"IYC" (space) message & send to 7575

کپتان کی سیاست

سابق وزیر اعظم عمران خان مسلسل نئے انتخابات کا مطالبہ کررہے ہیں، اب ان کی آواز کو شیخ رشید نے ایک اور انداز سے آگے بڑھایا ہے۔ شیخ صاحب فرماتے ہیں کہ 31 مئی تک نئے انتخابات کا اعلان کیا جائے ورنہ ملک میں خانہ جنگی ہوسکتی ہے۔ مخالفین شیخ رشید کی دھمکی کو گیڈر بھبکی قرار دیتے ہیں جبکہ حامی ان کی خونریزی کی بڑھک پر شادیانے بجارہے ہیں۔ حالات کا بغور جائزہ لیں تو لگتا ہے‘ عمران خان عید کے بعد سیاسی درجہ حرارت مزید بڑھائیں گے۔ وہ دو رخی سٹریٹیجی پر کام کررہے ہیں۔ ان کا بڑی حد تک موثر ہتھیار سوشل میڈیا ہے، جس کے ذریعے ناصرف وہ اپنا بیانیہ بہ آسانی بیچ رہے ہیں بلکہ اپنے حامیوں‘ خاص طور پر نوجوانوں کی خاص انداز میں ذہن سازی بھی کررہے ہیں۔ مبینہ طور پر سوشل میڈیا کے ذریعے ان کی ٹیم اور حامیوں نے کئی اداروں کے خلاف مسلسل ٹرینڈ چلائے، جس کیلئے جعلی اکائونٹس کا بھی سہارا لیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ خان صاحب اپنا مقصد پورا کرنے کیلئے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہوتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا کے محاذ پر ان کے حامیوں کا مقابلہ کرنے کیلئے کوئی دور دور تک موجود نہیں۔ نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے سوشل میڈیا ڈیپارٹمنٹ اس دوڑ میں ان کے حامیوں کا عشرِ عشیر بھی نہیں۔ ادھر میاں نواز شریف اور شہباز شریف کا معاملہ یہ ہے کہ وہ اپنی روایتی سوچ کی وجہ سے سوشل میڈیا کو یا بیانیے کی جنگ کو خاطر میں نہیں لاتے۔ ان کا ماننا ہے کہ ان کی برسہا برس کی سیاسی کامیابیوں کے پیچھے سوشل میڈیا سے زیادہ ان کی سیاسی جدوجہد یا طریقوں کا ہاتھ ہے۔ حال ہی میں شہباز شریف ایک میٹنگ میں کہتے پائے گئے کہ ملک کو اس وقت معاشی طور پر جن گمبھیر چیلنجز کا سامنا ہے میرا فوکس وہاں ہے، بیانیے کی اس جنگ کیلئے میرے پاس وقت نہیں۔ حال ہی میں جب اسلام آباد ہائیکورٹ نے فارن فنڈنگ کیس میں الیکشن کمیشن کو 30 دن میں کارروائی کرنے کا حکم معطل کیا تو سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی اکائونٹس پر یہ کہہ کر خوشیاں منائی گئیں کہ اداروں کے حوالے سے پالیسی اثر دکھائی رہی ہے۔ اسی فیصلے کے بعد عمران خان کا اپنی سوشل میڈیا ٹیم کیلئے پیغام سامنے آیا کہ امپورٹڈ حکومت کے خلاف جدوجہد میں سوشل میڈیا کا کردار نہایت اہم ہے، ہمیں اسے تیز کرنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت صورتحال کچھ یوں ہے کہ پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیم کے سامنے سب بے بس نظر آتے ہیں۔ خان صاحب کے حامی اینکرز اور صحافی بھی سوشل میڈیا کی جنگ میں ماحول گرمانے اور بیانیہ سازی میں اپنا کردار ادا کررہے ہیں ۔
عمران خان کی دوسری سٹریٹیجی سڑکوں پر ماحول گرما کر دبائو بڑھانے کی کوششیں ہیں تاکہ ان کے بقول جنہوں نے غلطی کی وہ ''غلطی سدھاریں‘‘ اور قبل از وقت انتخابات عمران خان کی جھولی میں ڈال دیں۔ حال ہی میں عمران خان کے حامی اینکرز اپنے پروگرامز میں کہتے سنائی دئیے کہ عمران خان کے احتجاج سے گھبرا کر سب ایک بیج پر جمع ہونے کی کوشش میں ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر کے خلاف دھرنا سیریز بھی اسی سٹریٹیجی کا حصہ ہے، کیونکہ سکندر سلطان راجہ کا قصور یہ ہے کہ انہوں نے 8 سال سے پی ٹی آئی کے تاخیری حربوں کے باعث لٹکنے والے فارن فنڈنگ کیس کی حتمی سماعت شروع کر دی ہے۔ یاد رکھیں کہ یہاں سکندر سلطان راجہ کے بجائے کوئی اور الیکشن کمشنر بھی اس کیس کو شفاف طریقے سے نمٹانے کی کوشش کرتا تو یہی کچھ ہونا تھا کیونکہ عمران خان کو من پسند فیصلے ہی پسند ہیں۔ 2017ء میں جب سپریم کورٹ نے میاں نواز شریف کو نااہل قرار دیا تھا تو پی ٹی آئی نے بینچ میں موجود جج حضرات کی تصاویر بل بورڈز پر آویزاں کر کے اظہار تشکر کا میلہ سجایا تھا۔ آج جب انہی معزز جج حضرات میں سے دو ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کو غیر آئینی قرار دیتے ہیں تو انہیں پی ٹی آئی کی جانب سے معتوب کیا جاتا ہے۔ اب عمران خان نے اسلام آباد میں دھرنے کی کال دینے کا جو اعلان کیا ہے، وہ سیاسی صورت حال کو کس جانب لے کر جاتی ہے، یہ دیکھنا دلچسپ ہو گا۔
سیاسی مبصرین کے مطابق سوال یہ ہے کہ عمران خان کی اس دو رخی پالیسیوں کا شہباز سرکار کے پاس کیا جواب ہے؟ کیا بیانیے کا جواب کارکردگی سے دیا جا سکتا ہے، اور کیا عوام اس جواب کو وزن بھی دیں گے؟ خاص طور پر جب مہنگائی بڑھنے جا رہی ہے کیونکہ آئی ایم ایف پروگرام کو جاری رکھنے بلکہ اس کو توسیع دینے کا مطلب سبسڈیز ختم کرنا ہے، اور اب عمران خا ن انہی عوام کے درمیان بیٹھ کر حکومت پر ویسے ہی پھبتیاں کسیں گے جیسے موجود حکومت اپوزیشن بینچز پر بیٹھ کر کرتی رہی ہے؟ یعنی وزیر اعظم میاں شہباز شریف کا اصل مقابلہ مہنگائی سے ہے۔ مہنگائی گزشتہ 3 برسوں سے عوام کا ناک میں دم کر چکی ہے، جس سے متوسط اور غریب طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ اگر نئے وزیر اعظم مہنگائی کے طوفان کو اپنی پالیسیوں اور مینجمنٹ سے قابو کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ عمران خان کی یلغار کے خلاف ایک موثر ہتھیار ثابت ہو سکتا ہے۔ آئی ایم ایف سے 2 ارب ڈالر کا اضافی قرضہ کم از کم پاکستان کو ڈیفالٹ ہونے سے بچا لے گا، لیکن پٹرول کی قیمت کا کیا کیا جائے جس پر عمران خان جون تک ہر ماہ 100 ارب روپے کی سبسڈی دے کر شہباز سرکار کیلئے بارودی سرنگ بچھا گئے ہیں۔ اس پر حکومت کے سامنے دو تجاویز ہیں، پہلی یہ کہ ابھی تک خرچ نہ ہونے والا ترقیاتی بجٹ، جو 250 سو ارب روپے کے قریب ہے اس کو فریز کر کے، تیل پر سبسڈی کی صورت میں خرچ کر کے جون یعنی آنے والے بجٹ تک گزارہ کیا جائے۔ دوسرا حل، شریف خاندان کی سعودیہ کے آل سعود خاندان سے ذاتی تعلقات کو بروئے کار لانا ہے جس کے لیے تاریخ میں پہلی دفعہ اتحادی حکومت کے تمام سرکردہ رہنما بشمول وزیر خارجہ بلاول بھٹو کا وفد عمرہ کرنے کے علاوہ سعودی حکمرانوں سے ملاقات کرے گا، اور پاکستان کے مسائل کو حل کرنے میں تعاون کی درخواست کرے گا، جس کے بعد ممکنہ طور پر تیل کی قیمت کی ادائیگی دو برسوں کے لئے موخر ہو سکتی ہے۔ اس بات کی بھی امید ظاہر کی جا رہی ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف شاید کچھ تیل مفت لینے میں بھی کامیاب ہو جائیں۔ پاکستان کی سیاست جس نہج پر کھڑی ہے وہاں اتحادی حکومت کے پاس پرفارمنس دکھانے اور مل جل کر آگے چلنے کے سوا کوئی چارہ نہیں، کیونکہ آگے کھائی پیچھے کنویں کے مصداق انہیں جاں فشانی سے کام کرنے کی ضرورت ہے، وگرنہ ایک جانب عمران خان ان کی جانب خون خوار نظروں سے گھور رہے ہیں تو دوسری جانب عوام ان کی جانب پُر امید نظروں سے دیکھ رہے ہیں، اگر یہ قومی حکومت ناکام ہوتی ہے تو عوام ان کا ووٹ کے ذریعے محاسبہ کرنے میں دیر نہیں لگائیں گے اور خان صاحب ان کی سیاسی ساکھ تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں