سابق وزیراعظم عمران خان کے چیف آف سٹاف ڈاکٹر شہباز گل کے ساتھ کیا ہوا‘ ان دنوں اس حوالے سے ہر طرف بحث ہو رہی ہے۔بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ شہباز گل کے ساتھ وہی ہوا جو ضروری تھا یعنی پانی کو سر سے گزرنے سے قبل ہی روک دیاگیا۔ انہوں نے فوج کو بغاوت پر اکسانے کی جو کوشش کی وہ قانونی‘ آئینی اور اخلاقی طور پر ریڈ لائن کراس کرنے کے مترادف تھی۔ اب اس پر بھی ری ایکشن نہ دیا جاتا‘ ایف آئی آر کاٹ کر قانونی عمل شروع نہ کیا جاتا تو ملک میں بغاوتوں کا منہ کھولنے کے مترادف ہوتا۔
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور ان کی سوشل میڈیا ٹیم جس سطح پر جاکر اداروں اور مخالفین کے خلاف بیان بازی کررہی ہے‘ اس کے سامنے بند باندھنا لازمی تھا۔ اب عمران خان‘ ٹارچر اور تشدد کا شور مچا کر شہباز گل کے کیس سے جتنا بھی سیاسی فائدہ اٹھانا چاہیں‘ وہ تو ان کی مرضی ہے لیکن قانونی طور پر کسی بھی صورت شہباز گل کا دفاع نہیں کیا جا سکتا۔ یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر شہباز گل کے کیس کی اتنی حساسیت کیوں ہے‘ تو جواب واضح ہے کہ سانحہ لسبیلا میں شہدا جو سیلاب متاثرین کی مدد کرتے کرتے اپنی جان وطن عزیز کیلئے قربان کرگئے‘ ان کی قربانی کا سوشل میڈیا پر جس طرح مذاق اڑایا گیا اور بعد ازاں اس میں بھارتی اکاؤنٹس بھی شامل ہوگئے اس نے ملک کے اہم ترین اداروں میں غم و غصے اور خطرے کی گھنٹی بجا دی۔ اس واقعہ کے فوراً بعد جب شہباز گل نے ایک ٹی وی چینل پر آکر نہایت سنگین اور خطرناک بیان داغ دیا تو پھر لازمی ہوگیا کہ تفتیش کی جائے کہ سوشل میڈیا پر شہدا کے خلاف ہرزہ سرائی اور شہباز گل کے غیر ذمہ دارانہ بیان‘ کیا ایک ہی سکرپٹ کا حصہ ہیں؟ کیا اس ڈرامے کا ڈائریکٹر کوئی ایک ہی شخص ہے یا پھر یہ محض اتفاق ہے؟
پاکستان تحریک انصاف اور اس کے چیئرمین عمران خان نے ابتدا میں شہباز گل کے بیان کے بجائے صرف ان کی گرفتاری کی مذمت کی اور اس پر واویلا مچایا۔ انہوں نے یہاں تک کہا کہ شہباز گل کے خلاف کارروائی کرنی ہے تو پہلے نواز شریف‘ مولانا فضل الرحمن اور خواجہ آصف وغیرہ کے خلاف فوج مخالف بیانات پر کارروائی کی جائے‘ لیکن جب پی ٹی آئی نے رائے عامہ اپنے خلاف دیکھی اور اسے احساس ہوا کہ ریاست میں اس بھیانک کوشش کو کس سنجیدگی سے لیا گیا ہے تب کہیں پانچویں دن جاکر عمران خان صاحب نے شہباز گل کے بیان سے کنارہ کشی اختیار کی کیونکہ وہ سمجھ گئے تھے کہ وہ جس ڈگر پر چل نکلے ہیں اگر اس سے پیچھے نہ ہٹے تو اس کا انجام اچھا نہیں ہوگا۔ عمران خان چاہے اپنے مخالفین کو جتنا مرضی اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہونے کا الزام دیں لیکن یہ حقیقت تسلیم شدہ ہے کہ نواز شریف‘ مولانا فضل الرحمن اور آصف زرداری نے ہمیشہ ریاستی اداروں کی سیاست میں مداخلت پر تنقید کی اور زور دیا کہ ادارے اپنے آئینی کردار تک محدود رہیں لیکن یہ کبھی نہیں ہوا کہ انہوں نے آگے بڑھ کر کسی ادارے میں پھوٹ ڈالنے اور بغاوت کرنے کی کوشش کی لیکن خان صاحب کا منترہ مختلف ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ ادارے اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کریں اور اپنا آئینی و قانونی کردار چھوڑ کر ان کے حق میں مداخلت کریں اور انہیں دوبارہ اقتدار میں لائیں۔ عمران خان نے نیوٹرلز کی اصطلاح کو جس جس چیز سے جوڑا وہ قابل افسوس ہے۔ اگر عمران خان کا بیانیہ بکتا ہے اور لوگوں کی ایک بڑی تعداد ان کے ساتھ ہے تو کیا اس کے بل پر وہ ملک کے آئینی اداروں کو اس وجہ سے کچل دیں گے کہ وہ ان کی مرضی سے نہیں چلتے؟
عمران خان اب شہباز گل کیس کا سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کررہے ہیں‘ جو ان کا حق ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب پی ٹی آئی نے شہباز گل کی گرفتاری کے بعد ان کے بیان سے سب کی توجہ ہٹانے کیلئے ان پر بدترین تشدد ہونے کے الزامات لگائے تو سب سے پہلے اس کی نفی ان کے صوبائی وزیر داخلہ ہاشم ڈوگر نے کی۔ ڈوگر صاحب نے کہا کہ شہباز گل پر کوئی ٹارچر نہیں ہوا‘ لیکن وہی صاحب دو دن بعد خود ٹارچر کا شور مچانے لگے کیونکہ پھر انہیں پارٹی کی لائن دے دی گئی۔ صرف یہی نہیں اسلام آباد کے سب سے بڑے سرکاری ہسپتال پمز جس کا سربراہ عمران خان صاحب نے خود لگایا تھا‘ اس ادارے کے چار شعبہ جات کے سربراہوں نے میڈیکل رپورٹ جاری کی جس میں واضح تھا کہ شہباز گل پر کوئی تشدد نہیں ہوا لیکن جس طرح شہباز گل لمبے لمبے سانس بھرتے اور روتے دھوتے عدالت تشریف لائے تو اس پر پی ٹی آئی نے پراپیگنڈے کو مزید آگے بڑھایا۔ یہاں تک کہ عمران خان صاحب نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ شہباز گل کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ بظاہر لگتا ہے کہ عمران خان اپنے چیف آف سٹاف کے سیاسی کیریئر کا خاتمہ چاہتے ہیں کیونکہ ہمارے معاشرے میں جس پر اس قسم کے تشدد کا ٹھپہ لگ جائے اس کے حوالے سے مخصوص سوچ بنالی جاتی ہے۔ دوسری جانب سابق وزیراعظم کے ناقدین کے مطابق شہباز گل عمران خان کے سائے کی طرح ان کے ساتھ رہتے ہیں اور ان کے کئی رازوں کے امین بھی ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ عمران خان اس پراپیگنڈا کو خود اس حد تک لے جانے کی کوشش کررہے ہوں تاکہ شہباز گل ان کے کوئی راز نہ کھول دیں۔ اسی لیے وہ حکومت اور اداروں پر شہباز گل کی رہائی کیلئے دباؤ بڑھانے کیلئے اس طرح کے بے بنیاد الزامات لگا رہے ہیں۔ عدالت نے جب اسلام آباد پولیس کو دوسری مرتبہ شہباز گل کا جسمانی ریمانڈ دیا تو عمران خان نے پوری کوشش کی کہ شہباز گل کو ان کے حوالے نہ کیا جائے بلکہ ان کی خرابی طبیعت کا بہانہ بنا کر راولپنڈی کے کسی ہسپتال میں داخل کروا دیا جائے‘ یعنی عدالتی حکم کو اڑانے کی حتیٰ الامکان کوشش کی۔ اس وجہ سے اڈیالہ جیل میں اس وقت بہت ڈرامہ ہوا جب پنجاب اور اسلام آباد پولیس آمنے سامنے آگئی آخر کار وفاق نے رینجرز اور ایف سی کو اڈیالہ جیل بھیجنے کا فیصلہ کیا تب کہیں جاکر پنجاب حکومت نے پنجاب پولیس کو پیچھے ہٹنے کا حکم دیا۔
اب سوال اٹھتا ہے کہ کیا سیاسی طور پر اس گرفتاری کا پی ٹی آئی کو فائدہ اور حکومت اور ریاست کو نقصان ہوگا تو بالکل ایسا ممکن ہے۔ عمران خان آئندہ ماہ نو حلقوں سے الیکشن لڑنے جارہے ہیں‘ وہ اس کیلئے 17 جلسوں سے خطاب کریں گے‘ ان کو تو ایک اور بیانیہ مل گیا جسے وہ عوام کو بیچیں گے اور ان کے پرستار اور مداح اس کو دھڑا دھڑ خریدیں گے‘ لیکن ملکی مفاد میں ایسا سیاسی نقصان کوئی وقعت نہیں رکھتا۔ عمران خان اور پی ٹی آئی کو اداروں کی جانب سے واضح پیغام مل گیا ہے کہ وہ اپنی مرضی اور ذاتی مفاد کی سیاست کو پس پشت رکھیں تو بہتر ہے ورنہ ان کے ساتھ جو رویہ رکھا گیا اب اس کے برعکس بھی ہو سکتا ہے۔ اسی طرح ففتھ جنریشن وار کے جنگجوؤں کو بھی صاف جواب مل گیا کہ بس بہت ہوگیا‘ اپنی لگامیں قابو میں رکھیں اور سیاسی وابستگیوں کو قومی مفاد پر ترجیح دینے کی روش ترک کردیں ورنہ قانون کا سامنا کرنے کیلئے تیار رہیں۔