوی اربن پروجیکٹ کو غیر قانونی قرار دے کر کام روکنے کا حکم دیا ہے۔ راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی سے متعلق فیصلے میں معزز عدالت نے لکھا ہے کہ ''ماسٹر پلان مقامی حکومت کے تعاون کے بغیر بنایا گیا۔ روڈا ترمیمی آرڈیننس غیر قانونی ہے۔ روڈا زمین ایکوائر کرنے میں قانون پر عمل کرنے میں ناکام رہا۔ زرعی اراضی قانونی طور پر ہی حاصل کی جا سکتی ہے۔ 1894 کے قانون کی خلاف ورزی کر کے زمین ایکوائر کی گئی۔ اراضی ایکوائر کرنے کا نوٹیفکیشن غیر قانونی ہے۔ راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی پنجاب حکومت سے لیا گیا قرضہ واپس کرے‘‘۔
لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے مطابق جس کنسلٹنٹ کی فزیبلٹی سٹڈی کا راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے سہارا لیا، اس کنسلٹنٹ کو لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی بری کارکردگی پر پہلے ہی بلیک لسٹ قرار دے چکی ہے۔ راوی ڈویلپمنٹ اتھارٹی اس پروجیکٹ کے لیے بلدیاتی حکومت کے ساتھ ایک ماسٹر پلان تیار کرنے کی پابند تھی۔ درخواست گزاروں نے موقف اختیار کیا تھا کہ راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے موجودہ سی ای او اسی کنسلٹنٹ فرم کے سابق ملازم تھے جس کی فزیبلٹی رپورٹ کا اتھارٹی نے سہارا لیا۔ پنجاب حکومت نے لاہور ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر دی ہے۔ عدالتی فیصلے کے دو روز بعد ہی کپتان خود اس منصوبے کی سائٹ پر رکھ جھوک شیخوپورہ پہنچ گئے، راوی ریور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے حکام نے انہیں منصوبے پر بریفنگ دی۔ اس کے بعد وزیر اعظم عمران خان کچھ یوں گویا ہوئے کہ ''شاید کسی کو غلط فہمی ہے کہ یہ کوئی ہاؤسنگ سوسائٹی بن رہی ہے۔ یہاں ایک جدید شہر بنایا جا رہا ہے، ایک جنگل بھی بنا رہے ہیں، دو کروڑ درخت اگائیں گے، یہ 20 ارب ڈالر کا پروجیکٹ ہے، اس سے بیرونی سرمایہ کاری آئے گی اور روزگار کے مواقع ملیں گے۔ راوی اربن پروجیکٹ پر حکومت نے کیس صحیح طرح پیش نہیں کیا، اس پروجیکٹ کو سپریم کورٹ میں لے جا رہے ہیں، ایسے پروجیکٹ بنانے کی ضرورت ہے، ورنہ کراچی جیسے مسائل پیدا ہوں گے۔ آبادی میں اضافے کے ساتھ نئے شہر بسانے کی ضرورت ہے، شہر پھیلتے گئے تو گیس، بجلی اور صاف پانی کی سہولتیں فراہم نہیں کی جا سکیں گی۔ ملکی تاریخ میں بہت دیر کے بعد اتنا بڑا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ اسلام آباد کے بعد پلاننگ کے تحت یہ دوسرا شہر بننے جا رہا ہے، دریائے راوی ختم ہو رہا ہے ہم اسے محفوظ کریں گے، اس پر بیراج بنیں گے‘‘۔ وزیر اعظم صاحب کی باتیں سن کر تو گمان ہونے لگتا ہے جیسے پاکستانی عوام کی تقدیر شاید اسی منصوبے سے بدلے گی۔ وزیر اعظم کو خود بھی غالباً یہ یقین ہے کہ معاملہ سپریم کورٹ میں حل ہو جائے گا۔ عوام کو بھی اس یقین پر یقین رکھنا چاہیے کہ وزیر اعظم کا خواب پورا ہو گا تو ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں یہیں راوی کے کنارے سے بہنا شروع ہوں گی۔ مختلف ممالک ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے ایکو سٹی کے منصوبوں کی طرف جا رہے ہیں۔ دنیا کا درجہ حرارت بڑھنے پر پاکستان کو بھی ماحولیاتی مسائل کا سامنا ہے۔ گلیشئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ مون سون کا پیٹرن متاثر ہو رہا ہے۔ لاہور جیسے شہر کو سموگ کا سامنا رہتا ہے۔ دریائے راوی‘ جو کبھی اپنے پورے جوبن اور روانی کے ساتھ بہتا تھا‘ بھارت کے ساتھ ہونے والے پانی کے معاہدے کے بعد سے بس ایک نالہ بن کر رہ گیا ہے جس میں لاہور کا سیوریج اور صنعتی فضلہ بھی شامل ہوتا ہے۔ راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا موقف ہے کہ یہ ایک گرین پروجیکٹ ہے یعنی ماحول دوست منصوبہ ہے۔ اس منصوبے کے تحت نہ صرف ایک نیا شہر آباد کیا جائے گا بلکہ راوی کی شفافیت کے لیے ٹریٹمنٹ پلانٹ بھی لگے گا۔ اس منصوبے کے ناقدین کا کہنا ہے کہ دریائے راوی کے آس پاس زرخیز زمینوں پر تعمیرات کے بجائے ایسا منصوبہ کسی ایسی زمین پر ہونا چاہیے جو زرعی استعمال کی نہ ہو۔ اتھارٹی کو زمینیں حاصل کرنے کے لیے جو اختیار دیا گیا ہے‘ اس کا غلط استعمال ہو گا۔ اس منصوبے کا فائدہ محض چند افراد کو ہو گا اور ماحولیات پر بھی کچھ خاص اثر نہیں پڑے گا۔
پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما میاں حمزہ شہباز شریف نے راوی اربن منصوبے کو لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے غیر قانونی قرار دئیے جانے کے بعد کہا کہ ''لاہور ہائیکورٹ نے راوی اربن منصوبے کو غیر آئینی قرار دیا ہے۔ معزز عدالت نے کہا کہ اس منصوبے کے لیے قانونی تقاضے بھی پورے نہیں کیے گئے‘ منصوبے کے لیے لوگوں کی قیمتی زرعی زمین ہتھیائی جا رہی ہے۔ اربوں ڈالر کی آمدن اور لاکھوں افراد کے لیے روزگار پیدا کرنے کے دعویدار عمران نیازی کے 50 لاکھ گھر اور ایک کروڑ نوکریوں کے جھوٹ کی یہ اگلی قسط تھی۔ اس منصوبے کے بلند بانگ دعووں، خوش نما تصویروں اور حکومتی ترجمانوں کی تقریروں سے بد نیتی اور فراڈ کی بو آ رہی ہے۔ راوی منصوبے کے ضمن میں بٹورے جانے والے پیسے مہنگائی کم کرنے اور عوام کو ریلیف دینے پر خرچ ہونے چاہئیں‘‘۔
پنجاب اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈر حسن مرتضیٰ نے توراوی ریور پروجیکٹ کے خلاف عدالتی فیصلے کو ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کا تسلسل قرار دے دیا اور کہا کہ ''قوم کو چونا لگانے والے ہر روز عوام کوجھوٹ کی نئی داستان سناتے ہیں۔ ماسٹر پلان کے بغیر نجی ہائوسنگ سکیمیں تو بنتی دیکھی تھیں لیکن اس طرح سے سرکاری پروجیکٹ بنانے کی کوشش پہلی بات دیکھی ہے۔ کیا چیئرمین نیب جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال اس میگا پروجیکٹ کی شفافیت پر انکوائری کرانا پسند کریں گے‘‘؟
حکومتی وزرا اور مشیروں کی باتیں سنیں تو ایسا لگتا ہے کہ اربن راوی پروجیکٹ ملک کی تقدیر بدل دے گا لیکن اپوزیشن کے خیالات جاننے کے بعد عوام اس پروجیکٹ کے بارے میں کئی طرح کے شکوک و شبہات کا شکار ہو جاتے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہمارے ہاں کوئی بھی ایسا میگا پروجیکٹ شروع کرنے سے پہلے حکومت اپوزیشن سمیت تمام سٹیک ہولڈرز کو آن بورڈ لے کر مشاورت کے ساتھ قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے اپنا لائحہ عمل ترتیب دے تاکہ عوام کا پیسہ اور وقت دونوں ضائع ہونے سے بچائے جا سکیں۔