یکم اگست کو ایک انتہائی اندوہناک حادثہ پیش آیا جب کورکمانڈر کوئٹہ لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی سمیت پانچ اعلیٰ فوجی افسر اور ایک جوان ہیلی کاپٹر حادثے میں شہید ہوئے۔ اس حادثے پر پوری قوم رنجیدہ ہے لیکن سوشل میڈیا پر ایک بے حس طبقے نے نہایت دل آزار تبصرے کیے اور اس حادثے کو کوئی اور رنگ دینے کی کوشش کی جس سے فوجی قیادت‘ قومی دفاعی ادارے اور شہدا کے لواحقین کے دکھ میں مزید اضافہ ہوا۔ ہر غیرت مند پاکستانی نے اس پروپیگنڈے کو مسترد کیا اور سوشل میڈیا پر ایسے تبصروں کی مذمت بھی کی لیکن اتنا کافی نہیں تھا۔ مجھے ذاتی طور اس بات کا شدت سے انتظار تھا کہ اس پروپیگنڈے کے پیچھے کارفرما عناصر کو بے نقاب کیا جائے اور ان کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے۔ شکر ہے یہ انتظار زیادہ طویل نہیں ہوا اور ڈی جی آئی ایس پی آر کا ردعمل اور کارروائی سامنے آ گئی۔جمعہ کے روز ڈی جی آئی ایس پی آر نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ گزشتہ دنوں پیش آنے والے ہیلی کاپٹر حادثے کے حوالے سے بعض بے حس حلقوں کے سوشل میڈیا پر توہین اور تضحیک آمیز تبصرے ناقابلِ قبول اور انتہائی قابلِ مذمت ہیں۔ ہیلی کاپٹر حادثے کے حوالے سے سوشل میڈیا پر مہم شہدا کے اہلِ خانہ اور مسلح افواج کے لیے گہرے غم اور پریشانی کا باعث ہے۔ پوری قوم اس مشکل وقت میں ادارے کے ساتھ کھڑی ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آرمیجر جنرل بابر افتخار نے نجی ٹی وی سے گفتگو میں پریس ریلیز جاری کرنے کے حوالے سے وضاحت کی کہ حادثے کے بعد پورا ادارہ ایک کرب اور دکھ میں مبتلا تھا اور اس دوران سوشل میڈیا پر ایک مخصوص طبقے نے بہت ہی غلط قسم کا پروپیگنڈا کیا۔ شہدا کی آخری رسومات ادا کرنے کے بعد پریس ریلیز جاری کی گئی کیونکہ اس پروپیگنڈے کی وجہ سے پورے ادارے اور خاص طور شہدا کے لواحقین کو بہت تکلیف پہنچی۔ ہم پوری قوم کی حمایت کا شکریہ ادا کرتے ہیں لیکن سوشل میڈیا پر اس طرح کا کام نہیں ہونا چاہیے۔ ہمیں بطور معاشرہ اجتماعی طور پر ایسے عناصر کے خلاف کھڑا ہونے کی ضرورت ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آرکے بیان اور پریس ریلیز کے ساتھ ہی ایک نوجوان منیب کیانی کا اعترافی وڈیو بیان بھی سامنے آیا ہے جو خود کو تحریک انصاف سٹوڈنٹ ونگ کا سابق عہدیدار بتاتاہے۔ اس نے ایک ٹویٹ خود سے لکھنے اور ایک کاپی پیسٹ کرنے کا اعتراف کیا ہے۔وہ کہتا ہے کہ جو ٹویٹ اس نے خود لکھا اس کے لیے مواد اس نے پی ٹی آئی کے سرگرم کارکنوں کے علاوہ ایک اینکر کے پیج پر آنے والی معلومات سے اخذ کیا۔منیب کیانی کہتا ہے کہ وہ اپنے کیے پر شرمندہ اور معذرت خواہ ہے‘ مجھ سے بہت بڑی غلطی ہوئی اور یہ غلطی کچھ لوگوں کے اثر و رسوخ کی وجہ سے اور کچھ لوگوں سے متاثر ہوکر ہوئی۔
یہ ایک افسوسناک امر ہے کہ ملک کی خود داری کے لیے جدوجہد کا دعویٰ کرنے والی کسی سیاسی جماعت سے تعلق کا دعویٰ کرنے والا کوئی فرد ایسے منفی پروپیگنڈا میں ملوث پایا جائے۔بظاہر اس پروپیگنڈے کے پیچھے وہی سازشی تھیوری کارفرما لگتی ہے جو پی ٹی آئی کے ہر جلسے میں دہرائی جاتی ہے کہ ان کی حکومت کے خاتمے میں امریکہ اور مقتدرہ کے کچھ کردار چھپے ہوئے تھے۔ اگر اس سازشی تھیوری میں ذرہ بھر بھی سچ ہوتا تو پی ٹی آئی قیادت ان کرداروں کے نام لیتی‘ لیکن پی ٹی آئی کے کارکن جن کے لیے کپتان کا کہا ہر لفظ سچ کا درجہ رکھتا ہے‘ اس سازشی تھیوری کو سچ مان کر پروپیگنڈا پر اتر آتے ہیں۔ ایسی سوچ ملک کے لیے خطرناک ہے اور اسے ترک کرنا ہوگا۔ ان کو بظاہر یہ لگتا ہے کہ وہ دوسروں کو بیک فٹ پر جانے پر مجبور کرکے من مرضی کر سکتے ہیں لیکن ایسا نہیں ہے۔ ان کی راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ دور ہوتی گئی لیکن جب یہ ناکام ہوئے اور ملک چلتا نظرنہ آیا تو ان کے حامی ان کی بلاوجہ کی حمایت سے دستبردار ہوگئے جسے کپتان سازش قرار دینے لگے۔
یہی سوچ اور طرزِ فکر پی ٹی آئی کے صفِ اول کے کچھ رہنماؤں نے اپنا رکھی ہے۔ شیریں مزاری صاحبہ نے کابل میں القاعدہ رہنما ایمن الظواہری کی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد ٹویٹر پر لکھا کہ '' امریکی ڈرون خلیج کی طرف سے کابل کی سمت گیا‘ فرض کریں کہ پاکستان نے ابھی تک امریکہ کو اڈے نہیں دیے( اگر اس حکومت نے خفیہ طور پر ایسا نہ کیا ہو) تو ڈرون نے کس ملک کی فضائی حدود میں پرواز کی؟‘‘ اس کے بعد اپنی دوسری ٹویٹ میں انہوں نے عمران خان حکومت کے خاتمے کی وجہ خان صاحب کا اپنے ملک کی فضائی حدود استعمال کرنے سے انکار کو قرار دیا۔ حیرت ہوتی ہے جب ایک بڑی سیاسی جماعت کی صف اول کی قیادت بھی حساس موضوعات پر سوشل میڈیا پر بلا دھڑک کچھ بھی لکھ دیتی ہے۔ آپ کو حکومت جانے کا افسوس ہے یہ درست لیکن ملک کی سلامتی اور خودمختاری پر بے یقینی اور قیاس آرائی کسی کو زیب نہیں دیتی۔
آئی ایس پی آر کے سربراہ میجر جنرل بابر افتخار کو اس معاملے کی بھی وضاحت کرنا پڑی‘ اس حوالے سے انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا پر ایسے بے جا بیان دیے جاتے ہیں جن کے کوئی شواہد نہیں ہوتے۔ اس سے نقصان صرف ملک کا ہوتا ہے۔ اس کارروائی پر دفتر خارجہ نے وضاحت سے بیان دیا ہے جس کے بعد بے بنیاد باتوں کی گنجائش نہیں رہتی۔ انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ کابل میں کارروائی کے لیے پاکستان کی سرزمین استعمال ہوئی ہو۔ جن سیاسی رہنماؤں کو معاملات کی نزاکت کا احساس نہیں رہتا ان کے بیانات اور طرزِ عمل کی وجہ سے ملک میں پروپیگنڈا کی ایک لہر بار بار اٹھتی ہے‘ انہیں قومی سلامتی کے امور کے قریب بھی پھٹکنے نہیں دینا چاہیے اور ایسا کرتے ہوئے کسی کو بھی معذرت خواہانہ انداز نہیں اپنانا چاہیے۔
ایمن الظواہری نے پوری دنیا میں اسلام کا ایسا چہرہ پیش کیا اس کے نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ القاعدہ کے نظریات سے متفق لوگ ہی ایمن الظواہری کی ہلاکت پر مذمتی اور مزاحمتی بیان دے سکتے ہیں۔ افغان طالبان نے دوحہ معاہدے میں اس شق پر دستخط کیے تھے کہ وہ غیرملکی دہشت گرد گروہوں کو اپنی سرزمین استعمال نہیں کرنے دیں گے۔ القاعدہ اور ایمن الظواہری کا معاملہ دوسری نوعیت کا ہوگا۔ ہمیں تو غرض ہے کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ‘ جسے افغان طالبان نے ایک سال سے مہمان بنا رکھا ہے اور اس کے سینکڑوں جنگجو افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف کارروائیوں کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ پاکستان نے اس ایک سال کے دوران کئی بار افغان طالبان سے کالعدم ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کے لیے کہا۔ پچھلے ماہ جید پاکستانی علما کا وفد بھی کابل گیا۔ افغان طالبان نے علما کی کوئی بات سننے کے بجائے اُلٹا انہیں مطالبات کی فہرست تھما دی۔ افغان طالبان اور ٹی ٹی پی کا گٹھ جوڑ اب کھل کر سامنے آ رہا ہے۔ ان حالات میں افغانستان میں کیا ہونا چاہیے اور کیسے ہونا چاہیے‘ اس کا فیصلہ قومی سلامتی کے ضامن اداروں پر چھوڑ دینا بہتر ہوگا اور اس ایشو پر سیاست چمکانے سے گریز ہی ملکی مفاد میں ہے۔ اس لیے پی ٹی آئی قیادت ڈرون حملوں کی مخالفت اور امریکی سازش کا بیانیہ بیچنے کے بجائے ملکی معیشت کی بہتری اور عوامی فلاح کا کوئی ایجنڈا ترتیب دے۔