ہمارے ہاں پراپیگنڈے اور جھوٹ کا طوفان اتنی شدو مد سے اٹھایا جاتا ہے کہ اس میں سچ کا پتا چلانا تقریباً ناممکن ہوجاتا ہے۔ خاص طور پر ایک سیاسی پارٹی جس نے شروع سے سوشل میڈیا پر غلبہ قائم رکھا‘ نے سیاست میں بیانیے کے نام پر پراپیگنڈا کا ایسا عمل شروع کیا کہ جس کو دیکھ کر شاید پراپیگنڈے کے بڑے بڑے ماہرین بھی شرما جائیں۔ '' جھوٹ بولو اور بار بار بولو تاکہ جھوٹ سچ لگنے لگے‘‘ جیسے فلسفے پر عمل نے ملکی سیاست کو پراگندہ کیا ہے ‘ یہاں تک کہ ذاتی سیاسی فوائد کیلئے قومی مفاد کو بھی پسِ پشت ڈال دیا گیا لیکن قدرت کا نظام ہے کہ جھوٹ پر سچ کو غلبہ حاصل ہو کر ہی رہتا ہے۔
''ڈیلی میل ‘‘ جو کہ برطانیہ کا ایک شہرت یافتہ جریدہ ہے ‘ اس کو گزشتہ دنوں وزیراعظم شہباز شریف سے مبنی سٹوری چھاپنے پر معذرت شائع کرنا پڑی۔ سنسنی اور مبالغہ انگیزی کیلئے مشہور اس برطانوی جریدے نے کسی اورکیس میں شہباز شریف پریہ الزام لگایا ہوتا تو سمجھ آتی کہ سیاستدانوں پرا لزامات لگتے رہتے ہیں ‘ بعدازاں تحقیقات انہیں غلط یا صحیح ثابت کردیتی ہیں ‘ جیسا کہ برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی نے کچھ ماہ قبل وزیراعظم شہبازشریف اور ان کے بیٹے سلمان شہباز کو منی لانڈرنگ کیس میں بے گناہ قرار دے کر ان کے منجمد اکاؤنٹس بحال کردیے تھے۔لیکن یہ کیس اس لئے مختلف تھا کہ اس میں الزام لگایا گیا تھا کہ شہباز شریف نے برطانوی عوام کی جانب سے 2005ء کے زلزلے کے بعد پاکستان کو دی گئی امداد میں بطور وزیراعلیٰ پنجاب خرد برد کی اور برطانوی ٹیکس دہندگان کے پیسوں سے منی لانڈرنگ کی۔ یہ الزام اس لئے بھی دقیق تھا کہ اس سے ملک کی بدنامی ہوئی تھی کہ یہاں عالمی امداد جو کمزور ‘ مجبور اور لاچار طبقے کی مدد کیلئے دی جاتی ہے اس میں یوں خرد برد ہورہی ہے ‘ جس سے پاکستان پر عالمی اعتماد مجروع ہوا۔ بدقسمتی سے برطانیہ میں وزیراعظم پاکستان پر ہوئے دونوں کیسز کے پیچھے سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کے مشیر احتساب شہزاد اکبر کا نام آتا ہے جنہوں نے سیاسی مخاصمت میں ان کیسز کی تفصیلات برطانیہ میں فیڈ کیں ‘مگر وہاں کا نظام انصاف ‘ہمارے احتساب کے ادارے کی مانند نہیں کہ جس میں سربراہِ ادارہ کا ریموٹ کنٹرول سربراہِ حکومت کے ہاتھ میں ہو ؛چنانچہ انصاف ہوا اور شہباز شریف کو دونوں کیسز میں انہی برطانوی اداروں نے کلین چٹ دی‘ جن کی صداقت اور امانت کے عمران خان صاحب دن رات گن گاتے ہیں۔
برطانوی جریدے کی معذرت کے بعد برطانوی صحافی ڈیوڈ روز اور یہاں پی ٹی آئی کے حلقۂ اثر نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ ڈیلی میل نے صرف نیب میں شہباز شریف کے خلاف خرد برد کا کیس چلنے کے جھوٹے الزام پر معذرت کی ورنہ ان پر اور ان کے داماد پر منی لانڈرنگ کا کیس بدستور موجود ہے۔ لیکن برطانوی ماہرین ِقانون متفق ہیں کہ ڈیلی میل کی سٹوری میں اگر صرف ایک الزام غلط ہوتا تو ادارہ صرف اسی حصے کو حذف کرتا پورا آرٹیکل نہ ہٹادیتا۔ یاد رہے کہ سابق وزیر اعظم نے 2019ء میں خود برطانوی صحافی ڈیوڈ روز کو دعوت دے کر پاکستان بلایااور شہزاد اکبر کے ساتھ ان سے میٹنگ کی جس کے بعد اسی سال جولائی میں برطانوی صحافی نے مذکورہ سٹوری شائع کر دی ‘ جس کے جواب میں شہباز شریف نے 2020ء میں ہتکِ عزت کا دعویٰ دائر کیا۔ عدالت میں جریدے نے دعویٰ کیا کہ ان کے پاس شہباز شریف پر منی لانڈرنگ کے لگائے جانے والے تمام ثبوت ہیں لیکن ڈیلی میل نے اس کیس میں جواب داخل کروانے کیلئے تین سال میں کم و بیش نو مرتبہ تاخیر ی حربے استعمال کئے اور مسلسل توسیع لی۔ برطانوی جریدے نے عدالت میں کہا کہ ہم جواب جمع کروانے میں توسیع لینا چاہتے ہیں کیونکہ پاکستان میں سکیورٹی کی صورتحال اچھی نہیں‘ پھر کووڈ کا بہانہ بنایا گیا حالانکہ شہزاد اکبر صاحب کا ایسٹ ریکوری یونٹ ان کی خدمت میں ہر طرح کی دستاویزات پیش کرنے کیلئے ہر دم تیار تھا لیکن کیونکہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے اس لئے بات آگے نہیں بڑھی۔ جس کے بعد برطانوی جریدے نے کہا کہ وہ شہباز شریف کے خلاف الزامات کا دفاع نہیں کرنا چاہتے ‘ ہم معذرت خواہ ہیں۔ دوسری جانب ڈیوڈ روز اس سے قبل ساشا واس اور پاکستانی ٹیکسی ڈرائیور واجد اقبال پر غلط الزامات لگانے کی وجہ سے جرمانے بھگت چکے ہیں۔ اسی طرح ڈیلی میل سابق امریکی خاتونِ اول میلانیا ٹرمپ ‘گلوکار ایلٹن جان اور ہیری پورٹر کی مصنفہ جے کے رولنگ کے خلاف غلط سٹوریز چھاپنے پر بھی ہرجانہ ادا کرچکا ہے۔
گزشتہ دورِ حکومت میں جس طرح ہر اہم مسئلے کو بالائے طاق رکھ کر مخالفین کو ''فکس‘‘ کرنے پر توجہ مرکوز رکھی گئی اس نے ہمارے سیاسی نظام کو شدید متاثر کیاجبکہ معیشت کو سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے اتنے جھٹکے لگے کہ آج ہم معاشی طور پر زبوں حالی کا شکار ہیں۔سابق حکومت کی ترجیحات کا اندازہ تو اسی سے ہو جاتا ہے کہ وزیر اعظم نے ملک کی اہم ترین خفیہ ایجنسی کے سربراہ سے انٹر ویو میں ملک کے سب سے بڑے مسئلے کے بارے سوال کیا اور اس پر جب انہیں یہ جواب ملا کہ معیشت سب سے بڑا مسئلہ ہے تو وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ نہیں اپوزیشن لیڈر سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ جب بدلے کی آگ میں آپ ایسے منفی اقدامات اٹھائیں گے تو پھر معیشت کے تباہ ہونے پر حیرت کیسی؟ سابق وزیر اعظم کے مشیر احتساب شہزاد اکبر آج کہاں ہیں؟ وہ کیوں لندن جا بیٹھے ہیں؟ اگر ان کے الزامات میں صداقت تھی توکیوں اپنا دفاع نہیں کیا؟ ابھی تو ان سے ایک ٹائیکون کو دیے گئے اربوں روپے کے فائدے کا حساب بھی ہونا ہے جس نے قومی خزانے کو بے بہا نقصان پہنچایا۔ احتساب کے نام پر بنائے گئے کیسز پر سابقہ حکومتوں نے نجانے ملک کا کتنا نقصان کر ڈالا‘ کیا بہتر نہیں تھا کہ مفادِ عامہ کے اقدامات کئے جاتے اورغریبوں کا کچھ بھلا کیا جاتا؟
خان صاحب نے اپنا دورِ حکومت بھی کنٹینر پر گزاردیا‘ یعنی ملک میں سیاسی استحکام نہ آنے دیا اور افراتفری پھیلائے رکھی اور اپوزیشن میں آکر بھی گزشتہ آٹھ ماہ سے یہی فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔ ان کے دور میں معیشت کے حوالے سے جو روش اختیار کی گئی و ہ اب ایک سنگین مسئلہ بن چکی ہے۔ صرف یہی نہیں پی ٹی آئی ملک دیوالیہ ہونے کا شور مچا کر معیشت کو مسلسل نقصان پہنچا رہی ہے جبکہ دوسری جانب یہ بھی کہہ رہی ہے کہ ان کے دور میں اکنامک گروتھ 6 فیصد کو چھو رہی تھی۔
کوئی ملک ڈیفالٹ اُس وقت ہوتا ہے جب وہ اپنی عالمی ادائیگیاں کرنے میں ناکا م رہے۔ پاکستان نے حال ہی میں عالمی سکوک بانڈ کی ایک ارب ڈالر سے زائد کی ادائیگی کردی ہے جبکہ ملک کو ایسی اگلی ادائیگی 2024ء میں جاکر کرنی ہے ‘ اس لئے پاکستان کے ڈیفالٹ ہونے کا خطرہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ جہاں تک تحریک انصاف کی حکومت میں معاشی گروتھ کا سوال ہے تو جب خطے میں باقی ممالک نے کووڈ سے اپنے شہریوں کی جان بچانے کے لیے انڈسٹریز بند کردی تھیں تو پی ٹی آئی حکومت نے معیشت کو ترجیح دی ‘ اس لئے جو ایکسپورٹ آرڈر بھارت اور بنگلہ دیش کو ملتے تھے وہ پاکستان کو ملنے لگے یوں ایکسپورٹس بڑھ گئیں اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم ہوگیا‘ لیکن جیسے ہی خطے کے دیگر ممالک میں انڈسٹری کھلی‘ پاکستان وہیں آن کھڑا ہوا جہاں پہلے تھا۔ اس لئے خدارا پاکستان کو آگے بڑھانا ہے تو سیاسی اتفاقِ رائے قائم کریں اور بے مقصد کشیدگی اور منفی سیاست سے جان چھڑائیں تاکہ آگے بڑھنے کا سفر شروع کیا جاسکے۔