"IYC" (space) message & send to 7575

ہوتا ہے شب و روز تماشا

ہوتا ہے شب و روز تماشا میرے آگے...
غیرجانبداری سے دیکھا جا ئے تو یہ مصرع پاکستان کے حالات پر صادق آتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سیاست میں کسی بھی تبدیلی کے لیے ایک ہفتہ بھی بہت ہوتا ہے‘ لیکن میں تین عشروں سے صحافت کررہا ہوں اور وطنِ عزیز کی معاشی و سیاسی صورتحال کا یہ عالم ہے کہ یہ ہفتوں نہیں بلکہ دنوں کے اندر تبدیل ہوتی ہے۔ موجودہ سیاسی صورتحال ہی کو دیکھ لیں‘ جہاں پنجاب میں تین ماہ کے اندر تین وزیراعلیٰ اور تین گورنر تبدیل ہو چکے ہیں۔ تین ماہ میں ڈالر نے ایسی چھلانگ ماری ہے کہ روپے کے مقابلے میں نصف سنچری کر چکا ہے‘ وفاق میں حکومت کا صبح گئی کہ شام گئی والا معاملہ ہے۔ ادھر عمران خان صاحب کا اقبال پھر سے بلند ہونے لگا ہے حتیٰ کہ تمام سیاسی پتے ان کی جھولی میں گرتے دکھائی دیتے ہیں جبکہ ممنوعہ فنڈنگ کیس ان پتوں کو ہوا دینے لگا ہے۔ سیاسی و معاشی انتشار پر ہی نظریں جمی تھیں کہ ادارہ جاتی انتشار نے بھی سب کی توجہ اپنی جانب مبذول کروالی کہ سب سے بڑے عدالتی فورم پر ججزکی تعیناتی کے مسئلے پر تاریخ میں پہلی بار جوڑ پڑ گیا جو ظاہر ہے افسوسناک ہے کیونکہ جس ادارے کا کام ہی دوسروں کے تنازعات اور تصفیوں کو سلجھانا ہے وہ اگر تنازعات کا شکار ہوگا تو عام شہری کا کیا بنے گا؟
یہ بات درست ہے کہ پاکستانی عدلیہ کو اس وقت اصلاحات کی اشد ضرورت ہے۔ 21 ویں صدی میں جب ہم 19 ویں صدی کے قانون‘ ضابطوں اور روایات کے ساتھ عدالتی نظام کو چلانے کی کوشش کریں گے تو وہ کارگر ثابت نہیں ہوں گے۔ ریاست کے اہم ستون کے طور پر عدلیہ نے انصاف کی میزان کو اندھی دیوی کی طرح تھامنا ہے اور فیس نہیں کیس دیکھ کر فیصلہ کرنا ہے‘ لیکن نظام کی خامیوں‘ پارلیمان کی غیر سنجیدگی‘ حکومتی بے اعتدالیوں اور وسائل کی کمی نے ہمارے نظام انصاف کو آج دنیا میں ایک سو چالیسویں نمبر پر لاکھڑا کیا ہے۔ عدالتوں میں زیر سماعت کیسز کی تعداد تو چھوڑیے‘ زیر التوا کیسز لاکھوں میں ہیں یعنی لاکھوں خاندان انصاف کے منتظر ہیں‘ جس سے عدم تحفظ کا احساس اور نظام سے بے زاری اور بیگانگی کا تاثر پیدا ہوتا ہے۔ اوپر سے عدالتوں میں آئینی معاملات اور پٹیشنز کی بھرمار سے اعلیٰ عدالتوں کا قیمتی وقت الگ ضائع کیا جاتا ہے۔ وقت کی ضروت ہے کہ قانونِ شہادت سے لے کر پراسیکیوشن کا نظام‘ مقررہ وقت پر کیس نمٹانے کی پابندی‘ ججز کی مطلوبہ تعداد کے ساتھ ساتھ ان کی اہلیت کو بھی یقینی بنایا جائے تب جاکر ہم اپنے نظام انصاف میں کچھ بنیادی تبدیلیاں لا سکیں گے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ایک وکیل جو مقابلے کا امتحان پاس کرنے کے بعد ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج بنتا ہے‘ وہی اپنی قابلیت کی بنا پر آگے ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ کا جج مقرر ہو اور تقرریاں میرٹ کی بنیاد پر ہونی چاہئیں تاکہ عدل کا نظام مضبوط بنیادوں پر استوار ہو۔ اس کے بغیر اگر ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارا ملک‘ معاشرہ یا جمہوری نظام پنپ سکتا ہے تو پھر ہم احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔
کیسز کے فیصلوں کی تاخیر کا ذکر ہو تو لازمی طور پر ایک کیس کا تذکرہ ضرور ہوگا اور وہ ہے پی ٹی آئی کا ممنوعہ فنڈنگ کیس۔ حالیہ دنوں میں اس کیس کی بازگشت دوبارہ سنائی دی جب حکومتی اتحاد نے زور و شور سے الیکشن کمیشن سے آٹھ سال پرانے اس کیس کا فیصلہ جلد از جلد سنانے کا مطالبہ کردیا۔ حکومتی اکابرین جو اس وقت پنجاب میں سیاسی ہزیمت کے بعد براہِ راست عمران خان کے نرغے میں نظرآتے ہیں‘ ان کا خیال ہے کہ عمران خان کے اقتدار سے نکلنے کے باوجود سسٹم ان کو سپورٹ کررہا ہے۔ اب وہ ان تجزیہ کاروں کی باتوں سے متفق نظر آتے ہیں کہ عمران خان کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے نکلوانے کا مقصد ان کا چار سالہ گند مخالفین کے سر پر ڈالنا تھا تاکہ خان صاحب صاف ستھرے ہوکر بھاری اکثریت کے ساتھ دوبارہ اقتدار میں آجائیں تاکہ مبینہ طور پر پراجیکٹ عمران خان اپنی دس سالہ مدت پوری کر سکے۔ اب اس تھیوری میں کتنی جان ہے یہ تو وقت ہی بتا ئے گا البتہ پاکستان میں اتنی فول پروف اور مربوط پلاننگ کم از کم میں نے قومی تاریخ میں ہوتی نہیں دیکھی۔ بہرحال‘ حکومتی اکابرین کا خیال ہے کہ ممنوعہ فنڈنگ کیس کے فیصلے میں تاخیر کی وجہ بھی وہی ہے جو مبینہ طور پر نظامِ دھرتی چلا رہا ہے۔ اب اس کیس کے حوالے سے دنیا کے معتبر روزنامے'' فنانشل ٹائمز‘‘ نے ایک تحقیقاتی رپورٹ چھاپی ہے کہ کیسے برطانیہ میں ابراج گروپ کے عارف نقوی‘ جو عمران خان کے ذاتی دوست بھی ہیں‘ نے رفاہی کاموں کے نام پر غیرملکیوں اور پاکستانیوں سے بارہ ملین ڈالر کے قریب عطیات اکٹھے کیے اور اس ''خیراتی‘‘ پیسے کو پی ٹی آئی کی سیاسی فنڈنگ کے طور پر جماعت کے اکاؤنٹس میں بھیج دیا۔ پاکستانی قانون کے مطابق‘ کوئی بھی سیاسی جماعت کسی غیرملکی شخص یا کمپنی سے عطیات نہیں لے سکتی‘ ورنہ اسے جرمانے کے ساتھ ساتھ پابندی کا بھی سامنا کر نا پڑسکتا ہے‘ یہی وجہ ہے کہ اس وقت حکومت کا تمام تر زور فارن فنڈنگ کیس کے فیصلے کی جانب ہے تاکہ اقتدار سے نکلے عمران خان کی دوبارہ سے زور پکڑتی مقبولیت کا مکو ٹھپ دیا جائے۔
اس تحقیقاتی رپورٹ کے سامنے آتے ہی عمران خان صاحب نے فوراً اپنے پسندیدہ چینل پر پسندیدہ اینکر کو خصوصی انٹرویو بھی دے ڈالا جس میں انہوں نے اپنی پوزیشن کلیئر کرنے کے ساتھ ساتھ عارف نقوی کی تعریفوں کے پل بھی باندھے‘ جن کے بارے جنوری2021ء میں لندن کی ایک عدالت نے فیصلہ دیا تھا کہ اگر وہ مجرم ثابت ہوئے تو انہیں امریکہ کے حوالے کیا جا سکتا ہے اور انہیں 300 سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ شنید یہی ہے کہ عمران خان کی سیاسی جان ممنوعہ فنڈنگ کیس نامی طوطے میں ہے‘ جس کی گردن مروڑنے کے لیے پی ڈی ایم کی جماعتیں بے چین نظرآتی ہیں۔ ممکنہ طور پر اگلے دو ہفتے میں ہمارے ملک کا سیاسی ایجنڈا عدالتی نظام پر تبصروں اور ممنوعہ فنڈنگ کیس کے گرد گھومے گا۔ پھر اس کے بعد ملکی سیاست کی پٹاری میں سے کوئی نیا سانپ برآمد ہوگا‘ جو ممکنہ طور پر آئی ایم ایف کی اگلی قسط کے اجرا کا ہوگا‘ جس کا ہماری قومی قیادت سے لے کر عوام تک سب کو بے چینی سے انتظار ہے۔ قرضے کی یہ قسط آگئی تو پھر ممکن ہے کہ ایک دو حکومتی اتحادی ادھر ادھر ہوجائیں یا کردیے جائیں جس کے بعد وفاقی حکومت اکتوبر کے قریب عام انتخابات کی تاریخ دینے پر مجبور ہو جائے تاکہ منتقلی اقتدار کا ایجنڈا باضابطہ طور پر پورا ہوجائے۔ اکتوبر سے اگلا ہی مہینہ نومبر کا ہے جس میں خزاں نمودار ہوتی ہے‘ یعنی پرانے پتے جھڑنے اور نئے آنے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ اب یہ نئے پتے وطن عزیز کو حالیہ سیاسی گرمائش سے بچانے کے لیے اپنا سایہ کیسے فگن کرتے ہیں‘ یہ دیکھنا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں