"IYC" (space) message & send to 7575

عید اور سیاست

تہوار انسانی ارتقا کی کہانی ہوتا ہے۔ تہذیب و تمدن اور رسم و رواج کی مٹی میں گندھے تہوار، اکثر خوشی اور محبت کے اظہار کے لیے ہوتے ہیں۔ کبھی بدی کی طاقتوں پر اچھائی کی جیت کا جشن منایا جاتا ہے تو کبھی تہوار اس عظیم کائنات میں اپنے وجود کے ادراک اور نعمتوں کی شکر گزاری کے لیے خالق حقیقی کا شکر گزار ہونے کے اظہار کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ دنیا کے پسماندہ ترین سماج سے لے کر ترقی یافتہ معاشروں تک میں بھی اجتماعی خوشی کے اظہار کے لیے تہوار منائے جاتے ہیں۔ رنگ، نسل، مذہب، زبان، رسم و رواج اور علاقے جدا ہونے کے باوجود کسی بھی تہوار کی خاصیت یہ ہوتی ہے کہ انسان اپنی خوشی میں دوسروں کو شریک کرتا ہے۔عزیز و اقارب اور دوست احباب کا پہلا حق بنتا ہے، پھر دور کی جان پہچان رکھنے والوں اور کبھی کبھار ملنے والوں کا نمبر آتا ہے۔سب سے حیران کن بات یہ ہوتی ہے کہ ایسے موقع پر انسان زندگی میں پہلی بار کسی سے ملنے والے شخص سے بھی اسی اپنائیت سے پیش آتا ہے جیسے برسوں کی جان پہچان رکھتا ہو۔ برصغیر پاک و ہند میں ایسے تہوار ہیں جو مسلمان، ہندو اور دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے مشترکہ طور پر مناتے رہے ہیں۔
تقسیم کے بعد نفرت کی سیاست نے عوام کو آپس میں جوڑنے والے ان تہواروں سے بھی دور کردیا۔ سری نگر کی جامع مسجد میں عیدالفطر کی نماز کا نہ ہونا انتہائی افسوس ناک واقعہ ہے۔مودی کے بھارت میں ہندوتوا اور نفرت کی سیاست معاشرے کی جڑیں کھوکھلی کررہی ہے۔ لوگوں میں تقسیم اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ وہ اب ایک دوسرے کا وجود برداشت کرنے کے قابل بھی نہیں رہے۔ وہ تہوار جو برصغیر کے رہنے والوں کو مذہب سے بالاتر ہوکر بھائی چارے کی لڑی میں پروتے تھے‘ آج ان پر بھی انسان تقسیم ہورہے ہیں۔
وطن عزیز کی بات کریں تو یہاں بھی صورت حال کوئی بہت اچھی نہیں اور ہمیں اس بات کا اعتراف کرنے میں کوئی عار نہیں ہونی چاہیے۔ ماضی قریب میں ہم نے لہو لہو عیدیں بھی گزاری ہیں۔ امن کے دشمنوں نے ماہ مقدس میں اس زمین پر بے گناہ انسانوں کا ناحق خون بہایا، اور ظالموں نے عید کے دن بھی بربریت کا یہ کاروبار بند نہ کیا۔ سکیورٹی فورسز نے اس ضمن میں بھرپور کام کیا اور ارض پاک کا امن بحال کیا۔ آج وہ امن کے دشمن زخم خوردہ ہیں اور بلوں میں چھپے اپنے زخم چاٹ رہے ہیں۔
وطنِ عزیز میں ایک سے زیادہ عیدیں ہونا بھی کوئی انہونی نہیں۔ ایک وطن کے باشندے عیدالفطر تین الگ الگ دن بھی منا چکے ہیں۔ اس تقسیم کا باعث عموماً پشاور میں موجود ایک چھوٹا سا طبقہ بنتا ہے۔ وطن عزیز میں ایک دن عید منانے کے لیے کئی بار کوششیں کی جا چکی ہیں جو کبھی کامیاب اور کبھی ناکام رہی ہیں۔ اس بار بھی مرکزی رویت ہلال کمیٹی نے چاند نظر نہ آنے کا اعلان کیا‘ لیکن پشاور میں موجود احباب کو شوال کا چاند دکھائی دینے کی شہادتیں موصول ہوگئیں اور انہوں نے عیدالفطر پیر کو منانے کا اعلان کردیا۔ یہ اتنی بڑی انہونی نہیں تھی؛ تاہم خیبر پختونخوا حکومت نے مرکز کے ساتھ عید منانے اور مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا فیصلہ تسلیم کرنے کے بجائے مسجد قاسم خان کی رویت کو تسلیم کرتے ہوئے صوبے کی سطح پر عید کا اعلان کردیا۔
رمضان المبارک کے پہلے عشرے میں تحریک انصاف مرکز میں حکومت سے محروم ہوئی اور عمران خان وزارت عظمی کے منصب سے ہٹائے گئے۔ ایسے میں خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت نے شاید سیاسی مخاصمت میں وفاق سے الگ عید کرنے کا فیصلہ کیا۔ عیدالفطر اپنوں اور غیروں کو گلے لگانے کا نام ہے، لیکن یہاں دوریاں کم ہونے کے بجائے بڑھتی جا رہی ہیں۔ عیدالفطر کے موقع پر سب سے بڑی گہماگہمی چاند دیکھنے کی ہوتی ہے اور جیسے ہی چاند نظر آجائے تو ہر شہر، قصبے اور دیہات کے بازاروں میں رونق سی لگ جاتی ہے۔ بہت سے کام لوگوں نے چاند رات کے لیے ملتوی کررکھے ہوتے ہیں۔ کچھ پورے ہوجاتے ہیں کچھ ادھورے رہ جاتے ہیں۔ جس کی تیاری مکمل ہوجائے اس کی خوشی دیدنی ہوتی ہے۔ جس کا کچھ تھوڑا بہت کام رہ جائے وہ افسردہ ضرور ہوتا ہے لیکن عید کی خوشی اتنی بڑی ہوتی ہے کہ اپنا انفرادی دکھ کبھی محسوس ہی نہیں ہوتا۔
اس چاند رات پر ایک عجیب واقعہ یہ بھی ہوا کہ لوگ سیاست کرنے سڑکوں پر نکل آئے۔ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے اپنے پارٹی ورکرز کو چاند رات گھروں سے نکلنے کی کال دے رکھی تھی۔ عمران خان اور تحریک انصاف کے تمام رہنما اپنی حکومت جانے کو ایک بڑی عالمی سازش قرار دیتے ہیں۔ اس سازش کے بیانیے کو اہم سٹیک ہولڈرز کی جانب سے جھٹلایا جا چکا ہے؛ تاہم عمران خان اور ان کے ساتھی بضد ہیں کہ سازش ہوئی اور اس میں مقامی لوگ بھی مہرہ بنے۔ عالمی سازش کے خلاف چاند رات کو سڑکوں پر آنا انتہائی عجیب روایت ٹھہری۔ اس پر سونے پہ سہاگہ یہ کہ تحریک انصاف کے کچھ عالی دماغ رہنما چاند کے پیچھے بھی سازش ڈھونڈنے نکل پڑے اور الزام تراشی شروع کر دی کہ حکومت چاند رات کو احتجاج ناکام بنانے کے لیے ایک دن پہلے عید کرنا چاہ رہی ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ مرکزی رویت ہلال کمیٹی پر حکومت کا بہت دباؤ ہے کہ چاند کی رویت کا اعلان کرکے تحریک انصاف کی چاند رات خراب کی جائے۔ ایسا کچھ تھا اور نہ ہوا، چاند جب نظر آیا اعلان بھی تب ہوا، عید بھی ہوئی، اور چاند رات کو جس عظیم احتجاج کی کال تھی وہ چند شہروں میں چھوٹی چھوٹی ٹولیوں تک محدود رہا؛ البتہ مزے کی بات یہ ہوئی کہ خیبر پختونخوا حکومت نے ایک دن پہلے عید منا کر اپنی جماعت کے احتجاج کے خلاف سازش ضرور کی۔
سیاست کرنا اور اس طرح کی احتجاج کی کال‘ جلسے‘ جلوسوں اور ریلیوں کے ذریعے اپنے کارکنوں کو متحرک رکھنا ہر سیاسی جماعت کا بنیادی حق ہے؛ تاہم کچھ مواقع ہوتے ہیں جو سیاست سے بالاتر ہوتے ہیں، عید اور چاند رات کے تہوار پر سیاست کرنا مناسب نہیں لگتا۔ یہ معاشرے کو بلا وجہ تقسیم کرنے کا عمل ہے۔ عیدالفطر کے روز سیاست دانوں کے روایتی مبارک باد کے پیغامات کے سب عادی ہیں۔ کچھ سیاست دان کیمروں کے سامنے آ کر اپنی شعلہ بیانی سے عید کے دن بھی عوام کو سکون سے نہیں رہنے دیتے۔ معاشی مسائل میں الجھے عوام کو سال میں خوشی کے چند مواقع ہی ملتے ہیں۔ ایسے میں سیاسی موقع پرستی کرتے ہوئے عوام کی خوشی کو غارت کرنا افسوس ناک عمل ہے۔ عید اپنوں کی دید کا نام ہوتا ہے۔ اس عید پر وہ لوگ جن کے پیارے ان سے دور ہیں وہ بھی سڑکوں پر تھے۔ لا پتہ افراد، اخبارات اور سرکاری دفاتر کے لیے محض ایک اصطلاح بن کر رہ گئے ہیں۔ جن لوگوں نے اپنوں کو کھویا ہے وہ پورے کے پورے خاندان زندہ درگور ہیں۔ ریاست ماں کے جیسی ہوتی ہے اور ریاست کو عید کے روز سڑکوں پر موجود ان ماؤں، بہنوں، بیٹیوں کے آنسو بھی دیکھنے چاہئیں۔ جو گناہ گار ہو اس کو ریاستی قانون کے تحت سزا دی جائے، جو بے گناہ ہو اسے احترام سے زندگی گزارنے دی جائے۔ عید پر تو غیروں کو بھی گلے لگایا جاتا ہے۔ یوں اپنوں کو گلے لگانے میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں