ہماری نسل کے لوگ جنہوں نے فلسطین میں اسرائیلی مظالم اور اس پر مسلم اُمہ کا سخت ردعمل دیکھ رکھا ہے ‘ شاید وہ خواب میں بھی نہیں سوچ سکتے تھے کہ ہماری زندگی میں وہ وقت بھی آئے گا جب مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل کی تکمیل کے بغیر ہی عرب ممالک اور اسرائیل شیر و شکر ہوجائیں گے اور فلسطینیوں کی جان و مال کی صورت میں دی گئی قربانیاں یوں رائیگاں ہوتی نظرآئیں گی۔ لیکن پھر یہ مشہور مقولہ یادآتا ہے کہ سفارتکاری کی دنیا میں مستقل دوست اور دشمن نہیں ہوتا‘ صرف مفادات عزیز رکھے جاتے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال ہم نے حال ہی میں دیکھی ہے جب امریکی صدر جوبائیڈن کے دورۂ مشرق وسطیٰ نے بالآخر ''ابراہام اکارڈ‘‘ کے اگلے فیز کو کامیابی سے ہمکنار کرنے میں اہم کردار ادا کیا‘ جس کے تحت سعودی عرب نے غیر اعلانیہ طور پر اسرائیل کو تسلیم کرلیا‘ اور اپنی ائیر سپیس کو اسرائیل سمیت تمام ممالک کیلئے کھول کر یہود و عرب اتحاد کو عملی جامہ پہنا دیا۔ یہی نہیں بلکہ برسہا برس عرب اسرائیل جنگوں کے ذریعے گتھم گتھا یہ ماضی کے حریف حال کے حلیف بن گئے‘ جنہوں نے ایک مشترکہ دفاعی معاہدہ کرنے کا فیصلہ بھی کیا ہے۔ لیکن یہاں ذہن میں ایک سوال اٹھتا ہے کہ دفاعی معاہدہ‘مگر کس کے خلاف؟
ان تمام ممالک کو مشترکہ طور پر نہ تو امریکہ سے خطرہ ہے‘ نہ روس سے‘ نہ نیٹو سے‘تو پھر دفاعی معاہدہ کس لیے؟ دراصل ان کا مشترکہ حریف ایران ہے‘ یعنی عرب عجم کا فرق مسلم اُمہ میں اس شدت سے برپا ہوچکا ہے کہ اس کے تدارک کیلئے صلح صفائی یا مذاکرات کی کوششوں کو ایک جانب رکھ کر مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن سمجھے جانے والے اسرائیل سے اتحاد کرلیا گیا ہے‘ جس کے مسلم اُمہ کے مستقبل اور ہمارے خطے میں بھی دور رس نتائج نکلیں گے۔اس حوالے سے امریکی صدر جوبائیڈن نے کلیدی کردار ادا کیا ہے ‘ جو گزشتہ پچاس سال سے بطور اہم امریکی سینیٹر اور سیاستدان امریکہ اسرائیل تعلقات کو پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ اس لئے جب وہ کہتے ہیں کہ صیہونی ہونے کیلئے یہودی ہونا ضروری نہیں‘ اور میں صیہونی ہوں تو اسرائیلیوں کے نزدیک ان کی بات میں وزن ہے ۔یہ اور بات ہے کہ جوبا ئیڈن بطور سینیٹر اسرائیل کی امن کش پالیسیوں پر سخت تنقید کرتے رہے ہیں حتیٰ کہ اسرائیلی حکمرانوں کے ساتھ سخت رویہ بھی اپناچکے ہیں کیونکہ ان کا خیال ہے کہ اسرائیل نے فلسطین اور عرب دنیا سے امن کے کئی مواقع گنوائے ہیں۔ مقبول اسرائیلی پبلی کیشن ''ہارٹز‘‘ نے اپنے حالیہ اداریے میں لکھا ہے کہ جوبائیڈن نے اسرائیل کو بے تحاشا امداد دلوائی‘ لیکن جب اسرائیل اور امن کی بات آتی ہے تو امریکی صدر پھر اس بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے یہودی کی طرح ہوجاتے ہیں جو اسرائیلی فوج میں لازمی سروس بھی کرتا ہے اور اپنی حکومت سے ناراض بھی رہتا ہے کہ یہ امن کے مواقع ضائع کرتی ہے۔ اسی لئے جب جوبائیڈن نے بیت اللحم میں فلسطینی صدر محمود عباس سے ملاقات کی تو انہیں تسلی دی کہ وہ اب بھی دو ریاستی حل کیلئے پرعزم ہیں‘ لیکن اب کی بار اِن کا یہ دعویٰ کھوکھلا لگتا ہے ‘ جس کی نہایت اہم وجوہ ہیں۔
اس وقت جوبائیڈن کی مجبوری یہ ہے کہ وہ صدارت سنبھالنے کے صرف چھ ماہ بعد اپنے وطن میں سخت غیر مقبول ہوچکے تھے ‘ حتیٰ کہ امکان ظاہر کیا جارہاہے کہ وسط مدتی انتخابات میں یا تو وہ کانگریس یا ایوانِ نمائند گان ‘یعنی دونوں ہاؤسز میں سے کسی ایک ہاؤس کا کنٹرول ریپبلکن پارٹی کے ہاتھوں کھو دیں گے۔ اس لئے انہیں اپنا اقتدار قائم رکھنے کیلئے یہودی لابی کی حمایت کی اشد ضرورت ہے اور وہ یہ حمایت اسی صورت حاصل کرسکتے ہیں جب اسرائیل کو مزید مضبوط اور محفوظ بنائیں۔ یہ مقصد انہوں نے عرب و اسرائیل کو ایک ہی صف میں کھڑا کرکے بڑی حد تک حاصل کرلیا ہے۔ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان جو اس وقت عملی طور پر سعودی عرب کے حکمران ہیں‘ اپنی نئی دنیا بسانے کے خواہاں ہیں۔ انہوں نے اپنے ملک کی اکانومی کی بنیاد تیل سے ہٹا کر مستحکم مارکیٹ کے اصولوں پر رکھنے کا اصلاحاتی پروگرام شروع کررکھا ہے‘ جس کیلئے انہیں امریکی حمایت کے علاوہ خطے میں امن کی ضرورت ہے ‘ جو ایران کے ساتھ یمن میں مخاصمت اور وہاں سے سعودی آئل ریفائنریز پر ہونے والے حملوں سے پریشان ہیں۔ اس مقصد کیلئے پہلے تو انہوں نے ترکی سے ازسر نو تعلقات بحال کئے جو جمال خاشقجی کے قتل کے بعد بگڑ چکے تھے ‘ پھر انہوں نے پراجیکٹ اسرائیل پر توجہ مرکوز کی ‘ جسے پہلے ہی ان کی سیٹلائٹ یا ذیلی ریاستیں متحدہ عرب امارات اور بحرین تسلیم کرچکے ہیں۔ اس تناظر میں شہزادہ محمد بن سلمان کیلئے ایران سے نمٹناآسان ہوجائے گا‘چاہے اس سے مسلم اُمہ واضح طور پر دو بلاکس میں تقسیم ہوجائے کیونکہ اب یہ ان کے نزدیک جذباتی باتیں ہیں‘ اصل حقیقت معاشی طور پر مستحکم اور مضبوط بنناہے۔
اگر عرب اسرائیل نزدیکیوں کے اثرات ہم اپنے خطے پر دیکھیں تو جب امریکی صدر جوبائیڈن واضح طور پر کہتے ہیں کہ ایران کے خلاف فوجی کارروائی ہوسکتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ بطور ہمسایہ ملک ہم بھی اس سے متاثر ہوسکتے ہیں ‘ خاص طور پر جب پاک ایران تعلقات کچھ خاص خوشگوار نہیں۔ دوسری جانب‘ پاکستان کے خلاف بھارت اسرائیل گٹھ جوڑ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں اور دونوں ممالک کا اتحاد عشروں پرانا ہے۔ اب جبکہ سعودی عرب نے اپنی فضائی حدود کو'' اوپن سپیس‘‘ قرار دیا ہے‘ اس کا مطلب ہے کہ ایشیا اور اسرائیل کے فاصلے مزید کم ہوگئے ہیں اور بھارت و اسرائیل کا فضائی سفرآٹھ سے پانچ گھنٹوں تک محدود ہوگیا ہے ۔امریکی صدر کے دورے کے دوران ہیI2U2 سمٹ بھی منعقد ہوا یعنی اسرائیل بھارت ‘ امریکہ اور یو اے ای کے گروپس کا اجلاس جسے اس وقت مستقبل کی سٹریٹجک پارٹنر شپ کیلئے بہت اہم قرار دیا جارہاہے۔
ہمارے یہاں ان لوگوں کی کمی نہیں جو اسرائیل سے تعلقات کی بحالی چاہتے ہیں لیکن بطورِ ریاست ہم بانیٔ پاکستان کی اس ہدایت پر عمل پیرا ہیں کہ فلسطین کے مسئلے کے حل کے بغیر اسرائیل سے تعلقات نہیں قائم کیے جاسکتے۔ اس پر ان لوگوں کا موقف ہے کہ وقت کا دھارا بہت آگے بڑھ چکا ہے اور دونوں ممالک کوماضی کے آسیب سے جان چھڑالینی چاہیے‘ لیکن قائد اعظم یہ بات اچھی طرح جانتے تھے کہ اگر ہم فلسطین پر اسرائیل کے غاصبانہ قبضے کی حمایت کریں گے تو پھر کشمیر پر بھارتی تسلط کے خلاف کس اصول کے تحت آواز اٹھائیں گے؟ ہماری خارجہ پالیسی اسی اصول پر گامزن ہے کہ کمزور ملک پر طاقتور ملک کے حملے کی کسی صورت حمایت نہیں کرنی ورنہ مسئلہ کشمیر پر ہمارا موقف کمزور پڑ جائے گا۔ یہ اور بات کہ گزشتہ حکومت نے یوکرین پر روسی حملے کی حمایت کرکے اس اصول کو پارہ پارہ کردیا۔ بہرحال اس وقت ہم ایک منقسم دنیا میں رہ رہے ہیں جہاں نئے اتحاد اور کیمپس وجود میں آرہے ہیں‘ پاکستان اس وقت دنیا میں کہاں کھڑا ہے اور وہ اپنے مفادات کا بہتر تحفظ کیسے کرسکتا ہے‘ اس حوالے سے ہمارے پالیسی سازوں کو واضح روڈ میپ بنانے کی ضرورت ہے۔