''کچھ برا ہونے والا ہے، مجھے نہیں پتا کیا؟ لیکن کچھ نہ کچھ برا ضرور ہوگا۔ اس سوچ کے ساتھ پارلیمان کی کارروائی کی کوریج کے لیے نکلا تو پارلیمنٹ کے سامنے پُرجوش سیاسی کارکنوں سے سامنا ہوا جو پارٹی جھنڈے لہرا رہے تھے اور اپنے لیڈر کے حق میں نعرے لگاتے ہوئے اس سے وفاداری کا اظہار کر رہے تھے۔ یہ دیکھ کر مجھے یقین ہو گیا کہ بات بگڑ رہی ہے۔
پارلیمان کی عمارت کے اندر داخل ہوا اور پریس گیلری پہنچ گیا۔ ایوان کی کارروائی شروع ہوئی۔ سپیکر ہر رکن کو اس کی باری پر بولنے کی اجازت دینے کے ساتھ ساتھ اسے مقررہ وقت میں بات ختم کرنے کے فرض نبھا رہی تھیں۔ کارروائی کا دوسرا گھنٹہ شروع ہوا تو اچانک شیشے ٹوٹنے کی آواز سنائی دی۔ فضا میں دھواں بھرنا شروع ہو گیا۔ پتہ چلا ایک غیرمتعلقہ شخص پارلیمنٹ کی بلڈنگ میں زبردستی گھس چکا ہے۔ اس کے بعد ایک افراتفری کی کیفیت پیدا ہوگئی۔
سکیورٹی نے اعلان کیا کہ زبردستی گھس آنے والے افراد عمارت کے مشہور ماربل کے گنبد کے نیچے موجود جگہ میں داخل ہوگئے ہیں۔ جمہوریت کا مقدس ایوان حملے کی زد میں تھا۔ پولیس کو بظاہر معلوم نہیں تھا کہ کیا ہو رہا ہے؟ ان میں کوئی ہم آہنگی نہیں تھی۔ انھوں نے چیمبر کے دروازوں کو تالے لگا دیے مگر ساتھ ہی ساتھ ہم سے کہا کہ ہمیں ایوان خالی کرنا ہوگا؛ چنانچہ افراتفری بڑھ گئی۔ اگر عمارت کے اندر کی بات کی جائے تو ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے اس جگہ کا کوئی والی وارث ہی نہیں ہے۔ حالات پولیس کے قابو سے باہر ہو چکے ہیں، اور کچھ بھی ہو سکتا ہے... اور پھر گولی چلنے کی آواز سنائی دی۔ سکیورٹی کے پانچ افراد بندوقیں تھامے دروازے پر کھڑے تھے۔ یہ دل دہلا دینے والا منظر تھا۔ یہ اسلحہ بردار اہلکار کھڑکی کے ٹوٹے ہوئے شیشے سے باہر مظاہرین کو دیکھ رہے تھے اور ایسا لگتا تھاکہ وہ کسی بھی وقت فائرنگ کر سکتے ہیں۔ ارکان پارلیمنٹ، صحافیوں اور مہمانوں کو فائرنگ کے خدشے پر باہر نکلنے کیلئے زمین پر رینگنا پڑا۔ ہر کوئی خوف سے کپکپا رہا تھا۔ ارکان پارلیمنٹ کو محفوظ چیمبرز تک پہنچایا گیا اور صحافیوں نے کیفے ٹیریا میں پناہ لی‘‘۔
یہ کہانی ہے 6 جنوری 2021ء کی، واشنگٹن کے کیپیٹل ہل کی، جب صدر جو بائیڈن کی الیکٹورل کالج میں فتح کی باقاعدہ توثیق کے عمل کو روکنے کیلئے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں کی طرف سے کیپیٹل ہل یا امریکی ایوان پارلیمان پرحملہ کیا گیا اور یہ کہانی اس روز پارلیمانی کارروائی کور کرنے والے ایک رپورٹر کی ہے۔
یہ حالات کیسے پیدا ہوئے؟ انتخابی شکست دیکھ کر اس وقت کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 19 نومبر کو ایک ٹویٹ کی: 6 جنوری کو ڈی سی میں بڑا احتجاج، سب پہنچیں... گیارہ دن بعد ایک اور ٹویٹ کی: 6 جنوری کو آپ سے دارالحکومت میں ملاقات ہوگی۔ انتخابی شکست کے بعد ٹرمپ کے سپورٹرز پہلے ہی واشنگٹن میں احتجاج کی تیاری کر رہے تھے۔ صدر ٹرمپ کے ٹویٹر بیانات سے ان کا حوصلہ مزید بڑھا۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے اور امریکی فوج کو سب معلوم تھا لیکن صدر کی ناراضی کے ڈر سے انہوں نے کوئی پیشگی تیاری نہیں کی تھی۔
جوائنٹ چیف آف سٹاف کے سربراہ مارک ملی کی یہ تجویز کہ دارالحکومت کو بند کر دیا جائے‘ مزید اشتعال دلانے کے ڈر سے رد کر دی گئی۔ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق مارک ملی کو یہ تشویش بھی لاحق تھی کہ اگر فوج کو واشنگٹن روانہ کیا جائے تو کہیں صدر اس کو روکنے کے احکامات جاری نہ کر دیں۔ 5 جنوری کو صدر ٹرمپ کے معتمد خاص سٹیو بینن نے ایک ویڈیو پیغام میں کہا: ایک انقلاب آ رہا ہے اور کل ایک قیامت ٹوٹنے والی ہے۔ اسی دن شام کو ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس کے باہر مظاہرین کی بڑھتی ہوئی تعداد کو دیکھتے ہوئے ٹویٹر پیغام میں کہا :واشنگٹن میں لوگوں کا سیلاب آ گیا ہے‘ جو منہ زور بائیں بازو کے ڈیموکریٹس کو انتخابی نتائج چراتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے‘ ہماری قوم کے ساتھ بہت ہو چکا اب وہ مزید برداشت نہیں کر سکتے۔
6 تاریخ کی صبح پولیس واشنگٹن کی یادگار اور لنکن کی یادگار پر ٹرمپ کے حامی مظاہرین کے پیچھے بھاگ رہی تھی۔ پولیس اہلکاروں کو صرف نگرانی کرنے اور مظاہرین سے دور رہنے کے احکامات تھے۔ ''سٹاپ دی سٹیل‘‘ یعنی چوری کو روکنے کے نام سے نکالے جانے والے جلوس اور ٹرمپ کے خطاب کے بعد‘ جس میں مظاہرین کو کیپیٹل ہل جانے کا کہا گیا تھا، تشدد بھڑک اٹھا۔ ٹرمپ کے حامیوں نے ایوان پارلیمان کے باہر پولیس پر ہلہ بول دیا اور زبردستی عمارت میں داخل ہو کر سینیٹ کے ہال پر قبضہ کر لیا اور کانگریس کے ارکان کے دفاتر میں توڑپھوڑ شروع کردی۔
مجھے آج یہ تمام کہانی اور واقعات دوبارہ بیان کرنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ اسلام آباد میں بھی تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ سے پہلے حکمران جماعت نے ڈی چوک میں جلسے کا اعلان کیا ہے اور صدر ٹرمپ کے مشیروں کی طرح کپتان کے مشیر بھی کارکنوں کا جوش بڑھانے میں مصروف ہیں۔ کیپیٹل ہل حملہ امریکی سیاسی تاریخ کا شرمناک باب ہے اور اس کی تحقیقات اور سزاؤں کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ ہنگاموں میں ملوث 725 سے زائد افراد کو اب تک گرفتار کرکے ان پر قانون کی مختلف خلاف ورزیاں کرنے پر فرد جرم عائد کی جا چکی ہیں۔ ان خلاف ورزیوں میں کانگریس کی عمارت میں بلااجازت داخل ہونے کی قانون شکنی سے لے کر پولیس پر حملے جیسے سنگین جرائم شامل ہیں۔
کپتان کی تقریروں، سوشل میڈیا پر تحریک انصاف کے پیغامات اور مشیروں کی طرف سے تشدد پر اکسانے والی بڑھکوں پر، میں بھی اس امریکی رپورٹر کی طرح خدشات کا شکار ہوں کہ کچھ ہونے والا اور برا ہونے والا ہے۔ یہ خدشات ہر باشعور اور ذمہ دار شہری کے ذہن میں ہیں۔ اللہ کرے یہ خدشات غلط ثابت ہوں‘ لیکن اب تک ان خدشات کو دور کرنے کی کوشش حکومت کی طرف سے نظر نہیں آئی۔ تین گھنٹے حملہ اور توڑ پھوڑ جاری رہی تھی اور صدر ٹرمپ سب کچھ ٹی وی سکرین پر دیکھ رہے تھے۔ ان کے چند دانا دوستوں نے ان منتیں کیں کہ وہ اس تشدد کو روکنے کیلئے بیان دیں، اپنے حامیوں سے اپیل کریں کہ وہ ایوان کا قبضہ چھوڑ دیں لیکن ٹرمپ نے سب کو نظرانداز کیا اور تین گھنٹے بعد جب اپنے ان دوستوں کی بات مانی تب بھی ایک ایسا بیان دیا جس سے بلوائیوں کو باہر جانے کی اپیل توکہا جا سکتا ہے لیکن اس بلوے پر شاباشی بھی شامل تھی۔ ٹرمپ نے ایک چھوٹے سے ویڈیو پیغام میں مظاہرین سے کہا تھاکہ وہ اس مقام سے چلے جائیں لیکن ساتھ ہی انہوں نے کہا تھا، ''ہم آپ سے محبت کرتے ہیں، آپ بہت ہی خاص (لوگ) ہیں۔ میں آپ کے درد سے واقف ہوں، مجھے علم ہے کہ آپ کو اس بات کا دکھ ہے، یہ الیکشن ہم سے چرایا گیا تھا، یہ ایک مکمل (کامیابی کا) الیکشن تھا اور یہ بات ہر کوئی جانتا ہے، خاص طور پر ہمارے حریف، لیکن اب آپ کو گھر جانا ہے (اور) ہمیں امن بھی چاہیے۔‘‘
تحریک عدم اعتماد کے موقع پر حکمران جماعت کے جلسے کا منصوبہ ٹرمپ کی ریلی جیسا ہی ہے۔ سوشل میڈیا پر کپتان کی طرف سے ڈی چوک میں جلسے کا اعلان ہو چکا، انکے مشیر کارکنوں سے کہہ رہے ہیں کہ کپتان انکی خاطر اقتدار کو ٹھوکر مارنے کو تیار ہے۔ اب وہ اس کا ساتھ دینے ڈی چوک پہنچیں۔ کپتان کیلئے مشورہ ہے کہ وہ پاکستانی ٹرمپ بننے سے گریز کریں کیونکہ ٹرمپ کی دوسری باری نظر نہیں آتی اور انکی اپنی جماعت بھی حملے کے بعد ان کے دفاع کے قابل نہیں رہی۔ ان کے انتہائی قابل اعتماد نائب صدر مائیک پنس ان سے اختلاف کی پاداش میں اب ان کے سیاسی حریف بن چکے اور اگلے صدارتی الیکشن میں امیدوار ہونے کا اعلان کر چکے ہیں۔