ملک میں سیاسی پارہ ایک بار پھر اوپر جاتا دکھائی دیتا ہے۔ اپوزیشن، حکومت کے خلاف اکٹھی ہو رہی ہے۔ اپوزیشن جماعتیں صرف آپس میں ہی ملاقاتیں نہیں کر رہیں بلکہ اب ان کا دائرہ کار حکومت کی اتحادی جماعتوں تک بڑھا دیا گیا ہے۔ ملاقاتوں کا یہ سلسلہ اس وقت شروع ہو ا جب چند روز پہلے مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائدِ حزب اختلاف میاں محمد شہباز شریف کی دعوت پر پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور ان کے والد اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے ماڈل ٹائون میں ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی۔ اس ملاقات میں مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز، حمزہ شہباز، خواجہ سعد رفیق اور مریم اورنگزیب بھِی موجود تھیں۔ دونوں جماعتوں کی قیادت نے اس اہم ملاقات میں ملک کی سیاسی صورتحال اور حکومت مخالف لانگ مارچ پر تبادلہ خیال کیا۔ اس ملاقات میں نہ صرف حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے معاملے پر بات ہوئی بلکہ حکومت سے چھٹکارا پانے کے لیے ہر طرح کے قانونی اور آئینی آپشنز اختیار کرنے پر اتفاق کیا گیا۔ اس موقع پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں محمد شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ''آج ایک ایجنڈے پر اتفاق نہیں کیا تو قوم معاف نہیں کرے گی، حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے آپشن پر سنجیدگی سے گفتگو ہوئی ہے، اس پر اپنی پارٹی اور پی ڈی ایم میں مشاورت کریں گے، عدم اعتماد کے معاملے پر میاں نواز شریف اور پارٹی کی سینٹرل کمیٹی فیصلہ کرے گی، حکومت کے خلاف تمام آئینی، قانونی و سیاسی آپشنز کو استعمال کرنا ہو گا، ہم نے طے کیا ہے کہ چند دن میں نون لیگ کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی سے مشاورت کر کے پی ڈی ایم میں اس معاملے کو لے کر جائیں گے، مشاورت کے ساتھ اکٹھے ہو کر حکمت عملی کا اعلان کریں گے‘‘۔ پھر انہوں نے 7 فروری کو مسلم لیگ (ن) کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس بھی طلب کر لیا گیا۔ مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں محمد نواز شریف کی سربراہی میں ہونے والے سی ای سی کے اجلاس میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ حکومت کو گھر بھجوانے کے لیے تمام آئینی آپشنز بروئے کار لائے جائیں گی۔
ملاقاتوں کا سلسلہ یہیں نہیں رکا، دو روز بعد پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری حکومت کی اتحادی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت اور سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی کے گھر ان سے ملاقات کے لیے پہنچ گئے۔ آصف علی زرداری کی چوہدری برادران سے ملاقات تقریباً دو گھنٹے جاری رہی۔ آصف زرداری نے حکومت کی اتحادی جماعت پاکستان مسلم لیگ قائد اعظم یعنی (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین اور سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی سے تحریک عدم اعتماد کیلئے حمایت مانگ لی۔ آصف علی زرداری کی چوہدری برادران سے ملاقاتوں کے دو دور ہوئے۔ پہلی ملاقات میں مونس الٰہی، طارق بشیر چیمہ، سالک حسین اور رخسانہ بنگش شریک ہوئے۔ آصف زرداری کی شجاعت حسین اور پرویز الٰہی سے علیحدگی میں بھی ملاقات ہوئی۔ دونوں جماعتوں کے رہنماؤں نے تحریک عدم اعتماد سمیت تمام اہم سیاسی اور معاشی مسائل پر گفتگو کی۔
بات یہیں ختم نہیں ہوئی، اس سارے ہنگام میں بھلا حکومت کی ایک اور اتحادی جماعت ایم کیو ایم کیوں پیچھے رہتی، ایم کیو ایم نے لوہا گرم دیکھا تو فوراً قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما میاں شہباز شریف سے رابطہ کر لیا اور ان سے ملاقات کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ ایم کیو ایم کے سینئر رہنما عامر خان اور سابق میئر کراچی وسیم اختر لاہور پہنچ گئے۔ اس سے قبل کہ وہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت سے ملاقات کرتے‘ انہوں نے حکومت کی ایک اور اتحادی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ق) کے سربراہ اور سابق وزیر اعظم چوہدری شجاعت حسین اور سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی۔ ملاقات کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی نے کہا کہ ''ایم کیو ایم کے وفد سے عدم اعتماد پر کوئی بات نہیں ہوئی، عدم اعتماد کا جواب اپوزیشن ہی دے گی، ابھی تو باورچی خانے میں سامان جمع ہو رہا ہے‘ ابھی تو کھچڑی پکنا شروع ہی نہیں ہوئی، ایسا نہیں ہو سکتا کہ اس کو کچا ہی کھا لیا جائے‘‘۔
اس ملاقات کے بعد ایم کیو ایم کا وفد مسلم لیگ (ن) کی قیادت سے ملاقات کے لیے ماڈل ٹائون پہنچ گیا۔ ملاقات میں ملکی سیاسی و معاشی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا جبکہ دونوں جماعتوں کے مابین حکومت کو ہٹانے کیلئے تحریک عدم اعتماد سمیت دیگر آپشنز پر بھی بات کی گئی۔ ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو میں مسلم لیگ (ن) کے رہنما میاں محمد شہباز شریف کا کہنا تھا ''ایم کیو ایم کو آج پہلے پاکستانی اور بعد میں حکومتی حلیف بن کر سوچنا ہو گا، وقت زیادہ نہیں ہے، ایم کیو ایم کو فیصلہ کرنا پڑے گا، ایم کیو ایم وفد سے حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد سمیت دیگرآپشنز پر بات ہوئی، ایم کیو ایم کا وفد کراچی میں رابطہ کمیٹی سے بات کرکے فیصلہ کرے گا اور قوم ایم کیو ایم سے توقع رکھتی ہے کہ جو فیصلہ کرے گی پاکستان کے عوام کے حق میں ہو گا‘‘۔ ایم کیو ایم کے رہنما عامر خان نے کہا ''شہباز شریف سے کی گئی گفتگو رابطہ کمیٹی کے سامنے رکھیں گے، عدم اعتماد میں ساتھ کا سوال قبل از وقت ہے۔ عدم اعتماد سمیت جوبھی معاملات ہیں، پہلے اپوزیشن کوئی ایجنڈا تو سامنے لے آئے، اپوزیشن اپنا ایجنڈا سامنے لے آئے پھر عوام کی بہتری کیلئے جوفیصلہ ہوا وہ کریں گے‘‘۔
سیاسی ملاقاتوں کا یہ سلسلہ اب ایک لڑی کی صورت اختیار کر رہا ہے‘ بقول سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی کہیں نہ کہیں کوئی کھچڑی پک رہی ہے۔ اپوزیشن کا گٹھ جوڑ اور اس کے ساتھ ساتھ اتحادی جماعتوں اور اپوزیشن کا آپس میں رابطہ کہیں نہ کہیں حکومت کو مشکل میں ڈال سکتا ہے، اب تو مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں محمد نواز شریف بھی لندن میں بیٹھے متحرک نظر آ رہے ہیں۔ انہوں نے پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن سے بھی رابطہ کیا اور انہیں پی ڈی ایم کا اجلاس بلانے کی سفارش کی۔ 11 فروری بروز جمعہ لاہور میں ہونے والے پی ڈی ایم کے اجلاس کی میزبانی مسلم لیگ (ن) کرے کی، سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق پی ڈی ایم کے اس اجلاس میں ان ہائوس تبدیلی سمیت دیگر تمام آپشنز پر بھی اتفاق ہو جائے گا۔ فروری کے اس مہینے میں اگرچہ موسم کافی ٹھنڈا ہے لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے اپوزیشن اس ٹھنڈے موسم کو گرمانے پر تلی ہوئی ہے۔ ''واقفانِ حال‘‘ کے مطابق مسلم لیگ (ن) اور مسلم لیگ (ق) کی قیادت کی بہت جلد آپس میں ملاقات کے امکانات بہت بڑھ گئے ہیں۔ اس حوالے سے کہا یہ جا رہا ہے کہ جلد ہی مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں محمد شہباز شریف پاکستان مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی سے ملاقات کریں گے‘ اور ان کو تحریک عدم اعتماد کا حصہ بننے کیلئے راضی کرنے کی کوشش کریں گے۔ دوسری طرف پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کے بھی مسلم لیگ (ق) کے سربراہ اور رہنمائوں سے ملاقات کے امکانات ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے سیاسی منظرنامے پر پکچر ابھی باقی ہے۔