مسلم لیگ (ن) ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت ہے اور عوام کی ترجمانی کی دعوے دار بھی۔ ووٹ کو عزت دینے کا نعرہ بلند کرکے انتخابی نظام میں شفافیت چاہتی ہے اور پچھلے چار سال سے مسلسل ملکی سیاسی منظرنامے پرکوئی انقلاب لانا چاہتی ہے۔ اس کے کچھ سیاسی رہنما تو پُرامید تھے اور ان کی طرف سے یہ دعوے بھی کیے جاتے رہے کہ بس انقلاب آیا ہی چاہتا ہے۔ بڑے میاں صاحب لندن سے اڑان بھر کر جس دن وطن عزیز پہنچیں گے، سمجھیں اس دن انقلاب کا حتمی سورج طلوع ہوگا اور ناانصافی پر قائم تحریک انصاف کی حکومت قصۂ پارینہ بن جائے گی۔ سابق سپیکر جناب ایاز صادق نے تو ایک سے زائد بار یہ دعویٰ بھی کر دیا کہ وہ خود لندن جا کر اپنے قائد میاں محمد نواز شریف کو واپس پاکستان لے کر آئیں گے۔ یہی نہیں، ان کی جماعت کے کچھ رہنما تو ''ساڈا شیر آوے ہی آوے‘‘ کی طرح کے نعرے لگاتے بھی نظر آئے۔ ایسے میں تحریک انصاف بھلا کہاں پیچھے رہتی۔ حکومتی صف اول کے رہنما بھی فوری طور پر میدان میں جوابی بڑھک کے ساتھ اترے اور نعرہ لگایا کہ ''میاں صاحب کو واپس پاکستان آنا ہی پڑے گا، کپتان، نواز شریف کو واپس بھی لائے گا اور قومی خزانے کا لوٹا ہوا پیسہ بھی واپس نکلوائے گا‘‘۔
حکومت اور اپوزیشن‘ دونوں کے خوابوں اورنعروں سے باہر نکلیں اور حقائق کو پرکھنا شروع کریں تو جناب یقین رکھیں کہ نہ تو انقلاب آرہا ہے اور نہ ہی قومی خزانے کا کوئی لوٹا ہوا پیسہ واپس آرہا ہے۔ اگر کچھ آیا ہے تو میاں نواز شریف صاحب کی ایک تازہ میڈیکل رپورٹ ہے جس کے مندرجات کی تفصیل ٹی وی سکرینوں پر دھوم دھام سے چل چکی۔ اس میڈیکل رپورٹ میں بنیادی عرض یہ کی گئی ہے کہ میاں صاحب ابھی واپس نہیں آ رہے۔ سیاسی امور پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کی بڑی تعداد جہاں تحریک انصاف کی حکومت کی کارکردگی سے مایوس اور پریشان ہے، وہیں اپوزیشن کی کارکردگی بھی ان کی سمجھ سے بالاتر ہے۔ سیاسی تجزیہ کار، ماہرینِ معاشیات اور تکنیکی ماہرین‘ تمام لوگ ہی اپوزیشن کا مدعا سمجھنے سے قاصر ہیں۔ اپوزیشن کبھی کہتی ہے پارلیمنٹ کے اندر لڑائی کریں گے، تو کبھی سڑکوں پر عوامی تحریک چلانے کے الٹی میٹم دیتی ہے۔ پی ڈی ایم نے دسمبر میں بڑا فیصلہ کرلیا تھاکہ چار ماہ بعد 23 مارچ کو لانگ مارچ کریں گے۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی نے لانگ مارچ کے لیے 27 فروری کی تاریخ دے رکھی ہے۔ امید ہے کہ یہ مارچ بھی خیر و عافیت سے ہوجائے گا اور بلاول بھٹو زرداری اپنے حصے کا انقلاب بھی ضرور لے کر آئیں گے۔ اس ساری صورتحال کا نچوڑ یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان کی حکومت کے لیے اپوزیشن، پارلیمنٹ کے اندر ہو یا باہر، ملک میں جیل کے اندر ہو یا ملک سے باہر، کسی بھی صورت میں بظاہر کوئی بڑا مسئلہ دکھائی نہیں دیتی۔ حکومت کے لیے اصل مسئلہ روز بروز بڑھتی ہوئی مہنگائی ہے، جس پر عوام کے ترجمان ہونے کے دعوے دار کچھ خاص ترجمانی کرتے نظر نہیں آتے۔ روزانہ صبح سے شام تک بیان بازی کا بازار گرم رہتا ہے۔ مہنگائی روزانہ کتنے غریبوں کے چولہے ٹھنڈے کررہی ہے اس کا ذکر ہوتا بھی ہے تو بس کہیں سرسری سا بیان جاری کردیا جاتا ہے۔ نئے سال کا پہلا مہینہ ختم ہوچکا ہے اور افسوس یہ ہے کہ اس بار بھی صرف کیلنڈر تبدیل ہوا ہے، مظلوم عوام کے حالات نہیں۔ جنوری 2022ء میں بھی مہنگائی کا گراف بلند رہا۔ خوردنی تیل، دالیں، پھل، سبزیاں مزید مہنگی ہو گئیں۔ مہنگائی کی شرح 12.9 فیصد ریکارڈ کی گئی۔ ادارہ شماریات کے مطابق جنوری 2021ء کی نسبت جنوری 2022ء کے دوران خوردنی تیل کی فی کلو قیمت میں154 روپے، دال مسور 53 روپے فی کلو، کیلا فی درجن 40 روپے، سیب 50 روپے فی کلو، اور گوشت کے نرخ میں 210 روپے فی کلو کا اضافہ ہوا ہے۔ یوٹیلٹی سٹورز پر بھی گھی کی قیمت میں 70 روپے فی کلو تک کا اضافہ ہوا۔ برانڈڈ گھی کی قیمت 406 روپے اور آئل کی قیمت 416 روپے فی کلو پر پہنچ گئی ہے۔ اب اگر ہم بات کریں غریب آدمی کے کھانے پینے کی‘ تو اس کی حالت روزانہ کی بنیاد پر زوال کی طرف جا رہی ہے، دال جو کبھی عام آدمی کا کھانا سمجھی جاتی تھی اب وہ بھی غریب کی پہنچ سے باہر ہے۔ یوٹیلٹی سٹورز پر دال چنا کی قیمت میں 17 روپے فی کلو کا اضافہ کیا گیا ہے، جس کے بعد دال چنا کی نئی قیمت 145 روپے سے بڑھا 162 سے 167 روپے فی کلو کر دی گئی ہے۔ چنے کی قیمت 53 روپے فی کلو بڑھ گئی ہے۔ سفید چنا کی قیمت 213 روپے فی کلو سے 218 روپے فی کلو تک ہو گئی ہے۔ یوٹیلٹی سٹورز پر بھی دال مسور کی قیمت میں بھی 85 روپے فی کلو اضافہ کیا گیا ہے جس کی اب نئی قیمت 215 سے 220 روپے فی کلو ہو گئی ہے۔
ان حالات میں جب غریب عوام کی تنخواہ اور آمدنی محدود ہے، اس کی آمدنی میں کسی قسم کا اضافہ نہیں کیا گیا، حکومت نے عوام پر چند دن کے لیے ایک مہربانی ضرور کی ہے کہ پٹرول کی قیمت نہیں بڑھائی۔ حکومتی ترجمانوں نے اس بات کا بھرپور کریڈٹ بھی لیا کہ اوگرا کی جانب سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 14 روپے فی لٹر تک اضافے کی سمری بھیجی گئی تھی جسے وزیر اعظم نے مسترد کر دیا اور بوجھ حکومت نے اپنے اوپر لینے کا فیصلہ کیا۔ امید ہے ناشکرے اور بے صبرے عوام حکومت کی اس دریا دلی اور فیاضی کے احسان مند رہیں گے۔ پٹرول تو مہنگا نہیں ہوا لیکن ایل پی جی کی قیمت میں 10 روپے فی کلو اضافہ کر دیا گیا جس کے بعد اب ایل پی جی کی نئی قیمت 206 روپے 77 پیسے فی کلوگرام ہو گئی ہے۔ اضافے کے بعد گھریلو سلنڈر 119 روپے مہنگا ہو گیا ہے اور اب سلنڈر کی نئی قیمت 2 ہزار 439 روپے ہو گئی ہے۔ سردیوں میں گیس کی فراہمی میں تو حکومت نے کوئی کارکردگی نہیں دکھائی لیکن ایل پی جی کی قیمتوں میں اضافہ کر کے غریب عوام کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ اس ساری صورتحال پر قابو پانے اور غریب عوام کو کوئی ریلیف دینے کے بجائے وزیروں، مشیروں اور معاونین خصوصی پر مشتمل حکومتی ٹیم فوج ظفر موج کی صورت میں عوام کو یہ سبق پڑھاتی نظر آتی ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کی انتھک کوششوں اور عوام دوست پالیسیوں کے ثمرات کے صلے میں ملک عزیز پاکستان کا شمار دنیا کے سستے ترین ملکوں میں ہوتا ہے۔ ایک مثالی حکومت کے ہوتے ہوئے بھی عوام کو آئے روز مہنگائی کے نئے طوفان کا سامنا ہے اور اس کے باوجود حکومت کے معاشی ترجمان اچھی شرح نمو کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں تو کیا ان کو یہ نظر نہیں آ رہا کہ عام آدمی کی جیب روز بروز ہلکی ہوتی جا رہی ہے، گھروں کے چولہے ٹھنڈے پڑ رہے ہیں۔ یقین جانیں‘ حکومت کو اپوزیشن سے بالکل بھی کوئی خطرہ نہیں ہے، ہاں مگر اس بڑھتی ہوئی مہنگائی سے ضرور خطرہ ہے جو عوام کا جینا محال کر رہی ہے۔ اپوزیشن تو شاید ایسا کچھ نہ کرے کہ جس سے حکومت کو گھر جانا پڑے، البتہ حکومتی عمائدین کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ کہیں یہ مہنگائی ہی راکھ کے ڈھیر میں دبی چنگاری ثابت نہ ہو جائے۔