عید الاضحی پر اِس مرتبہ ایک عجیب و غریب سماں تھا۔ میں چونکہ لاہور کا رہائشی ہوں‘ اس لیے لاہور کا حال بتا رہا ہوں لیکن پورے پنجاب میں جہاں جہاں سے دوست احباب کے فون آئے اور سوشل میڈیا پر جو اچٹتی ہوئی نظر ڈالی‘ وہاں بھی کچھ یہی صورتحال تھی۔ عید کے دن سے پہلے صفائی کے ذمہ دار ادارے کی جانب سے جانوروں کی آلائشوں کے لیے بڑے بڑے مضبوط قسم کے پلاسٹک کے تھیلے دیے گئے۔ جگہ جگہ کیمپ بھی لگے ہوئے نظر آئے جہاں سے گزرتے ہوئے آپ یہ حاصل کر سکتے تھے۔ بینرز اور دیگر ذرائع ابلاغ کے ذریعے عوام کو آلائشیں سڑکوں پر نہ پھینکنے اور صفائی کو ملحوظ رکھنے کے پیغام دیے جا رہے تھے۔ پہلے دن کی شام تک اس تمام محنت کا پھل سامنے آ چکا تھا۔ لاہور سمیت پورے پنجاب میں صفائی عملے کی مستعدی اور کام کی بدولت سڑکیں اور گلی محلے صاف تھے‘ رات گئے تک صفائی کا عملہ مختلف علاقوں کے چکر لگاتا رہا اور آلائشیں اکٹھی کرتا رہا۔ اس حوالے سے حکومتِ پنجاب اور وزیراعلیٰ یقینا کریڈٹ کے مستحق ہیں۔ حتیٰ کہ اس حوالے سے ان کے مخالفین کے پاس بھی تنقید کے لیے کچھ نہیں تھا اس لیے ادھر ادھر کی ہانک کر اپنے سپورٹرز کا جی گرماتے رہے۔ سیاست سے قطع نظر دیکھا جائے تو عوام اور حکومت کا رشتہ اس کے علاوہ اور کیا ہے کہ عوام کے منتخب نمائندے عوام کو ریلیف اور ان کی زندگی کو بہتر بنانے کا معاہدہ کرتے ہیں۔ عید الاضحی پر اس کا ایک چھوٹا سا مظہر آپ کے سامنے آیا۔ جب عوام حکومت سے تعاون کریں اور حکومت بھی تندہی اور ایمانداری سے اپنا کام سرانجام دے تو اس کا نتیجہ عوام کے لیے آسانی کی صورت میں ہی برآمد ہوتا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ گزشتہ پونے 4سال کے دوران پنجاب میں انتظامیہ بھی یہی تھی‘ لوگ اِن برسوں میں قربانی بھی کر رہے تھے تو پھر ان چند مہینوں میں بدلا کیا؟ میرے خیال میں ایک بہتر طرزِ حکمرانی نے یہ سب کمال دکھایا ہے۔ میں ایک صحافی ہوں اور میرا خیال ہے کہ صحافی کو آئینے کی طرح ہونا چاہیے جس میں معاشرے یا حکمران کو اپنا اصل چہرہ نظر آنا چاہیے۔ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ اور سابق وزیراعظم عمران خان سے عوام نے بڑی امیدیں باندھی تھیں اور انہوں نے بلند بانگ دعوے بھی بہت کیے تھے۔ 2018ء کے انتخابات کے بعد پنجاب میں اپنی حکومت بناتے ہوئے انہیں کوئی خاص سمجھوتا بھی نہیں کرنا پڑا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پنجاب میں بہتر طرزِ حکمرانی کی ایسی مثال قائم کی جاتی کہ لوگ سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو بھول جاتے لیکن کپتان کے وسیم اکرم پلس کی حکومت قائم ہونے کے 6ماہ کے اندر اندر عوام نے شہباز شریف اور ان کے طرزِ حکمرانی کو یاد کرنا شروع کر دیا۔
پنجاب کے 20حلقوں میں ضمنی انتخابات کے موقع پر آج خان صاحب کو جلسوں میں اپنے دور کے منصوبے اورعوام کو بہتر طرزِ حکمرانی کی یاد دلانے کے بجائے سیاسی باتوں کا سہارا لینا پڑ رہا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ 20 نشستوں پر ضمنی انتخاب پنجاب میں ہو رہا ہے لیکن سابق وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار تقریر تو کیا سٹیج پر بھی شاید ہی نظر آئے ہوں۔ پنجاب کا ووٹر تو یقینا 17جولائی کو اپنا فیصلہ سنا دے گا لیکن کیا ہی اچھا ہوتا کہ عمران خان جس شہر یا حلقے میں اپنا جلسہ کر رہے ہوتے ہیں وہاں کے لوگوں کو اپنے دور کے منصوبے گنواتے یا طرزِ حکمرانی کی مثال دیتے‘ افسوس کہ آج صورتحال کچھ ایسی نہیں۔ دوسری طرف حمزہ شہباز کا طرزِ سیاست اس وقت اپنے والد اور تایا کی عکاسی کر رہا ہے۔ مخالفین کو نشانہ بنانے کے بجائے وہ عوامی نوعیت کے منصوبوں اور ریلیف کے اقدامات پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ بہتر طرزِ حکمرانی کی بنیادوں پر کھڑی سیاست زیادہ پائیدار بھی ہوتی ہے اور اس کا سیاسی فائدہ بھی زیادہ ملتا ہے۔
بدھ کے روز لاہور میں عیدالاضحی کے موقع پر صفائی کے انتظامات کو سراہنے کی ایک تقریب میں وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز نے ایک بار پھر اس بات کا اعادہ کیا کہ صرف لاہور ہی نہیں بلکہ پنجاب بھر کے عوام کو خوشحال پنجاب لوٹانا ہے۔ اُنہوں نے آنے والے دنوں میں مون سون سے اربن فلڈنگ اور ڈینگی کے خطرات سے نمٹنے کیلئے بروقت انتظامات مکمل کرنے کا اعادہ بھی کیا۔ پنجاب میں جاری مون سون میں 20کروڑ گیلن بارشی پانی کو محفوظ کرنے کے منصوبے پر کچھ بات کرنے سے پہلے میں گزشتہ دنوں کراچی میں بارشوں سے ہونے والی تباہی کا ذکر کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں۔ کراچی میں حالیہ بارشوں نے ایک بار پھر سندھ حکومت اور کراچی کی انتظامیہ‘ دونوں کی کارکردگی کا پول کھول کر رکھ دیا ہے اور سیاسی جماعتیں صرف پوائنٹ سکورنگ کر رہی ہیں۔ کراچی کا سیوریج سسٹم تباہ ہو چکا ہے۔ بارشوں کے پانی کے نکاس کیلئے نہ تو کوئی مناسب انتظامات کیے گئے تھے اور نہ ہی کوئی دیگر انفرا سٹرکچر تیار کیا گیا۔ حد تو یہ ہے کہ کراچی میونسپل کارپوریشن جس کو بلدیہ عظمیٰ کراچی بھی کہا جاتا ہے‘ اس کا اپنا دفتر جس ایم اے جناح روڈ پر واقع ہے‘ اس سڑک پر بھی نکاسیٔ آب کا کوئی انتظام نہیں۔ ایم اے جناح روڈ اور اس کے ارد گرد قائم تمام تجاوزات حکومتی نا اہلی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
اس بات سے کوئی انکار نہیں کہ دنیا بھر کی طرح پاکستان بھی موسمیاتی تبدیلیوں کا شکار ہے۔ کراچی میں گزشتہ چند برسوں سے ہونے والی شدید بارشوں کی ایک وجہ موسمیاتی تبدیلی بھی ہے لیکن یہ بات بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کو موسمی تباہی سے بچانے کے لیے کچھ نہیں کیا گیا۔ ماہرین کے مطابق دنیا بھر میں بارش کے پانی سے نمٹنے کے لیے 2 مؤثر طریقے اپنائے جاتے ہیں۔ ایک طریقہ یہ ہوتا ہے کہ پانی کو زیر زمین ٹینکس میں محفوظ کیا جائے اور پھر کسی اور جگہ پر استعمال میں لایا جائے یا پھر دوسرا طریقہ یہ کہ پانی کو برساتی نالوں کے زریعے سے دریا یا سمندر تک پہنچایا جائے۔ ماضی میں کراچی میں بھی ایسے ہی برساتی نالے موجود تھے جن کے ذریعے بارشی پانی سمندر میں چلا جاتا تھا لیکن پھر وہی ہوا کہ کراچی کے دیگر علاقوں کی طرح ان نالوں پر بھی قبضہ گروپوں کی نظر پڑ گئی اور بہت سے نالے لینڈ مافیا کے ہتھے چڑھنے کے بعد عمارتوں کے پہاڑوں میں تبدیل ہو گئے۔
موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے کام کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ کراچی میں ایسی کسی بھی صورتحال سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ ہر سال مون سون میں آنے والی تباہی پر رونا نہ رویا جائے بلکہ اس شعبے میں مہارت رکھنے والے افراد کی مدد سے پیشگی منصوبہ بندی کے ذریعے مستقل حل تلاش کیے جائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ سیاسی مداخلت کو ختم کرتے ہوئے کراچی میں موجود تمام برساتی نالوں کو ایک بار پھر سے فعال کیا جائے۔
اب آتے ہیں واپس پنجاب کی طرف۔ حکومتِ پنجاب لاہور شہر کو مون سون اور شدید بارشوں میں ایسی کسی تباہی سے بچانے کے لیے اڑھائی ارب روپے کی لاگت سے زیر زمین واٹر سٹوریج تعمیر کرنے کے منصوبے پر کام کر رہی ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ منصوبہ مکمل ہو جانے کے بعد صوبائی دارالحکومت میں بارشوں کے بعد نہ تو کہیں پانی کھڑا ہوگا اور نہ ہی کسی بھی انفرا سٹرکچر کو کسی قسم کا کوئی نقصان پہنچے گا۔ صرف یہی نہیں بلکہ ان ٹینکوں میں جمع کیا جانے والا یہ پانی مختلف پارکوں اور گراؤنڈز کی آبیاری کیلئے بھی استعمال ہوگا۔ وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز کو چاہیے کہ لاہور کے بعد پنجاب کے دیگر شہروں میں بھی ایسے ہی منصوبے شروع کیے جائیں تاکہ وہاں کے شہریوں کیلئے بھی بارش زحمت کے بجائے رحمت ہی ثابت ہو۔