وزیراعظم میاں شہباز شریف نے حال ہی میں بزنس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پوری قوم کو یہ نوید سنائی کہ اب قربانی اور ایثار کا وقت ہے۔ غریب تو ہمیشہ سے ہی قربانی دیتا آ رہا ہے‘ اب امیر اور خوشحال طبقے کو بھی اپنی بیلٹ ٹائٹ کرنا ہوگی۔ ان کی بات بھی صحیح ہے کہ جس نہج پر ہماری معیشت پہنچ چکی ہے‘ اس سے آگے تباہی کے سوا کچھ نہیں۔ عوام پر جس طرح ایک ہی ہفتے میں 60 روپے فی لٹر اضافے کا پٹرول بم گرایا گیا اور بجلی مہنگی کردی گئی‘ اس سے متوسط اور نچلا طبقہ اس فکر میں مبتلا ہے کہ آگے گزارا کیسے ہوگا؟ عوام الناس سے اظہارِ یکجہتی کے طور پر حکومت نے بھی اپنے خرچوں پر کنٹرول اور حکومتی شخصیات کی سہولتوں میں کمی کا اعلان کیا ہے۔ گوکہ 40 فیصد پٹرول کی کٹوتی اور دفاتر میں تزئین و آرائش پر پابندی نمائشی اقدامات کے سوا کچھ نہیں‘ لیکن چلیں ایک علامتی قدم ہی سہی؛ تاہم اسی میٹنگ میں جہاں حکومت نے قومی وسائل میں بچت کے نام پر ہفتے کی چھٹی دوبارہ بحال کردی‘ وہیں پوری کابینہ یہ فیصلہ کرنے میں ناکام رہی کہ ہمیں اپنے بازار اور مارکیٹیں شام 7بجے بند کرکے بجلی بچانی چاہیے یا نہیں؟ سوال اٹھتا ہے کہ آخر یہ فیصلہ کیوں نہ ہوسکا؟ کیا (ن) لیگ نے تاجروں کے ڈر سے‘ جو ان کے کلیدی ووٹر اور حمایتی ہیں‘ یہ فیصلہ نہیں کیا؟ جب اوپر سے لے کر نیچے تک‘ سب شہری کسی نہ کسی صورت معیشت کی بربادی کی قیمت چکا رہے ہیں تو کیا تاجر برادری اتنی قربانی نہیں دے سکتی کہ وقت پر دکانیں بند کرکے قیمتی بجلی بچا سکے؟
لیسکو حکام نے وزارتِ توانائی سے مطالبہ کیا ہے کہ ستمبر تک مارکیٹیں‘ دکانیں اور بازار جلد بند کرنے کی پالیسی اپنائی جائے‘ اس سے پٹرول اور بجلی دونوں کی بچت ہو گی، صبح کاروبار کھول کر مغرب سے پہلے بند کر دیے جائیں اور اضافی بجلی گھروں کو مہیا کر دی جائے۔ واضح رہے کہ رواں مالی سال کے 10ماہ میں پٹرولیم مصنوعات کا درآمدی بل 17 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔ شہروں اور دیہات میں 12گھنٹے یا اس سے بھی زائد لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے۔ اس لوڈشیڈنگ کی وجہ سے لوگوں کے معمولاتِ زندگی اور کاروبار بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ بجلی نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے کارخانے پوری طرح چل نہیں رہے‘ جس کی وجہ سے فیکٹریوں سے عملہ کم کیا جا رہا ہے اور بیروزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ اور ٹیوب ویلوں کی بندش لازم و ملزوم ہو گئے ہیں۔ لوگ پانی کی بوند بوند کو ترس جاتے ہیں۔ ایسے میں معاشرے کے ہر طبقے بشمول تاجروں پر بھی یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ اپنا کردار نبھائیں‘ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ جیسے ہی حکومت کی جانب سے جلد دکانیں بند کرنے کی تجویز سامنے آئی ہے‘ ملک بھر کے تاجروں کی جانب سے اس حوالے سے منفی ردعمل دیکھنے میں آرہا ہے۔ ویسے تو ہم اپنے معمولاتِ زندگی میں ہر طرح سے مغرب کی تقلید کرنا اپنے لیے فرضِ اولین سمجھتے ہیں‘ لیکن نجانے کیوں ان کے اچھے عمل اپناتے ہوئے ہمیں شرم آتی ہے۔
ترقی یافتہ ممالک کا دستور ہے کہ جلد کاروبار کھولے جاتے ہیں اور شام 5 سے 6 بجے تک سب بند کردیا جاتا ہے اور دن کی روشنی کا بھرپور استعمال کیا جاتا ہے لیکن ہمارے ہاں ایک الگ رواج ہے کہ شام کے وقت لاکھوں یونٹس بجلی جلا کر رات کو دن کردیا جاتا ہے۔ اگر حکومت اس بارے میں سختی کرے اور کاروبار جلدی کھولنے کے حوالے سے احکامات دے تو صرف کچھ عرصہ کی بات ہے‘ لوگ اس کے عادی ہو جائیں گے کہ وہ اپنی خریداری دن کے اوقات میں کر لیں۔ کورونا کے دنوں میں بھی تو مارکیٹیں بروقت بندکردی جاتی تھیں تو کیا اس کی وجہ سے لوگوں نے خریداری چھوڑ دی تھی؟ کورونا ہی کے دور میں آن لائن بزنس نے فروغ پایا اور اب کئی لوگوں کی عادت بن رہی ہے کہ وہ بازار جانے کے بجائے آن لائن شاپنگ کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہی سب صبح خریداری کے لیے بھی ہو سکتا ہے۔ اگر ہم دنیا کی پانچ بڑی معیشتوں کا جائزہ لیں تو دنیا کی سب سے بڑی معیشت امریکہ میں بازار اور شاپنگ مالز 6بجے بند ہونا شروع ہو جاتے ہیں، معاشی ترقی کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر چین میں بازار صبح 10 بجے کھل جاتے ہیں اور شام 7بجے تک بیشتر مالز بند ہوجاتے ہیں، جاپان میں شام 8بجے کے بعد بازار کھلے رہنے کا تصور محال ہے، جرمنی میں شام 7بجے تک بیشتر شاپنگ سنٹرز بند کردیے جاتے ہیں، اسی طرح برطانیہ میں بھی اوسطاً شام 8 بجے دکانیں بن کردی جاتی ہیں۔ چاہے ان ممالک میں قدرے تاخیر تک ریسٹورنٹس اور کلبز وغیرہ کھلے رہتے ہیں مگر باقی کاروباری سرگرمیاں صبح 8 بجے سے شروع ہوکر شام ڈھلے ختم کردی جاتی ہیں۔ آخر دنیا کی ان پانچ بڑی معیشتوں کے تاجروں میں کون سی کمی ہے اور ہمارے تاجروں میں ایسا کیا ہے کہ وہ دنیا کی بہترین معیشتوں کی تقلید نہیں کر سکتے؟
یاد رہے کہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک‘ جہاں بجلی کی فراوانی ہے‘ میں ہر سال موسم گرما میں معیاری وقت کو ایک گھنٹہ پیچھے کر دیا جاتا ہے تاکہ گرمیوں کے طویل دنوں کی روشنی کو بروئے کار لاکر توانائی کی بچت کی جا سکے لیکن ہمارے یہاں مشرف دور میں جب یہ تجربہ کیا گیا تو یہ آؤٹ آف دی باکس آئیڈیا بیشتر عوام کو بالکل نہ بھایا بلکہ انہوں نے ناک بھوں چڑھاتے ہوئے اس پر عمل کرنے سے انکار کردیا۔ اس برس میں جب کسی سے وقت پوچھا جاتا تھا تو جواب آتا تھا کہ کون سا ٹائم‘ پاکستانی ٹائم یا مشرف ٹائم؟ لیکن اب ہمارے پاس ایسے چونچلوں کا وقت نہیں رہا۔ ملکی معیشت کی بہتری کے لیے اپنی عادتوں کو تھوڑا سا تبدیل کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ تاجر حضرات اعتراض اٹھاتے ہیں کہ زیادہ گرمی کی وجہ سے گاہک تاخیر سے نکلتا ہے‘ اس لیے مجبوراً انہیں رات گئے تک دکانیں کھلی رکھنا پڑتی ہیں‘ اور یہ کہ حکومت کا ان پر کوئی احسان نہیں کیونکہ وہ پیک آور کی مہنگی بجلی خرید کر دکانوں کو روشن کرتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ اگر دکانیں جلد بند ہونا شروع ہوجائیں گی تو کیا گاہک سامان خریدنا چھوڑ دیں گے؟ اگر کسی نے کپڑے خریدنے ہیں‘ جوتے یا جیولری خریدنی ہے تو کیا وہ صرف اس سبب نہیں خریدے گا کہ بازار جلد بند ہوجاتے ہیں؟ ہرگز نہیں! تب گاہک بھی خود کو تبدیل کرے گا اور تبدیلی کے ساتھ خود کو ایڈجسٹ کرے گا۔ ہمارے یہاں تو یہ حال ہے کہ صبح 10بجے بازار میں کسی کام سے جانا پڑ جائے تو وہاں ہُو کا عالم ہوتا ہے اور ہم قیمتی ڈے لائٹ کو بے دردی سے ضائع کرتے ہوئے ہزاروں واٹس کے بلب جلانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اعتراض یہ بھی آتا ہے کہ رات گئے تک دکانیں کھلی رہنے کی خبروں میں حقیقت نہیں بلکہ یہ پروپیگنڈا ہے‘ دراصل رات گئے تک تو صرف کھانے پینے کی دکانوں اور بیکریوں کے سوا کچھ نہیں کھلا ہوتا۔ ایسے اعتراضات اُٹھانے والوں کو چاہیے کہ وہ کبھی رات 11بجے لاہور اور کراچی کے معروف مالز کا چکر لگا آئیں‘ جہاں آپ کو رات میں بھی دن نظر آئے گا۔ صرف کراچی اور لاہور کے مالز ہی کیا‘ ایسے بے شمار کاروباری سنٹرز ہیں جو دیگر شہروں میں رات گئے تک کھلے رہتے ہیں‘ جہاں خوب چہل پہل رہتی ہے‘ حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ گرمیوں میں رات گئے ایسا رش پارکس اور باغوں میں ہو تو سارے دن کی گرمی سے اکتائے شہری ہوا خوری سے کچھ تازہ دم ہوسکیں لیکن ہمارا تو باوا آدم ہی نرالا ہے۔