ملک میں سیلاب ہو ‘ کوئی اورقدرتی آفت ہو یا پھر معمول کے دنوں میں راوی سب کے لیے چین ہی کیوں نہ لکھ رہا ہو ‘ پاکستانی سیاست میں ہر وقت کو ئی نہ کوئی کھچڑی پک رہی ہوتی ہے۔ کوئی نہ کوئی نئی منصوبہ بندی یا مخالفین کو زک پہنچانے کی تیاری جاری رہتی ہے۔ گزشتہ سال نومبر سے عمران خان کی حکومت کو رخصت کرنے کی تیاریاں شروع ہوئیں ‘ فروری میں پی ڈی ایم کی جانب سے اس کا باقاعدہ اعلان ہوا اور پھر مارچ میں تحریک عدم اعتماد پیش کر دی گئی ۔ اپریل میں خان صاحب کا تختہ الٹا گیا‘ پھر عثمان بزدار کی باری آئی اورحمزہ شہباز بطور وزیراعلیٰ منتخب ہوئے‘ پھر ان کی رخصتی ہوئی اور اب پنجاب میں پرویز الٰہی بطور وزیراعلیٰ براجمان ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ پنجاب کے عوام کو آخر کار کچھ اطمینان نصیب ہوگا کیونکہ اقتدار کی میوزیکل چیئر میں سب سے زیادہ نقصان انہی کا ہورہا تھا۔ لیکن اب پھر خبریں گردش میں ہیں کہ پنجاب میں حکومت کی تبدیلی کی کوششیں شروع ہوچکی ہیں اور اس حوالے سے سابق صدر آصف علی زرداری متحرک ہوچکے ہیں۔ انہوں نے پی ڈی ایم قائدین نوازشریف اور مولانا فضل الرحمان سے رابطے کئے ہیں جبکہ اطلاعات ہیں کہ زرداری صاحب وزیراعظم کی لندن روانگی سے قبل ان سے اہم مشاورت کریں گے بظاہر جس کا مقصد بڑے میاں صاحب کو اہم پیغام پہنچانا ہوگا۔
پاکستانی سیاست کی ایک بڑی حقیقت یہ ہے کہ پنجاب کا حکمران ‘ دراصل ملک کا حکمران تصور ہوتا ہے کیونکہ وہ 60 فیصد آبادی پرحکومت کے علاوہ‘ بیشتر ملکی وسائل پر بھی کنٹرول رکھتاہے ‘ جبکہ تختِ لاہور پر بیٹھنے والا اسلام آباد کی پالیسیوں پر بھی اثر انداز ہونے کی طاقت رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب سے پنجاب مسلم لیگ (ن) کے ہاتھ سے نکلا ہے‘ پی ڈی ایم کی حکومت خود کو بے دست و پا محسوس کررہی ہے۔ اس کو احساس ہے کہ پنجاب مخالفین کے پاس ہونے کا مطلب ہے کہ اگلے انتخابات میں عمران خان بھاری اکثریت کے ساتھ اقتدار کے ایوانوں میں لوٹ سکتے ہیں اور پی ڈی ایم جو اپنے بیانیے کے مطابق ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے اور عمران خان صاحب کی بچھائی معاشی بارودی سرنگیں صاف کرتے کرتے ‘نہایت غیر مقبول ہوچکی ہے ‘ اس کا پتا صوبہ سندھ کے علاوہ باقی ہر جگہ سے صاف ہوسکتا ہے۔ لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ 13 جماعتوں پر مشتمل پی ڈی ایم اتحاد آخر پنجاب سے (ق) لیگ اور پی ٹی آئی کی حکومت کا پتا کیسے صاف کرے گا ؟آخر ان کے پاس راستے ہیں کیا؟
پی ڈی ایم اتحاد خاص طور پر آصف علی زرداری کو سب سے بڑا شکوہ یہ ہے کہ انہوں نے چوہدری پرویزالٰہی کو سب سے پہلے وزیراعلیٰ پنجاب کے لیے نامزد کروایا تھا اور اس سلسلے میں انہیں میاں نواز شریف کومنانے میں کافی وقت صرف کرنا پڑا تھا‘ لیکن حب وقت آیا تو چوہدری پرویز الٰہی نے پی ڈی ایم کے ساتھ دعائے خیر کی اور بنی گالہ کی چوکی بھرنے نکل گئے۔ راتوں رات اپنی رواداری ‘ چوہدری شجاعت کے لیے احترام اور وعدے کا پاس رکھنے کی روایات کو الوداع کہتے ہوئے عمران خان کے پہلو میں جا بیٹھے۔ یہی وجہ ہے کہ جب عدالتی حکم پر وزیراعلیٰ پنجاب کے لیے ری الیکشن ہوا تب زرداری صاحب نے چوہدری شجاعت کو ساتھ ملا کر پرویز الٰہی کو ایک بڑا جھٹکا دیا ۔ خبریں گرم ہیں کہ آصف زرداری نے پھر لاہور میں ڈیرے ڈال کر یہ مشن مکمل کرنے کی ٹھانی ہے کہ( ن) لیگ کو پنجاب میں واپس لایا جائے تاکہ عمران خان کی سیاسی طاقت کو نکیل ڈالی جاسکے جو اس وقت کلین سویپ کرنے کے دعوے کر رہے ہیں۔ اس تبدیلی کے لیے ایک طریقہ تو یہ بیان کیا جارہا ہے کہ چوہدری شجاعت بطور پارٹی صدر اپنے دس ارکان کی وفاداری واپس لے کر پنجاب حکومت کا دھڑن تختہ کردیں۔ اس کی یہ توجیہہ پیش جاتی ہے کہ ایک تو( ق) لیگ کے اراکین وزراتوں کے حوالے سے نظر انداز ہونے پر نالاں ہیں اور دوسرا یہ بطور پارٹی سربراہ ان اراکین پر نااہلی کے حوالے سے دباؤ ڈال سکتے ہیں اور یو ں وہ چوہدری پرویز الٰہی اور مونس الٰہی سے بدلہ لے سکتے ہیں۔
اسی طرح یہ بھی اطلاعات پھیلائی جارہی ہیں کہ پی ڈی ایم کئی پی ٹی آئی اراکین کو اپنی جانب کھینچنے کی کوشش کررہی ہے تاکہ جب پنجاب حکومت پر حتمی وار کرنا ہو تو گورنر پنجاب‘ جن کا تعلق (ن) لیگ سے ہے‘ وزیراعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہیں اور پی ٹی آئی اراکین غیر حاضر ہوجائیں اور یوں وہ 186 ارکان کا سنہری ہندسہ پورا نہ ہونے پر عہدے سے فارغ ہوجائیں گے۔ اگر یہ نہیں تو پرویزالٰہی کو عمران خان سے دور کیا جائے کیونکہ مقتدرہ کے حوالے سے دونوں کی سوچ میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔جن اداروں کا پرویز الٰہی دم بھرتے نہیں تھکتے وہ عمران خان کی تنقید کی زد میں رہے ہیں۔ اس حوالے سے دونوں میں ایک اختلاف سامنے آیا جب شوکت ترین کے حکم دینے کے باوجود پنجاب کے وزیرخزانہ نے وفاقی حکومت کو آئی ایم ایف کے حوالے سے خط لکھنے سے گریز کیا کیونکہ ان کا خیال تھا کہ اس سے ریاست پاکستان کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ شاید یہی وہ حالات و واقعات ہیں جن کی وجہ سے عمران خان کو ایک جلسے میں کہنا پڑا کہ پنجاب میں میری حکومت ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور پھر مونس الٰہی کو اپنی صفائی میں یہ کہنا پڑا کہ ہمارے پاس نمبرز پورے ہیں اور ہماری حکومت کو یوں آسانی سے نہیں گرایا جاسکتا۔
اگر اس تمام صورتحال پر مجموعی نظر ڈالی جائے تو یہ واضح ہوجائے گا کہ بظاہر پنجاب (ق) لیگ اور پی ٹی آئی کے اشتراک سے ہی چلتا رہے گا۔ اس کی ایک بڑی وجہ تو مونس الٰہی ہیں جو عمران خان کی قیادت میں اپنا سیاسی مستقبل دیکھ رہے ہیں اور انہی کے مجبور کرنے پر چوہدری پرویز الٰہی نے اپنی خاندانی روایات سے انحراف کرتے ہوئے عمران خان کو اپنا لیڈر مان لیا اور یہاں تک کہہ دیا کہ گجرات اب عمران خان کا ہے۔ اس لئے یہ بات تو تصور سے باہر ہے کہ وہ اس وقت پنجاب سمیت ملک بھر میں مقبول ترین پی ٹی آئی کو چھوڑ کر(ن) لیگ سے اتحاد کی کوشش کریں‘ جو اِن کے لیے قابل بھروسا نہیں۔ اگر پنجاب میں کوئی بڑی تبدیلی آنی ہے تو ظاہر ہے وہ مقتدر حلقوں کی مرضی سے آئے گی اور چوہدری پرویز الٰہی ان حلقوں میں کسی طور بھی (ن) لیگ اور پیپلزپارٹی سے کم مقبول نہیں۔ اس وقت اگلے انتخابات کے حوالے سے لیول پلیئنگ فیلڈ مہیا کرنے کی بات ضرور چل رہی ہے جس کے تحت نواز شریف وطن واپس آئیں گے اور پنجاب (ن) لیگ کے پاس ہوگا ‘ لیکن ابھی تک اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ پنجاب ایک بار پھر( ن) لیگ کے پاس ہوگا کیونکہ اس کے لیے جس درجے کی تبدیلیوں کی ضرورت ہے وہ اس سیلاب اور معاشی بدحالی کے موجودہ دور میں خاصی مشکل نظر آتی ہیں۔