"IYC" (space) message & send to 7575

شہباز حکومت‘ اپوزیشن اور چیلنج

وزیراعظم میاں شہباز شریف کا مقابلہ اس وقت کسی اور سے نہیں بلکہ اپنے آپ سے ہے۔ وہ مسا ئل کے بھنور میں گھری قوم کو نکالنے کی ذمہ داری لے کر پانی میں چھلانگ لگاچکے‘ دیکھنا یہ ہے کہ وہ قوم کی نیّا پار لگاتے ہیں یا بیچ منجدھار میں ڈبوتے ہیں۔اب سے ان کی زندگی کا سب سے بڑا امتحان شروع ہوچکا۔ کنارے پر پہنچ گئے تو اپنی سیاست‘ بہترین ایڈمنسٹریٹر ہونے کا خطاب اور جماعت کا ووٹ بینک بچا لیں گے۔ دوسری صورت میں وہ بھی تاریخ کے اسی کوڑے دان کا حصہ بن جا ئیں گے جس میں قوم کو امتحان سے نکالنے میں ناکام لیڈر جاتے ہیں۔
اگر دیکھیں تو اقتدار سنبھالنے کے ایک مہینے تک اگلے لائحہ عمل کیلئے گومگو کی کیفیت کا شکار رہنے والی حکومت ایک مشکل چیلنج قبول کرچکی ہے۔ قبل از وقت انتخابات کروا کر فریش مینڈیٹ کے ذریعے مشکل فیصلے کرنے کی حکمت عملی اب پیچھے رہ گئی ہے۔ پٹرول‘ بجلی اور گیس کو مہنگا کرنے کے غیر مقبول فیصلے کر لیے گئے ہیں‘ عوامی ردعمل فطری ہے ؛چنانچہ عوامی حلقوں اور ملک کی واحد اپوزیشن جماعت پی ٹی آئی کی جانب سے تنقید کے نشتر چل رہے ہیں‘ لیکن ترک ٹی وی کو دیے گئے حالیہ انٹرویو میں شہباز شریف کہہ چکے ہیں کہ اب سے 15 ماہ بعد عام انتخابات کروائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ کمزور طبقے کی مشکلات کم کر رہے ہیں‘ عوام بہت دباؤ میں ہیں‘ ان کے لیے جینا مشکل ہوگیا‘ عوام کی خدمت کے بغیر سیاست‘ سیاست نہیں اور حکومت‘ حکومت نہیں۔ میاں شہباز شریف کا کہنا تھا کہ مشکل حالات ہمارے لئے چیلنج ہیں‘ دوسرے اداروں سے بات کرنے سے پہلے انسانی ہمدردی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے یہ بھی کہا کہ مسائل کو قلیل مدت میں ختم نہیں کر سکتے‘ ہمارا ہدف غربت کا خاتمہ ہے‘ ترقی پذیر ملکوں کو مہنگائی پر قابو پانے میں مشکلات درپیش ہیں۔
دراصل یہی مہنگائی اس وقت حکومت کی سب سے بڑی مشکل ہے۔ عمران خان کی حکومت کے خلاف مہنگائی مارچ کرنے والی اتحادی جماعتیں ایک ہی ہفتے میں پٹرول 60 روپے مہنگا کرکے مہنگائی کی شرح کو بڑھا کر 20 فیصد تک لے گئی ہیں‘ جس سے ہر سُو شور برپا ہے‘ اور ہو بھی کیوں نا؟ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھنے کا مطلب اشیائے ضروریہ کا مہنگا ہونا ہے۔ یعنی اس وقت اتحادی حکومت کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھی (ن) لیگ کا ووٹ بینک تحلیل ہونا شروع ہوگیا ہے۔ عام آدمی یا ووٹر کو اس سے غرض نہیں کہ موجودہ معاشی صورتحال پونے چار برس تک برس اقتدار رہنے والی حکومت کی کارکردگی کا شاخسانہ ہے یا چھ ہفتے قبل وجود میں آنے والی حکومت کا۔ انہیں صرف یہی نظر آ رہا ہے کہ ان کا مہینے کا بجٹ بری طرح متاثر ہوچکا ہے‘ لوڈشیڈنگ نے ان کی زندگیاں اجیرن کر رکھی ہیں۔ اس وقت (ن) لیگ کے ووٹر بھی سر پکڑے بیٹھے ہیں کیونکہ وہ یہ سوچنے پر آمادہ نہیں کہ روس یوکرین جنگ نے تیل کی عالمی مارکیٹ اور فوڈ چین کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ روس پر لگنے والی عالمی پابندیوں کا مطلب ہے کہ دنیا میں تیسرے نمبر کا سب سے بڑا تیل نکالنے والا ملک اب یورپ کو تیل بیچنے سے قاصر ہوتا جارہا ہے جس کے نتیجے میں طلب و رسد کے اصول کے تحت تیل مصنوعات کی قیمتیں بڑھتی جارہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں تیل مہنگا کرنا مجبوری بن چکا ہے۔ صرف یہی نہیں آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کو اگلی قسط ریلیز کرنے سے قبل یہ شرط رکھی جارہی ہے کہ وہ سابق حکومت کی جانب سے کیے گئے وعدے پورے کرتے ہوئے تیل کی مصنوعات اور بجلی پر دی گئی سبسڈی کو ختم کرے۔ اب مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق اور سری لنکا کا حشر سامنے رکھتے ہوئے حکومت کے پاس سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں کہ وہ مشکل فیصلے لے اور ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچائے۔ یہ مشکل فیصلہ کرنے کے بعد حکومت کا اگلا چیلنج عوام کے غیظ و غضب کو ٹھنڈا کرنا ہے جسے خیبر پختونخوا کے علاقوں میں جلسے پہ جلسہ کرنے والے عمران خان بھڑکانے میں مصروف ہیں۔حالانکہ خان صاحب کی حکومت‘جس نے تحریک عدم اعتماد کے ڈر سے اور سیاسی فائدہ اٹھانے کیلئے تیل کی قیمتوں کو جون کے مہینے تک فریز کرنے فیصلہ کیا تھا‘ درحقیقت ملکی معیشت کی تباہی کا بندوبست کر گئی تھی۔ سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق سابق وزیراعظم موجودہ حکومت پر جتنی بھی تنقید کر لیں حقیقت یہی ہے کہ اگر آج عمران خان بھی اقتدار میں ہوتے تو وہ بھی سبسڈی ختم کرنے کے حوالے سے یہی فیصلہ کرنے پر مجبور ہوتے جو موجودہ حکومت نے کیا ہے‘ کیونکہ انہیں بھی آئی ایم ایف سے قرض کی اگلی قسط چاہیے تھی جس کیلئے انہیں تیل کی قیمت پر سبسڈی ختم کرنے کا اپنا وعدہ نبھانا پڑتا۔
سابق وزیر خزانہ شوکت ترین صاحب نے وزارتِ خزانہ سنبھالتے وقت تو آئی ایم ایف کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہونے کے بڑے بڑے دعوے کئے تھے‘ انہوں نے عملی طور پر آئی ایم ایف پروگرام معطل بھی کردیا تھا لیکن جب کرنٹ اکائونٹ خسارہ بڑھتا چلا گیا تو 50 کروڑ ڈالر کی قسط لینے آئی ایم ایف کے پاس جا پہنچے۔ عالمی مالیاتی ادارے نے صاف انکار کرتے ہوئے ان سے پہلے سٹیٹ بینک آف پاکستان کو خود مختار حیثیت دینے اور تیل کی قیمتیں بڑھانے کا مطالبہ کیا جسے انہوں نے من و عن قبول کرنے میں ہی عافیت جانی۔ تب کہیں جاکر وہ 50 کروڑ ڈالر کی قسط لینے میں کامیاب ہوئے۔ موجودہ ملکی حالات میں شہباز حکومت کیلئے اس وقت عمران خان یا پی ٹی آئی اتنا بڑا چیلنج نہیں جتنا بڑا مسئلہ ملکی معیشت ہے۔ لانگ مارچ کی ناکامی‘ سازشی بیانیے میں روز تبدیلی اور بظاہر گرفتاری کے ڈر سے وزیراعلیٰ ہاؤس خیبر پختونخوا میں پناہ لینے والے عمران خان حکومت مخالف فیصلہ کن تحریک چلانے کی پوزیشن میں نہیں؛ البتہ حالات سے اکتائے عوام کی طرف سے کوئی سخت ردعمل آنے کی صورت میں شہباز حکومت کے ناکام ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔
اس صورتحال میں سب سے پہلے تو وزیراعظم صاحب کو ہر صورت میں سیاسی اشرافیہ اور افسر شاہی کے اللے تللے ختم کرنے کے اعلان پر عمل کرنا ہو گا‘ تاکہ عوام کے دکھوں کا کچھ مداوا ہوسکے۔ لیڈروں کے بڑے بڑے سکواڈز‘ آگے پیچھے پھرتی‘ ہوٹر بجاتی گاڑیوں اور پروٹوکولز جیسی خرافات کو ختم کرنا ہوگا۔ وزارتوں کا صرف خرچہ ہی نہیں بلکہ ان کا حجم کم کرکے سمارٹ ورک فورس تیار کرنا ہوگی تاکہ حکومت کے غیر ترقیاتی اخراجات میں کمی لائی جاسکے۔ افسر شاہی جو پاکستان کی اصل حکمران ہے اور اپنے شاندار لائف سٹائل سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں‘ اس کو بھی مفت پٹرول اور نو آبادیاتی دور کی آسائشوں کے نشے سے نکلنا ہوگا ورنہ سڑک پر چلتا ہوا عام شخص جسے دو وقت کی روٹی کے لالے پڑ ے ہیں وہ جب حکمران طبقے کے لمبے لمبے قافلوں اور ہیلی کاپٹروں میں ان کی اڑانیں دیکھے گا تو اس کا کم مائیگی کا احساس دو چند ہوکر غصے اور نفرت میں بدلتا جائے گا۔
دوسرا اہم قدم جو حکومت کو اٹھانا ہوگا وہ بروقت اور مستعدی کے ساتھ فیصلے لینے کا ہے۔اتحادی حکومت کو قریبی کوآرڈی نیشن کے ذریعے تیز رفتاری سے فیصلے لینا ہوں گے۔ اگر ہر اتحادی جماعت اپنا اُلو سیدھا کرنے کی فکر میں رہے گی تو معاملہ گلے پڑجائے گا۔
آخری بات یہ کہ 2013ء میں جب نوازحکومت آئی تھی تو ملک کو بدترین دہشت گردی‘ لوڈشیڈنگ اور معاشی مسائل کا سامنا تھا لیکن 2014ء میں عمران خان کے 126 دن کے دھرنے کے باوجود 2015ء تک ملکی معاملات درست سمت میں چل نکلے تھے۔ اگر شہباز شریف اپنی حکومت کی یہی کارکردگی دہرانے میں کامیاب رہتے ہیں تو بلاشبہ اپنی سیاسی ساکھ اور قد کاٹھ کو بڑھانے میں کامیاب رہیں گے ورنہ وہ بھی بہت سے حکمرانوں کی طرح تاریخ کے کوڑے دان کا حصہ بن جائیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں