"IYC" (space) message & send to 7575

سیاسی سائبر وار

ملکی سیاست میں اس وقت سائبر وار لڑی جارہی ہے۔ ہم میں سے کسی نے شاید کبھی ایسا سوچا تو نہیں تھا لیکن اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ سیاسی مخالفین کے خلاف کس کس طرح سے ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جاتاہے۔ گزشتہ ہفتے‘ یکے بعد دیگرے وزیراعظم ہاؤس اور حکومتی زعما کی آڈیوز لیک ہوئیں جن کے مواد میں وہ تمام اجزا شامل تھے جو اتحادی حکومت کو نقصان اور پی ٹی آئی کو فائدہ پہنچاسکتے تھے۔ ڈارک ویب سے آڈیو لیکس کی اگلی قسط پی ٹی آئی کے خلاف تھی‘ عمران خان کی جو آڈیو ریلیز ہوئیں‘ انہوں نے پی ٹی آئی کے امریکی مداخلت ‘ سازش اور رجیم چینج کے بیانیے کے غبارے سے ہوا نکال دی۔ عمران خان کے بیانیے پر دو روز میں دو کاری ضربوں نے انہیں سخت سیاسی جھٹکے دیے ہیں۔ اس وقت ان کی مقبولیت اور عوام میں بے پناہ تقلید کی وجہ ہی امریکی سازشی بیانیہ اور چوروں ڈاکوؤں سے نمٹنے کا بیانیہ ہے لیکن آڈیو لیک نے یہ قلعی کھول دی کہ عمران خان نے اپنا اقتدار بچانے اور سیاست چمکانے کے لیے ذاتی سیاسی مفاد کو قومی مفاد پر فوقیت دی اور ملک کے خارجہ تعلقات اور مفادات کو پس پشت ڈال دیا۔ دوسری جانب اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے مریم نواز اور نیب کورٹ کی جانب سے اسحاق ڈار کو ملنے والے ریلیف نے سابق وزیر اعظم کے چور‘ ڈاکو کے بیانیے کو شدید ٹھیس پہنچائی۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ وقت بہت ہی ظالم شے ہے ‘ حقائق کو کتنا بھی چھپا لو وقت کا دھارا انہیں سامنے لے ہی آتا ہے۔ اب یہ واضح ہوچکا ہے کہ امریکی خط یا سائفر کے گرد جو کہانی بُنی گئی وہ دراصل امریکی سازش نہیں بلکہ خان صاحب کی اپنی ''تخلیق‘‘ تھی‘ جو انہوں نے اپنا سیاسی بیانیہ ترتیب دینے کے لیے کی تھی۔ کپتان کو داد تو دینا پڑے گی کہ انہوں نے اس معمول کے مراسلے کی بنیاد پر ایک کہانی بُنی اور بیچی اور اس نے ان کے حامیوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ بھی کیا ۔ عوام کو یقین ہوگیا کہ عمران خان کے خلاف عالمی سازش ہوئی ‘ وہ آئینی و قانونی طریقے سے آئی تحریک عدم اعتماد کی وجہ سے نہیں بلکہ بیرونی امداد اور خرید و فروخت کے ذریعے ہٹائے گئے ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عمران خان جو اپنی طرزِ حکمرانی اور معیشت کی مس ہینڈلنگ کی وجہ سے اقتدار کے آخری مہینوں میں عوام میں خاصے غیر مقبول تھے‘ انہوں نے دوبارہ سیاسی عروج دیکھا جو قومی سیاست کی تاریخ میں ایک حیرت انگیز واقعہ ہے۔
پہلی آڈیو لیک کے بعد عمران خان کا اعتماد قابلِ دید تھا اور وہ اس بات پر خوش بھی نظر آئے کہ وہ سائفر پر اچھا کھیل گئے ۔ اگر دوسری آڈیو لیک کی بات کریں تو وہ دوسری آڈیو میں یہ کہتے سنائی دیے کہ ہم اپنی مرضی کے منٹس بنائیں گے‘ جس پر ان کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان نے کہا کہ ان منٹس پر تجزیہ کرنا ہمارے ہاتھ میں ہوگا۔ ایک جگہ اسد عمر نے عمران خان کو ٹوکا بھی کہ آپ میٹنگ منٹس کو لیٹر کہہ رہے ہیں جس پر عمران خان نے انہیں ٹوکا کہ عوام کو لیٹر کی بات سمجھ آئے گی ‘ میٹنگ منٹس کی نہیں۔ یعنی اسد عمر بھی شاید سمجھ گئے تھے کہ عمران خان ملکی مفاد کے اوپر ذاتی سیاست چمکا رہے ہیں ‘ لیکن مجھے حیرت اس بات پر ہوئی کہ آخر وزیر خارجہ کے طور پر شاہ محمود قریشی کیوں چپ رہے ؟ انہوں نے کیوں اپنے لیڈر کو نہیں سمجھایا کہ اس کھیل میں وہ ملک کی خارجہ پالیسی سے کھیل رہے ہیں۔ ایسے سائفر آنا معمول کی بات ہے لیکن انہوں نے بھی اس روٹین کے سائفر کو امریکی دھمکی بنا کر پیش کرنے پر کوئی احتجاج نہیں کیا۔
کپتان کے مخالفین یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ اس عمل سے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات سبوتاژ کرنے کی کوشش کی گئی ‘ جس کا حتمی نقصان ہمیں معاشی میدان میں بھی اٹھانا پڑا۔ یاد رہے کہ خارجہ محاذ پر بارودی سرنگیں بچھانے کے بعد عمران خان نے آئی ایم ایف کے ساتھ ہوئے معاہدے کو بھی ڈی ریل کرنے کی کوشش کی۔اقتدار کے آخری دنوں میں پٹرول اور بجلی کی قیمتیں منجمد کردیں جس سے ملک کے بجٹ خسارے میں اضافہ ہوا اور نتیجتاً ملک ڈیفالٹ کے دہانے پر جا پہنچا۔ اس سے نہ صرف پی ڈی ایم حکومت کو سخت معاشی مسائل کا سامنا کرنا پڑا بلکہ عوام کو بھی شدید مہنگائی سے پریشانی اٹھانا پڑی۔ اگر یہ سب کچھ کرنا کافی نہیں تھا تو پھر عمران خان کے معتمد ساتھی شوکت ترین نے آئی ایم ایف معاہدے سے ایک روز قبل پنجاب اور خیبر پختونخوا کے وزرائے خزانہ کے ذریعے اس معاہدے کو بھی نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔ عمران خان کے اس طرزِ سیاست نے ان کے فالورز کو سیاسی مخالفین کے خلاف اشتعال دلایا بلکہ بات یہاں تک پہنچ گئی کہ جس نے عمران خان کو ناراض کیا کپتان نے اس عوامی اشتعال کا رخ اس کی جانب موڑ دیا اور اداروں کو متنازع بنانے کی کوشش کے ساتھ ساتھ یہ باور کروایا کہ اگر ہمارا ساتھ نہیں دیں گے تو ہم اپنی بیان بازی کریں گے۔ اگر کسی نے غیر جانبدار رہنے کا فیصلہ کیا تو اسے ہدف تنقید بنایا جائے گا۔ ا س پالیسی کا عمران خان کو کوئی سیاسی فائدہ ہوا یا نہیں‘ اس سے قطع نظر قوم اور ریاست کو اس کاجو خمیازہ بھگتنا پڑا وہ نہایت تشویشناک ہے۔
اب عمران خان کی اس پاپولسٹ سیاست کا بندوبست کرنا ضروری ہوگیا ہے کیونکہ پاپولزم کی بنیاد عموماً جھوٹ اور خودساختہ دلائل پر مبنی ہوتی ہے جو مسائل اور سٹیٹس کو کے شکار معاشرے کو تازہ ہوا کے جھونکے کی طرح لگتی ہے ۔ وہ اس سے بہت متاثر ہوتے ہیں‘ لیکن اس کا انجام ہٹلر‘ مسولینی ‘ ٹرمپ اور مودی جیسے حکمرانوں کی مانند ہوتا ہے‘ یعنی جن کے باعث ملک و قوم برباد ہوجاتے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ اس پاپولسٹ بیانیے سے جان چھڑائی جائے۔ سائفر کے حوالے سے انہوں نے جو بیانیہ بنایا اور پھر اس پر آڈیو لیکس آئیں اس تناظر میں جوڈیشل تحقیقات کروائی جانی چاہئیں تاکہ یہ ثابت ہوسکے کہ آیا سائفرواقعی دھمکی آمیز تھا ‘کوئی سازش اور مداخلت تھی جس کا مقصد پاکستان میں رجیم چینج کرکے اپنی کٹھ پتلیاں مسلط کرنا تھا یا پھر یہ ایک روٹین کی ملاقات کا احوال تھا جس میں سفارتکار کھل کر سیاسی معاملات پر بات کررہے تھے؟ عمران خان پہلے ہی پارلیمنٹ واپسی کی شرط کے طور پر سائفر کی تحقیقات کا مطالبہ کرچکے ہیں۔ اگر حکومت اس پر راضی ہوتی ہے تو دونوں فریقوں کے لیے بہتر صورتحال نکل سکتی ہے۔ اس سے ایک طرف تو خان صاحب کے سازش کے بیانیے کا انجام ہوسکتا ہے اور دوسری جانب پی ٹی آئی کے لیے پارلیمنٹ میں واپسی کا دروازہ بھی کھل سکتا ہے۔ گوکہ عمران خان نے ایک ہفتے میں لانگ مارچ کی تاریخ دینے کا اعلان بھی کردیا ہے جس نے اس تمام سیاسی کھیل کو مزید دلچسپ بنادیا ہے۔ فی الحال اگلے ایک ہفتے میں کیا ہونے جارہا ہے اس کے بارے کوئی دعویٰ کرنا بہت مشکل ہے کیونکہ سیاست اور خاص طور پر پاکستانی سیاست میں ایک ہفتے کا وقت بہت زیادہ ہوتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں