"IYC" (space) message & send to 7575

پاکستان‘ نئی گریٹ گیم کا شکار؟

جمعہ کے روز پشاور کے قصہ خوانی بازار کے کوچہ رسالدار میں دہشت گردوں نے ایک بار پھر خون کی ہولی کھیلی۔ ایک بار پھر نہتے اور معصوم شہریوں کو بربریت کا نشانہ بنایا گیا۔ امامیہ مسجد میں نمازِ جمعہ کے دوران خودکش دھماکے کے نتیجے میں تا دم تحریر 62 افراد شہید ہوگئے جبکہ 200 سے زائد افراد زخمی ہوئے۔ پولیس کے مطابق خودکش حملہ آور نے کوچہ رسالدار کی جامع مسجد میں داخل ہو کر خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔ خودکش بمبار نے مسجد میں داخل ہونے سے پہلے پولیس اہلکاروں اور دیگر نمازیوں پر فائرنگ بھی کی۔ عینی شاہدین کے مطابق حملہ آور نے خود کو منبر کے سامنے اڑایا۔
ہسپتال انتظامیہ کے مطابق حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں ایک اور لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں 56 میتیں لائی گئیں۔ 5 افراد دورانِ علاج زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئے۔ اس کے علاوہ لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں اس وقت 37 اور حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں 2 زخمی زیر علاج ہیں‘ دیگر درجنوں افراد کو ضروری مرہم پٹی کے بعد ڈسچارج کر دیا گیا۔ لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے ترجمان نے بتایا کہ زخمیوں میں بعض کی حالت اب بھی تشویشناک ہے۔ میڈیا سے گفتگو میں آئی جی پولیس خیبر پختونخوا معظم جاہ انصاری نے کہا ''دہشت گرد نے مسجد کی تیسری صف میں دھماکہ کیا، ایک حوالدار اور ایک کانسٹیبل ڈیوٹی پر موجود تھے، دہشت گرد ایک تھا اور پیدل آیا تھا، دہشت گرد نے دونوں پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنایا، ایک شہید اور دوسرا زخمی ہوا۔ دہشت گرد پولیس اہلکاروں کو نشانہ بناکر مسجد کی طرف بھاگا۔ پولیس اہلکار مسجد سے 20‘ 25 گز کے فاصلے پر موجود تھے۔ مسجد میں داخل ہونے کے بعد پہلے فائرنگ کی گئی پھردھماکہ کیا۔ واقعے کی جگہ سے ڈیڑھ سو بال بیئرنگ ملے ہیں جبکہ دھماکہ خیرمواد 5 سے 6 کلو اور انتہائی خوفناک تھا جبکہ دھماکے سے متعلق کوئی پیشگی اطلاع نہیں تھی‘‘۔
پشاور میں ہونے والا یہ خود کش حملہ اپنی نوعیت کا پہلا یا انوکھا واقعہ نہیں ہے، پشاور سمیت خیبر پختونخوا کو ماضی میں بھی درجنوں بار دہشت گردوں کی طرف سے نشانہ بنایا جا چکا ہے۔ پاکستانی عوام، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور سکیورٹی ایجنسیوں نے جس طرح سے مل کر جوانمردی سے نہ صرف ان دہشت گردوں کا مقابلہ کیا بلکہ ان کو شکست دی‘ اس کی مثال دنیا میں کم ہی ملتی ہے۔ ملک خداداد پاکستان کو عالمی طاقتوں اور صہیونی قوتوں نے کئی بار پراکسی وار کا میدان بنایا ہے۔ ماضی قریب میں ملک عزیز میں دہشت گردوں کی جانب سے کی جانے والی کارروائیوں میں شدت کے بعد سے‘ ایک بار پھر ان شکوک وشبہات نے جنم لینا شروع کیا ہے کہ کہیں پھر سے کوئی نیا کھیل رچانے کی کوششیں تو شروع نہیں کی جا رہیں؟
افغانستان سے امریکا اور اس کے اتحادیوں کا انخلا ہوا تو گمان کیا جانے لگا کہ شاید اب پاکستان میں امن آ جائے گا کیونکہ افغان طالبان اپنے ملک میں پائے جانے والے پاکستان مخالف عناصر کا قلع قمع کر دیں گے لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ گزشتہ کچھ عرصے سے پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے حالانکہ اس سے قبل دہشت گردی کے خلاف ایک طویل جنگ کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کی لہر میں 2017ء کے بعد بتدریج کمی آنا شروع ہو گئی تھی۔ ساؤتھ ایشیا ٹیررازم پورٹل کے مطابق 2013ء میں پاکستان میں دہشت گردی کے تقریباً چار ہزار واقعات پیش آئے تھے جو 2020ء میں کم ہو کر 319 رہ گئے تھے۔ اسی دوران ہم نے دیکھا کہ پاکستان کا عالمی سطح پر تاثر بہتر ہونے لگا۔ ایک جانب سیاحت کو فروغ ملنے لگا اور دوسری جانب پاکستان میں کھیلوں کے میدان بھی آباد ہونے لگے؛ تاہم 2021ء میں‘ بالخصوص اس کے وسط کے بعد سے ایک بار پھر دہشت گرد سر اٹھانے لگے اور دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہونے لگا۔ حال ہی میں پی ایس ایل 7 کے کامیاب انعقاد اور اس میں غیر ملکی کھلاڑیوں کی بھرپور شرکت نے پاکستان دشمن سوچ رکھنے والے ملکوں کے سینوں پہ مونگ دل دی ہے۔ بھارت سمیت بہت سے ملکوں کو پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کی بحالی ایک آنکھ نہیں بھا رہی۔ پشاور کی مسجد میں یہ خود کش حملہ بھی عین اس وقت ہوا ہے جب 24 سال بعد آسڑیلوی کرکٹ ٹیم راولپنڈی میں پاکستان کے خلاف ٹیسٹ میچ کھیل رہی ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ اس دہشت گرد حملے کے حوالے سے کوئی پیشگی اطلاع نہیں تھی، اصل میں دشمن کو آسٹریلوی کرکٹ ٹیم کا دورہ ہضم نہیں ہوا۔
وزیراعظم عمران خان کا اس حوالے سے کہنا ہے ''دہشت گرد کہاں سے آئے، اس حوالے سے تمام معلومات اب ہمیں میسر ہیں، ہم پوری قوت سے ان کے تعاقب میں جا رہے ہیں، پشاور میں بزدلانہ دہشت گرد حملے کے تناظر میں ذاتی طور پر آپریشنز کی نگرانی اورکاونٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ اور ایجنسیوں کے ساتھ رابطے میں ہوں‘‘۔ ممتاز سکیورٹی تھنک ٹینک پاک انسٹیٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کی ''پاکستان سکیورٹی رپورٹ 2021ء‘‘ کے مطابق پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں 2021ء میں 2020ء کے مقابلے میں 42 فیصد اضافہ ہوا جن میں پانچ خود کش دھماکے بھی شامل ہیں۔ ان حملوں میں مجموعی طور پر 335 جانیں گئیں اور 555 لوگ زخمی ہوئے۔ اگر جانوں کے ضیاع کا موازنہ کیا جائے تو یہ شرح 2020ء کے مقابلے میں 52 فیصد زیادہ تھی۔2022ء کا آغاز بھی بہت اچھا نہیں ہوا‘ پچھلے دو ماہ میں دہشت گردی کے کئی بڑے واقعات رونما ہو چکے ہیں جن میں سیکورٹی اداروں کے ساتھ عام شہریوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔
اگرچہ کچھ تجزیہ کار افغانستان میں کٹھ پتلی انتظامیہ کے خاتمے کے بعد بھی پاکستان میں دہشت گردی میں اضافے کے حوالے سے افغان طالبان کو قصوروار سمجھتے ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ طالبان کو ابھی بہت سے اندرونی مسائل کا بھی سامنا ہے‘ اس لیے صرف ان کو اس صورتحال میں قصوروار ٹھہرانا درست نہیں ہے؛ تاہم اس وقت یہ سوال ضرور اہم ہے کہ ان واقعات میں تیزی کیوں آ گئی ہے۔ میری نظر میں اس کی کئی وجوہات ہیں۔ پاکستان اور افغان بارڈر سکیور کیے بغیر ان حملوں کو مکمل طور پر روکنا ناممکن ہے۔ پاکستان میں افغانستان سے حملوں کے سلسلے کے بعد 2017ء میں 2600 کلومیٹر طویل ڈیورنڈ لائن پر باڑ لگانے کے کام کا آغاز کیا گیا جو اگست 2021ء میں افغانستان سے امریکی انخلا تک کامیابی سے جا ری رہا لیکن افغان طالبان نے دسمبر 2021ء اور جنوری2022ء میں باڑ لگانے کے کام میں رکاوٹ ڈالی۔ افغانستان سے پاکستان پر حملے تک کیے گئے۔ سرکاری سطح پر تسلیم کیا گیا کہ ٹی ٹی پی اور بلوچ دہشت گرد تنظیمیں افغانستان میں امریکی فوج کا چھوڑا ہوا اسلحہ استعمال کر رہی ہیں۔ خاص طور پر فروری میں بلوچستان میں پنجگور اور نوشکی میں ایم فور اسالٹ رائفلز اور ایم 16 مشین گنیں استعمال کی گئیں۔ ان ہتھیاروں پر لگی نائٹ وژن ڈیوائسز اور تھرمل ڈیوائسز سے دہشت گرد مسلح افواج پر رات کے وقت حملہ کرنے کے قابل بھی ہو گئے ہیں۔ یہ تو چند ظاہری عناصر ہیں‘ ان کے پیچھے کئی عالمی پلیئرز بھی ہو سکتے ہیں کیونکہ پاکستان نے حال ہی میں اپنی خارجہ پالیسی کے نئے خدوخال وضع کیے ہیں جن سے بہت ساری عالمی طاقتیں خوش نہیں ہیں۔ عین ممکن ہے کہ پاکستان کے خلاف نئی گریٹ گیم ترتیب دی جا رہی ہو۔ خود کو بچانے کے لیے پاکستان کو قومی اتفاق رائے سے بنائی گئی ایک بہترین حکمت عملی اپنانا ہو گی جس کے لیے سیاسی اتفاقِ رائے ضروری ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں