سیاست کیجئے مگر معیشت کو سیاست سے دور رکھیے۔ یہی وہ فارمولا ہے جس کو اپنا کر ہم پاکستان کی دگرگوں معاشی حالت کو سنبھال سکتے ہیں۔ اگر کوئی اہم مگر مشکل معاشی فیصلہ کرکے ہم وقتی تکلیف کاٹ کر مستقبل میں غربت کے نیچے زندگی گزارتے آٹھ کروڑ پاکستانیوں کا کوئی بھلا کرسکتے ہیں تو خدارا فیصلہ کر ڈالیے۔ لیکن اگر حکومت ایسے فیصلے کرتے ہوئے اس بات سے ڈرے گی کہ یہ فیصلہ اس کی مقبولیت کو نقصان پہنچا سکتا ہے یا مخالفین اس بات کا سیاسی فائدہ اٹھا سکتے ہیں تو معذرت کے ساتھ! آپ عوام کے لیے نہیں بلکہ اقتدار کے لیے سیاست کررہے ہیں۔ اور اگر مخالف سیاسی جماعتیں اس موقع کی تاک میں رہیں گی کہ مشکل معاشی فیصلہ کرنے پر حکومت کو رسوا کرکے سیاسی مقبولیت حاصل کریں گی تو یہ بھی موقع پرستی اور منافقت کے سوا کچھ نہیں۔ سیاست اور معیشت آپس میں کیسے خلط ملط کردیے گئے ہیں ‘ اس کی مثال ان دو بیانات سے دی جاسکتی ہے جو وزیراعظم پاکستان اور اپوزیشن رہنما عمران خان نے دیے۔
وزیراعظم شہبازشریف نے قوم سے پہلے خطاب میں کہا کہ پاکستان کے عوام نے مطالبہ کیاکہ اس نااہل اور کرپٹ حکومت سے ان کی فوری جان چھڑوائی جائے‘ اپوزیشن کی تمام جماعتوں نے عوام کی آواز پر لبیک کہا‘ ہم نے حکومت سنبھالی تو ہر شعبہ تباہی کی داستان سنا رہا تھا‘ ایسی تباہی میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی جو چار سال میں ہوئی‘ یہی وجہ ہے کہ ہم نے پاکستان کو بچانے کا چیلنج قبول کیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ ملک کو بہتری کے راستے پر گامزن کرنے کے لیے انتھک محنت درکار ہوگی۔ ان کا کہنا تھا کہ پچھلی حکومت میں سفارتی خط کی نام نہاد سازش گھڑی گئی‘ ایک شخص مسلسل جھوٹ بول رہا ہے۔ پاکستان آئین کے مطابق چلے گا کسی ایک کی ضد سے نہیں۔ وزیر اعظم نے یہ بھی کہا کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ آپ نے کیا ہم نے نہیں کیا‘ عوام کو مہنگائی کی چکی میں آپ نے پیسا ہم نے نہیں‘ ملک کو تاریخ کے بدترین قرض کے نیچے دفن کردیا‘ سب سے زیادہ کرپشن آپ کے دور میں ہوئی‘ ملک میں لوڈ شیڈنگ کے اندھیرے آپ کے دور میں ہوئے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ہم نے دل پر پتھر رکھ کر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کیا‘دنیا میں پٹرول کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں‘ عمران حکومت نے اپنے سیاسی فائدے کے لیے سبسڈی کا اعلان کر دیا‘ پاکستان اور عوام کو معاشی بحران میں سابق حکومت نے پھنسایا‘ پاکستان اور عوام کو معاشی بحران میں سابق حکومت نے پھنسایا۔
وزیر اعظم کے قوم سے پہلے خطاب سے چند گھنٹے قبل چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے پشاور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ چھ دن میں الیکشن کی تاریخ نہ دی تو پھر نکلیں گے‘ اسمبلیاں توڑنے اور الیکشن کی تاریخ کا اعلان نہ کیا تو اب تیاری کے ساتھ نکلیں گے۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد سے واپس آنے کو کوئی ڈیل یا کمزوری نہ سمجھے‘ کسی سے کوئی ڈیل نہیں ہوئی‘ چھ دن میں اسمبلیاں توڑنے اور الیکشن کی تاریخ کا اعلان نہ کیا تو بھرپور جواب دیں گے۔ سابق وزیراعظم نے کہا کہ آئی ایم ایف کے دباؤ میں آکر ان لوگوں نے 30 روپے فی لٹر پٹرول مہنگا کر دیا‘ باہر کی حکومتیں چاہتی ہی نہیں ہیں کہ پاکستان اپنے پاؤں پر کھڑا ہو‘ اس سے عوام میں بددلی آئے گی اور عوام میں بغاوت پیدا ہو گی‘ ہمارے اوپر بھی آئی ایم ایف کا دباؤ تھا کہ قیمتیں بڑھاؤ لیکن ہم نے نہیں بڑھائیں اور عوام کو ریلیف دیا۔ انہوں نے کہا کہ آج غلامی کی قیمت قوم ادا کر رہی ہے لیکن میری جنگ امپورٹڈ حکومت کے خلاف ہے اور میں کسی صورت غلامی کو قبول نہیں کروں گا۔
ان دو بیانات کو پڑھ کر آپ کو اچھی طرح اندازہ ہوگیا کہ سیاسی بیانیے میں پوائنٹ سکورنگ کے لیے معاشی مشکلات کا تڑکا بھی لگایا جارہا ہے۔ سیاست اور معیشت کو ایک دوسرے سے علیحدہ نہیں کیاجاسکتا ‘ لیکن جب کروڑوں پاکستانیوں کو دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہوں تو اس معاملے پر سیاست نہیں بلکہ مفاہمت کی ضرورت ہے۔ وہی مفاہمت جس کا تذکرہ آج کے وزیراعظم اور اُس وقت کے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے 2018ء میں قومی اسمبلی سے پہلی دفعہ خطاب کرتے ہوئے کیا تھا۔ انہوں نے اس وقت میثاقِ جمہوریت کی طرز پر جس طرح میثاقِ معیشت کی بات کی تھی تو اسے اہم تجزیہ کاروں نے پاکستان کے لیے ایک محفوظ مستقبل کا نقطۂ آغاز قرار دیا تھا لیکن افسوس اس وقت پی ٹی آئی کی حکومت نے اسے ایک اور ''مک مکا ‘‘ قرار دیتے ہوئے ''کرپٹ اپوزیشن‘‘ کے ساتھ بیٹھنے سے انکار کردیا تھا۔ کہانی یہیں ختم نہیں ہوئی بلکہ جس طرح گزشتہ دورِ حکومت میں اپوزیشن لیڈروں کے خلاف کرپشن کے نام پر انتقامی کارروائیاں شروع ہوئیں‘ انہوں نے معیشت کو شدید نقصان پہنچایا۔ نیب ‘ ایف آئی اے اور ایف بی آر کا سیاسی مخالفین‘ سول بیورو کریسی اور کاروباری حضرات کے خلاف جو بے دریغ استعمال کیا گیا‘اس نے نہ صرف ملک میں سرمایہ کاری کی کوششوں کو نقصان پہنچایا بلکہ ایسا وقت بھی آیا کہ نیب کے ڈر سے سرکاری افسران نے ترقیاتی منصوبوں حتیٰ کہ سی پیک جیسے اہم پروجیکٹس کی فائلوں پر سائن کرنے سے بھی انکار کر دیا۔ کرپشن کے خلاف عمران خان کے نام نہاد بیانیے نے ملک میں کرپشن تو ختم نہیں کی الٹا ملک کو ایسے معاشی جمود میں ڈال دیا کہ اس سے نکلنے کے لیے آئی ایم ایف کا سہارا لینا پڑا اور وہ بھی ایسی سخت شرائط پر کہ ہم ابھی تک اس کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ پھر سٹیٹ بینک کی خودمختاری سے لے کر دوسرے اہم معاشی معاملات پر قانون سازی کے لیے قواعد و ضوابط کو روند کراور اپوزیشن کو دیوار سے لگا کر فیصلے کیے گئے‘ جن کی اونر شپ موجودہ حکومت قبول کرنے سے کتراتی ہے۔
حکومتِ وقت کم از کم وہ غلطیاں نہ دہرائے جو گزشتہ حکومت سے سرزد ہوئیں۔ انتقامی کارروائیوں سے بچتے ہوئے اہم معاشی معاملات پر اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کریں۔ پاکستان کا اس وقت ایک ہی بڑا مسئلہ ہے اور وہ ہے معیشت‘ معیشت اور معیشت۔ معیشت کو سنبھالنے کے لیے وزیراعظم کو معاشی ایمرجنسی لگانی پڑے تو وہ بھی لگائیں اور معاشی ماہرین کے ایڈوائزری بورڈ کوٹاسک دیں کہ وہ ملک میں پائیدار معاشی اصلاحات کے لیے ٹھوس تجاویز دیں جنہیں پارلیمنٹ کی منظوری اور تمام سیاسی جماعتوں بشمول پاکستان تحریک انصاف ‘کو اعتماد میں لے کر لاگو کریں۔ اس مقصد کے لیے وزیراعظم فوری طور پر میثاق معیشت کا جامع پلان تشکیل دیں اور اس پر تمام سیاسی جماعتوں کے دستخط کروائیں۔ پی ٹی آئی سے کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر مذاکرات کریں‘ اپنے ساتھ ٹیبل پر بٹھائیں اور انہیں اس بات پر قائل کریں کہ مشکل معاشی فیصلے کرنے پر وہ حکومت کی ٹانگ نہ کھینچیں اور اگر پی ٹی آئی دوبارہ اقتدار میں آئے تو اس کے معاشی فیصلوں پر باقی جماعتیں سیاست نہ کریں گی۔ معاشی خودمختاری کے بغیر ریاست پاکستان کا مستقبل دائو پر لگ چکا ہے۔
ہمارے ایٹمی اثاثوں‘ سی پیک جیسی لائف لائن اور آزاد کشمیر و گلگت بلتستان جیسے اہم سٹریٹیجک علاقے‘ جن پر دشمن نظر ٹکائے بیٹھا ہے‘ کو اگر محفوظ رکھنا ہے تو معیشت کو سنبھالنا ضروری ہے‘بصورت دیگر آنے والی نسلیں ہماری کوتاہیوں اور خود غرضی کو کبھی معاف نہیں کریں گی۔