شہباز کی پرواز اب پنجاب سے وفاق، یعنی پورے پاکستان تک پھیل چکی ہے۔ میاں شہباز شریف نے 2008ء سے 2018ء تک پنجاب پر جس تندہی سے حکومت کی، اس نے چین جیسے محنتی اور جفاکش دوستوں کو بھی حیران کردیا۔ انہوں نے میگا پروجیکٹس کو تیز رفتاری اور لال فیتے کی رکاوٹ کے بغیر پورا کرنے پر شہبازشریف کو شہباز سپیڈ کا لقب دے ڈالا۔ اب وزیراعظم پاکستان نے ترقیاتی منصوبوں خاص طور پر سی پیک پر ''پاکستان سپیڈ‘‘ کے طور پر کام کرنے کا اعلان کیا ہے، یعنی شہباز سپیڈ اب پاکستان سپیڈ میں ڈھل چکی ہے۔ یہ بات بحث طلب ہے کہ شہبازشریف کی بطور اپوزیشن لیڈر کارکردگی کیسی تھی، کیونکہ اس حوالے سے اپوزیشن جماعتوں حتیٰ کہ نون لیگ میں بھی مختلف آرا پائی جاتی ہیں لیکن ان کے بطور ایڈمنسٹریٹر اور سب کو ساتھ لے کر چلنے کی صلاحیت سے کسی کو انکار نہیں۔ انہوں نے پنجاب میں خوب کام کیا تھا، وہاں سڑکوں سے لے کر دیگر انفراسٹرکچر ریکارڈ مدت میں بہتر کیا۔ بجلی کی پیداوار اور ترسیل بہتر کرنے کے منصوبے لگائے، اور سب سے بڑی بات کہ انہو ں نے بیوروکریسی کو آہنی گرفت میں رکھا۔ انہوں نے بہترین افسروں کی ایک اچھی ٹیم تیار کی، جن کی مدد سے انہوں نے پنجاب پر موثر انداز میں حکمرانی کی۔ پی ٹی آئی حکومت کی ناکامیوں میں سے ایک بڑی ناکامی یہ بھی ہے کہ وہ افسروں کی ایک اچھی ٹیم تیار نہیں کر سکی۔ جس تیزی سے افسروں کے تبادلے سابقہ دور حکومت میں ہوئے، اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ درجنوں افسر تعیناتی کے ایک ہفتے بعد ہی تبدیل کردئیے جاتے رہے۔ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے اس ضمن میں نیا ریکارڈ قائم کیا۔ انہوں نے اپنے آبائی ضلع ڈی آئی خان میں ساڑھے تین سال میں 10 کمشنرز تبدیل کیے۔ اگر بیوروکریسی، جس نے حکمرانوں کی پالیسیوں کو گرائونڈ لیول پر نافذ کرنا ہے، ایک جگہ ٹک کر اپنی میعاد پوری نہ کر سکے تو پھر منصوبوں کا وہی حشر ہوتا ہے جو بی آر ٹی پشاور، رنگ روڈ راولپنڈی اور ریور راوی فرنٹ منصوبوں کا ہوا!
اس کے برعکس شہباز شریف اب مرکز میں بھی اپنی پرانی ٹیم کے ساتھ کام کے خواہاں ہیں۔ اپنے سابق پرنسپل سیکرٹری ڈاکٹر توقیر شاہ کو انہوں نے پرنسپل سیکرٹری ٹو پرائم منسٹر تعینات کردیا ہے۔ تحریک انصاف کے دور حکومت میں سیاسی مقدمات کا سامنا کرنے والے فواد حسن فواد اور احد چیمہ کی بھی شہباز ٹیم میں واپسی ہورہی ہے۔ میاں شہباز شریف کے ساتھ کام کرنا کوئی آسان نہیں۔ وہ وزیر اعظم بننے کے بعد پہلے ہی روز صبح 8 بجے اپنے دفتر جا پہنچے، جبکہ متعلقہ عملہ بھی نہیں پہنچا تھا۔ ان کی یہی عادت پنجاب کی بیوروکریسی کو سخت ناپسند تھی۔ بطور وزیر اعلیٰ علی الصبح اخبارات کی فائل ان کی ٹیبل پر موجود ہوتی تھی، جس کے بعد 7 بجے افسروں کے ساتھ میٹنگز شروع ہو جاتی تھیں۔ شہباز شریف بطور خادم اعلیٰ اکثر ناشتہ کرتے ہوئے ہی سرکاری کاموں میں غفلت برتنے پر دو تین افسروں کو معطل کر دیتے تھے۔ اس ٹریک ریکارڈ کو مدنظر رکھتے ہوئے اب وفاق میں کام کرنے والے بابوئوں کو بھی الرٹ رہنا ہو گا، کیونکہ میاں شہباز شریف کی بلائی میٹنگ میں بغیر تیاری کے جانے کا مطلب، ڈانٹ کھانے کے علاوہ کھڈے لائن لگنے کیلئے تیار رہنا بھی ہوتا ہے۔ شہبازشریف نے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالتے ہی سرکاری بابووں کے دفتر کی ٹائمنگ 10 بجے کے بجائے صبح 8 بجے کردی ہے۔ اسی طرح ہفتہ وار 2 چھٹیوں کے بجائے اب چھٹی بھی ایک ہی ہوگی۔ ان کا یہ طرز عمل ظاہر کرتا ہے کہ وہ ملک کو درپیش ان بڑے چیلنجز سے نمٹنے میں سنجیدہ ہیں جو منہ کھولے ہماری قوم کی ترقی کے سفر کو نگلنے کیلئے تیار کھڑے ہیں۔
وزیر اعظم شہباز شریف کو معاشی میدان میں سخت مشکلات درپیش ہیں۔ آئی ایم ایف مذاکرات، کرنٹ اکائونٹ خسارہ اور تجارتی خسارہ ان کیلئے بڑے چیلنج ہیں۔ ادارہ شماریات کے مطابق، رواں مالی سال تاحال کرنٹ اکائونٹ خسارہ 12 ارب ڈالر سے بڑھ چکا ہے، اسی طرح تجارتی خسارہ 35 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے۔ انہوں نے وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالتے ہی نیشنل اکنامک کونسل کے قیام کا حکم دیا ہے، تاکہ ماہرین کی رہنمائی اور مشاورت سے ایسی معاشی پالیسیاں تشکیل دی جا سکیں جو آئی ایم ایف کے چنگل اور بیلنس آف پیمنٹ کے مسائل سے نکال سکیں۔ ایک نیشنل اکنامک کونسل سابق حکومت کے دوران بھی قائم کی گئی تھی، لیکن اس کا قیام ملک کو معاشی گرداب سے نہیں بچا پایا تھا۔ شہباز شریف اب اس نئی کونسل کے ذریعے کون سے معاشی فارمولے حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں، یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا۔ نون لیگ کے گزشتہ دور حکومت کے آغاز میں سعودی عرب اور چین میاں نوازشریف کی مدد کیلئے آگے آئے تھے، کیونکہ شریف برادران کے ان ممالک کے ساتھ ذاتی طور پر بھی اچھے تعلقات تھے، لیکن اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی خارجہ پالیسی کی بدولت پاکستان کے یہ دیرینہ دوست بھی اکھڑے اکھڑے ہیں، یعنی شہباز شریف کو ان خارجہ مسائل سے بھی نمٹنا ہے۔ ''واقفان حال‘‘ کے مطابق شہباز شریف سعودی عرب اور چین کے دورے کی تیاریوں میں مصروف ہیں، یعنی شہباز شریف کا بطور وزیر اعظم پہلا بڑا امتحان پاکستان کے ان دیرینہ دوستوں کو دوبارہ پاکستان کے ''کیمپ‘‘ میں شامل کرنا ہو گا۔
روز بروز بڑھتی مہنگائی اور خاص طور رمضان المبارک کے دوران بہت بڑا ایشو ہے، جس نے شہریوں کی زندگی اجیرن کررکھی ہے۔ پرائس کنٹرول کمیٹیاں جو ایک زمانے میں بہت فعال نظر آتی تھیں، اب برائے نام ہی نظر آتی ہیں، جس کی وجہ سے دکان دار من مرضی کی قیمتوں پر اشیائے خور و نوش بیچتے نظر آتے ہیں۔ یہ مسئلہ وفاق سے زیادہ صوبوں کا مسئلہ ہے، لیکن لوگ اس مہنگائی کا ذمہ دار وزیر اعظم کی معاشی پالیسیوں کو ہی ٹھہراتے ہیں۔ پچھلے پورے دورِ حکومت میں یہی کچھ ہوتا رہا۔ شہباز شریف‘ جن کی حکومت وفاق کے علاوہ صرف پنجاب میں ہو گی، تمام صوبوں میں مہنگائی کنٹرول کرنے کے لئے کیا اقدامات کریں گے، یہ بھی ان کے لئے ایک بڑا چیلنج ہو گا، خاص طور پر اس صورت میں جب سابق وزیر اعظم عمران خان سڑکوں پر نکل آئے ہیں اور کسی بھی طرح نئی اتحادی حکومت کو اٹھا کر باہر پھینکنے کے خواہاں ہیں۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان جس ذہنی کیفیت میں ہیں، اس میں وہ اپنی ناکامیاں بھی شہباز شریف کے سر تھونپنے سے گریز نہیں کریں گے، یعنی حکومت کو تدبیر سے چلنا ہو گا۔ اس وقت کے سیاسی حالات کے باعث ہمارا معاشرہ بری طرح تقسیم کا شکار ہے۔ لیٹر گیٹ اور غداری کے الزامات سے لے کر امریکی مداخلت تک، کئی طرح کے الزامات مارکیٹ میں بک رہے ہیں۔ سونے پر سہاگہ، نون لیگ کا ہارڈ لائنر گروپ پی ٹی آئی کے خلاف ویسے ہی مقدمات بنانے کا خواہاں ہے جیسے تحریک انصاف اپنے دور میں اپوزیشن جماعتوں کے خلاف بناتی رہی تھی۔ اگر ایسا ہوا، تو اس سے معاشرتی و سیاسی تقسیم اور گہری ہوتی چلی جائے گی۔ وزیر اعظم اپنے پہلے خطاب میں ہی یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ انتقام کی سیاست نہیں کریں گے۔ وقت کی ضرورت بھی یہی ہے کہ وزیر اعظم صاحب پرفارمنس پر توجہ مرکوز رکھیں کیونکہ ملک کو اس وقت سیاست سے زیادہ سنگین مسائل سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔ اگر یہ مسائل قابو میں آ گئے تو پھر سیاست کرنے کے لئے تو زمانہ پڑا ہے۔