'پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے،
مسدس حالی کا یہ مصرعہ جب بھی پڑھا اس کا مفہوم پوری طرح نہ کھلا، پستی تو پستی ہوتی ہے اس کا بھی حد سے گزرنا ممکن ہے؟ اس سوال کا جواب کبھی نہ ملا تھا لیکن پھر ان آنکھوں نے وہ دیکھا کہ اس کا جواب مل گیا اور میں شرم سے گڑ بھی گیا، مجھے اپنے ہونے اور اس قوم کا ایک فرد ہونے پر ندامت بھی محسوس ہوئی۔
جس کے در پر حاضری کی تمنا ہر مسلمان کے دل میں بستی ہے، جو ہر مسلمان کی محبتوں اور عقیدتوں کا محور ہے اور ہونا چاہئے، جہاں حاضر ہونے والے نظریں جھکائے، آنکھوں میں آنسو لیے، اپنی کوتاہیوں کے باوجود حاضری کی سعادت ملنے پر تشکر کے جذبات لیے ہوتے ہیں، وہاں پاکستانی معاشرے کا ایک گھٹیا اور شرمناک باب لکھا گیا۔ درِ رسالت پر حاضری کے لیے جانے والی ایک خاتون کو ایسے لفظوں سے پکارا گیا کہ سن کر گھن آنے لگی۔ ایک غیرت مند نے خاتون کے تحفظ کی کوشش کی تو اس کے بال نوچے گئے۔ بدتمیزی کا یہ عالم تھا کہ بارگاہ رسالت کے مہمان حیرت زدہ رہ گئے کہ یہ کون لوگ ہیں، کس بات کا شور ہے؟ کیا انہیں دربار رسالت کے آداب کا ذرہ بھر بھی ادراک نہیں؟ یہ سب یہاں کیا کرنے آئے ہیں؟ کیا ان کا مقصد بارگاہ رسالت میں حاضری ہے یا یہ کسی سیاسی جلسے میں موجود ہیں۔
ان افسوسناک اور گھٹیا ترین مناظر کی ویڈیوز کو سوشل میڈیا پر پھیلانے والوں نے بڑے فخر کے ساتھ کچھ کیشن دے کر پھیلایا۔ ان کے خیال میں انہیں شاید بہت بڑی سیاسی کامیابی حاصل ہوئی۔ جب مجھ جیسے عام مسلمانوں نے ان ویڈیوز پر شدید غم وغصے کا اظہار کیا تو کچھ سوشل میڈیا صارفین نے ویڈیوز ڈیلیٹ کیں اور کچھ نے معذرت خواہانہ انداز اپنایا لیکن اس عمل کی کھل کر مذمت نہ کی۔
میں حیران ہوں کہ ہم نے سیاست کو مذہب کا درجہ کب سے دے دیا؟ سیاستدان کب سے اتنے اہم اور عقیدتوں کا مرکز ہوگئے کہ ان کے پرستاروں کو بارگاہ رسالت کے آداب بھی بھول گئے۔ رب نے اپنے لیے صرف ایک تقاضا رکھا کہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، مجھے لا شریک رب مانو، لیکن بارگاہ رسالت کے آداب اس نے خود وضع کئے اور رہتی دنیا تک کے لیے اس ہستی کے لیے جس احترام و عقیدت کا معیار مقرر کیا اسے اپنی کتاب میں لکھ دیا۔
اللہ تعالیٰ نے جب بھی تمام انسانوں کو کوئی حکم دیا تو قرآن میں الفاظ استعمال ہوئے: یاایھا الناس، لیکن جب اپنے نبی اکرمﷺ کی تکریم کے لیے حکم دیا تو فرمایا، یاایھا الذین اٰمنو، اے لوگو جو ایمان لائے، گویا ادب مصطفیٰ کی بات ہوئی تو اللہ کریم نے طرزِ تخاطب بھی ویسا ہی پسند کیا کیونکہ نبی اکرمﷺ کے ادب کی بات بے ادب اور قدر ناشناس لوگوں کے سننے اور سمجھنے کی ہے ہی نہیں۔ اللہ نے اس معاملے پر ان سے بات ہی نہیں کی جو بے ادب اور نااہل ہیں، اس سے بڑا تکریمِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا معیار کیا ہوگا؟
سورۃ الحجرات میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: (مفہوم) اے ایمان والو! تم اپنی آوازوں کو نبیٔ مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آواز سے بلند مت کیا کرو اور اُن کے ساتھ اِس طرح بلند آواز سے بات (بھی) نہ کیا کرو جیسے تم ایک دوسرے سے بلند آواز کے ساتھ کرتے ہو (ایسا نہ ہو) کہ تمہارے سارے اعمال ہی (ایمان سمیت) غارت ہو جائیں اور تمہیں (ایمان اور اعمال کے برباد ہو جانے کا) شعور تک بھی نہ ہو۔
اس آیت کریمہ سے ہمیں بارگاہ رسالت کے آداب سکھائے گئے اور یہ آداب رہتی دنیا تک کے لیے ہیں۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ رب نے یہ بھی فرما دیا (مفہوم) کہ اگر تمہیں میرے محبوب سے زیادہ دنیا کی کوئی ہستی پیاری ہے، اپنا مال پیارا ہے تب بھی تمہارا ایمان قبول نہیں۔ سورۃ التوبہ کی آیت نمبر24 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: (مفہوم) کہہ دو کہ تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے‘ بھائی‘ بیویاں‘ قبیلے اور تمہارے کمائے ہوئے مال اور وہ تجارت جس کی کمی سے تم ڈرتے ہو‘ اور وہ حویلیاں جنہیں تم پسند کرتے ہو‘ اگر یہ تمہیں اللہ سے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اور اس کی راہ میں جہاد سے زیادہ عزیز ہیں تو تم انتظار کرو کہ اللہ تعالیٰ اپنا عذاب لے آئے، اللہ تعالیٰ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا۔
سورہ آل عمران کی آیت نمبر 31 میں رب نے اپنے نبی سے کہلوایا: کہہ دو کہ اگر تم اللہ کے ساتھ محبت کرتے ہو تو میری اطاعت کرو‘ اللہ تمہیں محبوب بنا لے گا اور تمہارے گناہ معاف کر دے گا۔
میں حیران ہوں بارگاہ رسالت میں بے ادبی کے مرتکب اور اس بے ادبی پر اکسانے والے گڑگڑا کو معافی مانگنے کے بجائے اس فعل پر فخر کر رہے ہیں۔ مسجد نبوی میں شوروغل کرنے والے بعد میں ایک ویڈیو میں یہ کہتے پائے گئے کہ ہم انہیں (حکومتی وفد کے ارکان کو) مسجد نبوی میں نماز بھی ادا نہیں کرنے دیں گے، استغفراللہ، ایک گناہ اور پھر اس پر ضد۔
اس بے ادبی پر اکسانے والی جماعت کی قیادت نے ابھی تک اس فعل سے برات کا اظہار کیا نہ اس فعل قبیح کی مذمت کی بلکہ اس جماعت کی دوسرے درجے کی قیادت اس کے جواز گھڑنے میں لگی ہے۔ کیا یہی معیار ہے ان کے اسلام کا‘ اس ریاست کے تصور کا جس کے یہ دعویدار تھے اور بار بار اس ریاست کے تصور کو دہرا کر عوام کو اپنی طرف مائل کرتے تھے۔ کیا اس جماعت کے سپورٹرز کے لیے ان کا لیڈر زیادہ عزیز ہو گیا ہے؟ کیا انہیں اپنی ایمان کی سلامتی عزیز نہیں؟
اس مکروہ اور گھناؤنی سوچ کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ پشاور کے علاقے حیات آباد میں نماز جمعہ کے موقع پر اسی جماعت کے کارکنوں نے خطیب کا گھیراؤ کر کے اسے منبر سے اترنے پر مجبور کیا اور نماز جمعہ کی امامت سے روک دیا۔ پہلے تو فقہی بنیادوں پر مسالک وجود میں آئے تھے لیکن کیا اب سیاسی بنیادوں پر الگ مساجد بنائی جائیں گی، سیاسی سوچ کی بنیاد پر کفرواسلام کے فتوے بانٹے جائیں گے؟ سیاسی سوچ کی بنیاد پر کسی مسجد میں نماز کی ادائیگی کی اجازت ہوگی؟
وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
رب تعالیٰ نے قرآن میں خبردار کیا ہے کہ بے ادبی پر تمام اعمال ضائع ہو جائیں گے اور اس کا ادراک بھی نہ ہوگا۔ یہ کیوں فرمایا گیا؟ اس لیے کہ اگر کسی بے ادبی کے بعد کسی کو پتا چل گیا کہ اس کے اعمال ضبط ہوگئے ہیں تو وہ سجدے کرے گا، روئے گا، گڑگڑائے گا، چیخے گا، توبہ کرے گا، اور سیدھی راہ پر چل پڑے گا۔
اب جو اس بے ادبی کا جواز پیش کرنے کی کوشش کررہے ہیں تو یہ فرمان باری تعالیٰ کی حقانیت کا ثبوت ہے۔ انہیں واقعی ادراک نہیں کہ ان سے کیا سرزد ہوگیا ہے اور اس کا نتیجہ کیا ہے۔ بارگاہ رسالت میں بے ادبی اس قدر سنگین گناہ ہے کہ بدبختوں کو پتہ ہی نہیں چلتاکہ وہ لٹ گئے ہیں، ان کے پلے کچھ نہیں رہ گیا، وہ زندگی بھر سمجھتے ہیں کہ انہوں نے مدرسے بنوائے، زکوٰۃ دی، خیرات کی، مساکین کو کھلایا، مسجدیں بنوائیں، اتنے حج اور عمرے کئے، عمر بھر وہ اپنے اعمال کے گھمنڈ میں رہتے ہیں مگر بدبخت نہیں جانتے کہ ان کے ہاتھ میں کچھ نہیں رہا۔ انہوں نے رب کے محبوب کی بارگاہ میں بے ادبی کرکے خالق و مالک کو ناراض کرلیا۔ اب ان کے اعمال کسی بھی ترازو میں رکھے جانے کے قبل نہیں رہے۔ اللہ ہم سب کو معاف فرمائے اور ہمیں سیدھی راہ پر چلنے کی توفیق بخشے۔ ہمیں اپنے محبوب محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت و عقیدت کی توفیق عطا فرمائے، ہمیں صراط مستقیم پر چلنے کی ہدایت بخشے کہ اس کی عطا کردہ توفیق اور رحمت کے بغیر ہم کچھ بھی نہیں۔