سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کی اس دلیل میں بہت وزن ہے کہ یہ ملک صرف اس ایک فیصد طبقۂ اشرافیہ کیلئے ہے جو پاکستان کو چلاتے ہیں۔ اگر ہم غور کریں تو ہمارا نظام اس ایک فیصد کو نوازنے میں پیش پیش ہے لیکن باقی آبادی کیسے معاشی و معاشرتی طور پر ترقی کرے گی؟ ہمارے نظام کے پاس اس کا کوئی جواب موجود نہیں۔ پاکستان کے سیاسی منظرنامے کا جائزہ لیں تو وہاں اس وقت سائفر‘ آڈیو لیکس‘ این آر او‘ کرپشن‘ نااہلی‘ الزامات در الزامات جیسے موضوعات زیرِ بحث ہیں۔ وہاں بات ہورہی ہے کہ کیسے اقتدار میں آیا جائے؟ کیسے دوسروں کو اقتدار سے نکالا جائے؟ کیسے پوائنٹ سکورِنگ کی جائے؟ وغیرہ وغیرہ لیکن اس سب بحث مباحثے میں عوام کہاں ہیں؟ کیا کسی فورم پر یہ بھی بات ہورہی ہے کہ سیلاب سے متاثرہ ساڑھے تین کروڑ افراد کا کیا بنے گا؟ سندھ میں اب بھی لاکھوں افراد بغیر چھت کے سڑکوں پر بیٹھنے پر کیوں مجبور ہیں؟ کون کون سی جان لیوا بیماریاں آفت زدہ لوگوں پر ٹوٹ پڑی ہیں؟ سچ پوچھیں تو یہ افسوس کا مقام ہے کہ ہمیں اپنی حکومت کے بجائے اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ بتا رہی ہے کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں آلودہ پانی کے سبب بچوں کی اموات میں اضافہ ہونے کا خدشہ ہے‘ اور یہ کہ سیلاب سے 17 سو ہسپتال اور دیہی مراکزِ صحت تباہ ہو چکے ہیں‘ جس سے لوگ صحت کی بنیادی ضروریات سے محروم ہو چکے ہیں۔ آخر یہ حقائق ہمارے سیاسی بیانیے یا نیوز سائیکل کا حصہ کیوں نہیں بنتے؟ کیوں ہمارے یہاں ہونے والے بکثرت جلسوں اور پریس کانفرنسز کا موضوع طبقۂ اشرافیہ یعنی سیاستدانوں اور حکمرانوں کی اپنی ذات کے گرد گھومتا ہے؟ ایک عام پاکستانی کے گرد نہیں؟
حال ہی میں اقوام متحدہ نے فیصلہ کیا ہے کہ پاکستان کیلئے فلڈ رِسپانس پلان کے تحت امداد کی جو عالمی اپیل کی جائے گی‘ اس کی رقم بڑھا کر 816 ملین ڈالر کردی جائے کیونکہ سیلاب زدہ علاقوں میں اس وقت وبائی امراض کے سبب موت کا کھیل شروع ہو چکا ہے۔ وہاں ملیریا‘ ڈینگی‘ جلد کی بیماریاں اور خوراک کی کمی جیسے سنگین مسائل لوگوں کی زندگیاں نگل رہے ہیں۔ کیا ان باتوں کا چرچہ ہمارے اردگرد یا ذاتی زندگیوں میں ہورہا ہے؟ یہاں فائیو سٹار ہوٹلز بھی بھرے ہوئے ہیں‘ ریستورانوں پر بھی رش ہے‘ سڑکوں اور بازاروں میں معمول کی زندگی رواں ہے۔ نہ ہمیں ان لوگوں کی پروا ہے اور نہ ہی ہمارے حکمرانوں کو۔ کسی بھی معاشرے میں یہ حکمران طبقہ ہی ہوتا ہے جو ایسے موضوعات کو عوام میں اجاگر کرتا ہے‘ اس کو ہر معاملے پر فوقیت دیتا ہے لیکن ہمارے یہاں انسانی المیوں کو خدا کی مرضی قرار دے کر ان پر مٹی ڈال دی جاتی ہے۔ آڈیو لیکس ہوں یا سائفر کا معاملہ‘ بے شک ان پر بات کریں لیکن جب ہمیں پتا چلتا ہے کہ سیلاب کے بعد خوراک کی کمی کا شکار ہونے والے افراد کی تعداد لاکھوں میں پہنچ چکی ہے تو پھر ہم لوگ اپنا پیٹ کاٹ کر ان لوگوں کیلئے کیوںکچھ نہیں کررہے؟ کیوں کروڑوں روپے سرکاری گاڑیوں کے ٹائر خریدنے میں لگائے جارہے ہیں؟ کیا یہ رقم بھوک میں مبتلا افراد کو منتقل نہیں کی جا سکتی؟ کیا نظام یہی کہتا ہے کہ جس کام کے لیے بجٹ منظور ہو اسی پر لگے‘ غریب عوام پر نہ لگے چاہے کسی کی سانس کی ڈور دوا یا روٹی کی عدم فراہمی سے ٹوٹ جائے۔ ہمارے یہاں بنیادی مسئلہ یہی ہے کہ ہم نے کبھی عام شہریوں پر سرمایہ کاری ہی نہیں کی۔ حالات‘ جغرافیہ اور تاریخ کے جبر نے قیام پاکستان کے فوراً بعد ہی ہمیں سکیورٹی سٹیٹ بنا دیا۔ بے شک ہماری سلامتی کے چیلنجز بہت بڑے تھے اور ہیں اور ان کو فوقیت دینا لازمی ہے لیکن کوئی یہ تو بتائے کہ جب 1992ء اور 2010ء کے سیلاب نے ملک میں تباہی و بربادی مچائی تو وہ کون سی سکیورٹی پالیسی تھی جس نے حکومت کو عام شہریوں کی مدد کے لیے اقدامات کرنے سے روکا؟ کیوں ہم نے ان قدرتی آفات کے نتائج کو نظر انداز کیا؟ جس کا جواب موجودہ سیلاب اور اس کی تباہی کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔
ہمارے طبقۂ اشرافیہ کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کوئی بھی ملک عوام سے ہوتا ہے اور عوام کیلئے ہوتا ہے اور جب شہری اپنے حالات سے‘ اپنے مستقبل سے ہی مطمئن نہیں ہوں گے تو وہ ملک کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کو کیسے مضبوط کریں گے؟ بے شک اس سال جو سیلاب آئے‘ جو تباہی مچی اس میں ہمارا اتنا قصور نہیں تھا جتنا عالمی معاشی طاقتوں کا ہے لیکن افسوس یہ ہے کہ اس آفت کو روکنے کے لیے جو ہم کرسکتے تھے ہم نے وہ بھی نہیں کیا۔ حکومتی و انتظامی کوتاہی سے پانی کے قدرتی راستے میں تعمیر ہونے والی عمارات سے جو رکاوٹیں پڑیں اس نے جانی و مالی نقصان دو چند کردیا۔ بند اور پشتے بنادیے جاتے ہیں لیکن کبھی وہ ناقص ہوتے ہیں تو کبھی انہیں جاگیرداروں اور وڈیروں کی زمینوں اور فصلوں کو بچانے کے لیے توڑ کر غریبوں کو ڈبو دیا جاتا ہے۔ یہاں ایسے ادارے تو بنا دیے جاتے ہیں جن کا کام ہی سیلاب یا دوسرے قدرتی آفات سے بچاؤ اور پھر ریسکیو اور ریلیف کا کام کرنا ہوتا ہے‘ لیکن ان اداروں کی کارکردگی سیلاب کے دوران کیسی رہی وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ آخر ان تمام امور پر نظر رکھنا کس کی ذمہ داری ہے؟ اگر حکومت اور متعلقہ ادارے اپنی ذمہ داریاں ایمانداری سے انجام دیتے تو ہم کتنی ہی تباہی سے خود کو بچا سکتے تھے۔ ہم نے عادت بنا لی ہے کہ سیلاب آنے دو‘ لوگوں کو ڈوبنے دو اور پھر دوسرے ممالک سے مدد کی اپیل کردو۔ ہماری اس عادت کا خمیازہ بھی بیچارے عام شہریوں کو بھگتنا پڑا کیونکہ اس دفعہ عالمی رسپانس نہایت ٹھنڈا رہا۔ اس کی ایک بنیادی وجہ تو روس یوکرین تنازع ہے‘ جس میں دنیا یوکرین کو معاشی مدد فراہم کررہی ہے اور ساتھ ساتھ کساد بازاری کا شکار ہے۔ لیکن دوسری وجہ یہ ہے کہ دنیا سمجھتی ہے کہ ہم نے عالمی امداد پر ہی مستقل انحصار کر رکھا ہے‘ ہم اپنا رویہ درست نہیں کرتے‘ اپنے اندرونی مسائل حل کرنے کے لیے خود سے کچھ نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان جسے 2010ء میں سیلاب کے بعد یا اس سے قبل 2005ء کے زلزلے کے بعد جس سطح کی عالمی مدد ملی تھی‘ اس دفعہ اس کا عشرِ عشیر بھی نہیں ملا۔
اس تباہی کے بعد ہمیں یہ سبق سیکھنے کی ضرورت ہے کہ اب ہمیں اپنے پیروں پر کھڑا ہونا اور اپنے زورِ بازو پر بھروسا کرنا ہے۔ دوسرا یہ ہے کہ ہمیں ایسا معاشی ماڈل بنانے کی ضرورت ہے جو ایلیٹ کلاس کے بجائے غریب عوام کی ضروریات بھی پوری کر سکے‘ جس سے ان کیلئے آمدنی کے ذرائع پیدا ہو سکیں اور وہ اپنا معیارِ زندگی بہتر بنا سکیں۔ ظاہر ہے حکومت نہ ہر ایک کو گھر مہیا کر سکتی ہے اور نہ ہی ملازمت لیکن کم از کم حکومت غریب عوام کوروزی کمانے کے مناسب مواقع تو مہیا کر سکتی ہے جن کے ذریعے ان کی زندگی میں بہتری آسکے۔ وہ اپنے سر پر مضبوط چھت ڈال سکیں‘ اپنے لیے مطلوبہ اناج کا انتظام کر سکیں۔ کم از کم وہ اس سطح کے گھر بنا سکیں جو سیلاب اور دیگر قدرتی آفات کا مقابلہ کر سکیں لیکن جب ہم نے انسانوں پر انویسٹ ہی نہیں کرنا‘ انہیں غریب سے غریب تر ہی رکھنا ہے‘ اپنی معاشی پالیسیاں آئی ایم ایف کے بیل آؤٹ پیکیج اور عالمی امداد کے سر پر چلانی ہیں تو پھر نہ ہم کبھی اپنے بنیادی مسائل حل کر سکتے ہیں اور نہ ہی وہ مضبوط اور مستحکم پاکستان بنا سکتے ہیں جس کے ہم دعوے کرتے اور خواب دیکھتے رہتے ہیں۔