''اگر خودکشی حرام نہ ہوتی تو میں اپنے جسم پر بارود باندھ کر پارلیمنٹ میں خودکش حملہ کرتا اور پارلیمنٹ میں بیٹھے ان منافقین کی بنیاد ہی ختم کردیتا جو پاکستان کا سودا کرکے ملک کو نقصان پہنچا رہے ہیں‘‘۔ شہریار آفریدی یہ تقریر پشتو زبان میں کررہے تھے اور ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر میڈیا والے ان کی یہ باتیں چلاتے ہیں تو انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس سے پہلے ان کا جان اللہ کو دینی ہے والا تکیہ کلام بھی پارلیمنٹ کے اندر اور باہر کافی زیر بحث آ چکا ہے۔ جن دنوں رانا ثنااللہ کو منشیات کے مقدمے میں گرفتار کیا گیا تب موصوف پریس کانفرنسز، ٹی وی ٹاک شوز اور پارلیمنٹ فلور پر 'جان اللہ کو دینی ہے‘ کا ورد کرتے یہ ثابت کر چکے تھے کہ میکسیکن ڈرگ لارڈ ال چاپو کا پاکستانی روپ رانا ثنا اللہ ہے۔ شہریار آفریدی جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاکستان کی نمائندگی کرنے پہنچے تو نیویارک کی غربت کا حال دیکھنے بھی جا نکلے تھے۔ امریکا میں پھیلی بے پناہ غربت دیکھ کر تقریباً رونے والے ہوچکے تھے۔ ایسے میں انہیں پاکستان میں اپنے عظیم قائد عمران خان کے لنگر خانوں اور پناہ گاہوں کی یاد آئی اور فوراً کلمۂ شکر ان کے لبوں پر آ گیا۔ امریکا میں سڑکوں پر سسکتی زندگی دیکھ کر انہوں نے پاکستانیوں کو اپنے حالات پر شکر ادا کرنے کا مشورہ دیا۔ ان کا امریکا میں سڑکوں پر سسکتی انسانیت پر یادگار خطبہ اب بھی دیکھنے والوں کو آبدیدہ کر دیتا ہے۔ وہ ایک ہی نشست میں 'جان اللہ کو دینی ہے‘ کوئی اتنی بار بول دیتے ہیں کہ ان کے آس پاس بیٹھے لوگ سوچ میں پڑ جاتے ہیں کہ کیا انہوں نے جان اللہ کو نہیں دینی۔ شہریار آفریدی نے اللہ کو جان دینی تھی لیکن یہ نہیں معلوم تھا کہ پارلیمنٹ پر خود کش حملے کا منصوبہ بھی ذہن میں تھا۔ اس سے پہلے وزیر ہوا بازی غلام سرور خان بھی متحدہ اپوزیشن پر خود کش حملے کی ہوائی چھوڑ چکے ہیں۔ وہ کچھ یوں چاہتے تھے کہ جہاں ملک اور دین کے دشمن بیٹھے ہوں وہاں وہ خود کش دھماکا کر کے سب کو نیست و نابود کر دیں۔ اگر ان وزرا کی خواہش نما بیانات کا سنجیدگی سے جائزہ لیا جائے تو انسان سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ ہم اپنا کس طرح کا روشن چہرہ دنیا کو دکھانا چاہ رہے ہیں؟
یہ جو حکایتیں، کہاوتیں اور محاورے ہم بچپن سے سنتے آرہے ہیں، ان پر کبھی غور کریں تو چند الفاظ پر مشتمل یہ روایتی جملے، دراصل کئی نسلوں کے تجربے کا نچوڑ ہوتے ہیں جن کے ذریعے سیانے آنے والی نسلوں کو رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔ انہی میں سے ایک ''پہلے تولو، پھر بولو‘‘ بھی ہے۔ کہنے کو یہ روایتی سا جملہ لگتا ہے لیکن کبھی اس کا اثر اپنی زندگی پر دیکھیں تو حیران رہ جائیں گے۔ صرف سوچ کر بولنا نہ صرف ہمیں کئی مسائل سے بچائے رکھتا ہے بلکہ ہمارے بہتر مستقبل کے لیے راہیں بھی کھولتا ہے۔ بد زبانی یا بغیر سوچے سمجھے بولنا کمان سے نکلے اُس تیر کی طرح ہے جس نے کبھی واپس نہیں آنا۔ انفرادی زندگی میں تو چلیں اس کا نقصان عموماً ہماری ذات تک ہی محدود رہتا ہے، لیکن اگر ہم معاشرے میں کسی ایسے مقام پر براجمان ہیں، جہاں ہمارے الفاظ اپنا اثر رکھتے ہوں۔ جہاں کچے اور نوجوان ذہن ہمیں آئیڈیلائز کرتے ہوں تو بے شک تولے بغیر بولنا ایک ایسا گناہ کبیرہ ہے جس کا ازالہ ممکن نہیں۔ جب شدت پسندی سے متاثرہ معاشرے میں، جہاں چند سال پہلے ہی حملے اور خاص طور پر خود کش حملے معمول تھے، آپ کو ایک لیڈر خودکش حملے کی دھمکی دیتا نظر آئے تو آپ چونکیں گے، اور اس وقت آپ کی حیرت دگنی تگنی ہوجائے گی جب یہ الفاظ کسی شدت پسند شخصیت یا جہادی لیڈر کے بجائے آپ عوام کے منتخب کردہ ایک سیاستدان اور وہ بھی کشمیر کمیٹی کے سربراہ کے منہ سے سنیں گے۔ یہ عدم برداشت صرف کے پی سے تعلق رکھنے والے ایک پختون سیاستدان ہی نہیں بلکہ وسطی پنجاب سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر ہوا بازی غلام سرور کے منہ سے بھی کم و بیش انہی الفاظ میں سنائی دے، یعنی مسئلہ کسی علاقے یا نسل سے تعلق رکھنے والے کا نہیں بلکہ ایک مائنڈسیٹ کا ہے۔ وہ مائنڈ سیٹ جو سیاسی جنگ کو بھی حق و باطل کے معرکے اور مذہبی حوالے سے مزین کیے ہوئے ہے۔ اتفاق سے مذکورہ دونوں صاحبان کا تعلق حکمران جماعت سے ہے، اور مزید اتفاق دیکھیے کہ تادم تحریر پاکستان تحریک انصاف کے کسی مرکزی قائد نے ان الفاظ کی مذمت تک نہیں کی۔ اس سے اور کچھ نہیں تو حکمران جماعت کے رینک اینڈ فائل میں موجود افراد کی غیرسنجیدگی مزید واضح ہوتی ہے، جنہوں نے اگر اپوزیشن کی درگت بنانی ہو، کسی ایشو پر پارٹی موقف پیش کرنا ہوتو وہ دن کو رات اور رات کو دن ثابت کرنے کے ہنر سے بخوبی آگاہ ہیں‘ لیکن جہاں بات اپنی اصلاح یا غلطی ماننے کی ہو، تو بدقسمتی سے ہمارے موجودہ حکمرانوں کا اس حوالے سے رویہ بڑی حد تک بچگانہ ہے۔ مثلاً مخالفین کے نام بگاڑنے ہوں، ان کی ''خصوصیات‘‘ آشکار کرنی ہوں، بتانا ہوکہ وہ کتنے بڑے بوٹ پالشیے، چور اور بارہویں کھلاڑی ہیں تو بھرے جلسوں میں گلا پھاڑ پھاڑ کر اس پر بات بھی ہوجاتی ہ ، سوشل میڈیا ٹرینڈز بھی بن جاتے ہیں، پریس کانفرنسیں بھی ہوجاتی ہیں‘ لیکن جہاں اپنے پر بات آرہی ہو تو وہاں سوال کرنے والے صحافی کو الٹا الزامات لگا کر چپ کرا دیا جاتا ہے، نت نئی تاویلیں گھڑ لی جاتی ہیں‘ اور تو اور غیر پارلیمانی لفظوں کے استعمال سے بھی گریز نہیں کیا جاتا اور پھر ٹی وی چینل پر دی گئی گالی گلوچ کی صفائی بھی دے دی جاتی ہے ۔ رکیک ترین لفظ بولنے پر معافی مانگنے کے بجائے بھاشن دیا گیا کہ پنجاب کے دیہاتوں میں رنڈوا اس مرد کو کہتے ہیں جس کی بیوی مر چکی ہو، اور رنڈی اس عورت کو جس کا شوہر وفات پا چکا ہو‘ یعنی ایک بے سروپا منطق گھڑنا آسان سمجھا گیا، ناکہ معافی مانگ کر اپنی غلطی تسلیم کرنا اور اس پر نادم ہونے کو۔ اب اگر لیڈروں کا یہ رویہ ہوگا تو پھر کارکنوں اور ان کے فالوورز سے توقع رکھنا کہ وہ سیاسی بحث، تنقید اور مخالف نقطہ نظر والوں کیخلاف ذاتیات پر نہیں اتریں گے، تو یہ فضول ہے۔ اگر آپ ان کو نفرت، مخصوص سچ اور بغض فیڈ کریں گے تو جواباً وہ دو قدم بڑھ کر اپنے جوہر دکھائیں گے۔ اس سے معاشرے میں خلیج بھی بڑھ رہی ہے اور ذہنی طور پر تقسیم بھی۔ موجودہ سالوں کا ''یوتھیاازم‘‘ ایک ایسا رحجان ہے جس میں خیر کی کوئی خبر نہیں۔ ماضی میں ستر کی دہائی میں ہم نے ''جیالا ازم‘‘ کے بارے میں بھی سن اور پڑھ رکھا ہے، اس کے لوازمات بھی تقریباً یوتھیاازم جیسے ہی تھے لیکن پھر اس سب کا حشر ہمارے سامنے ہے۔ ایسے میں چاہیے تو یہ تھا کہ ماضی سے سیکھتے ہوئے مثبت اور بہتر رویوں کو اپنایا جاتا اور انہی کی تلقین کی جاتی، لیکن بدقسمتی سے ہم اکیسویں صدی سے چھلانگ لگا کر سیدھے بیسویں صدی کی ساتویں دہائی میں جا اترے، جہاں کبھی آج کی طرح ''نیا پاکستان‘‘ بنانے کے دعوے کئے جاتے تھے۔ قصہ مختصر یہ کہ آج کے دور کو چند لفظوں میں سمویا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ... کم از کم کچھ بہتری نہیں تو ہم اس مروت اور روایات کا ہی پاس رکھ لیں جو ہمیں اپنے بڑوں سے ملی ہیں۔