پاکستانی سیاست کا ایک عجیب طرزِ عمل ہے۔ یہاں سیاست عوامی مفاد سے زیادہ مخصوص لیڈروں کی خواہشات کے گرد گھومتی ہے۔ سیاسی جماعتیں کتنا بھی جمہوری ہونے کا دعویٰ کرلیں ‘ آمروں کے خلاف کتنی ہی تحریکیں چلالیں لیکن جب بات اپنے لیڈر کی منشا اور مرضی کی آتی ہے تو کون سی جمہوریت اور کہاں کی جمہوری روایات؟ سب کچھ پس پشت ڈال دیا جاتا ہے۔ لیڈر کو اقتدار چاہیے تو سارے اصول ‘ ضابطے اور دعوے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں ۔اقتدار کیلئے شارٹ کٹس ڈھونڈے جاتے ہیں‘ تب جمہوریت یاد نہیں رہتی۔ جب اپنے مفاد پر ضرب لگے تو سیاسی مخالف سے بھی مک مکا ہوجاتا ہے لیکن جب معاملہ عوامی مسائل اور ملک کا ہو تو اتحاد کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس وقت وطن عزیز کی سیاسی و معاشی صورتحال کا جائزہ لیں تو کیا غریب آدمی اور کیا متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والا شخص‘ سب کے سب مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں۔ معاشی حالات دگرگوں ہیں ‘ دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں ‘ لوگوں کو سمجھ نہیں آرہی کہ مکان کا کرایہ دیں‘ بل دیں‘ آٹاخریدیں یا بچوں کے سکول کی فیس ادا کریں‘ لیکن دوسری جانب سیاسی اشرافیہ کی ادائیں ویسی ہی نرالی ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ جب ان پر مصیبت آئے تو عوام امڈ امڈ کر نکلیں اور پورے ملک کو جام کردیں۔ ان کو گرفتاری سے بچانے کیلئے سر دھڑ کی بازی لگادیں۔ اداروں سے جا ٹکرائیں اور سب کچھ تہہ و بالا ہوجائے۔ لیکن کیا ان لیڈروں نے سوچا کہ جن عوام سے یہ بات بات پر قربانی مانگتے ہیں ‘ ان کیلئے خود انہوں نے کبھی کچھ قربان کیا؟ اس وقت مہنگائی 30 فیصد تک جاپہنچی ہے ‘ فی کلو گندم کی قیمت 160 روپے کو چھو رہی ہے‘ مرغی کی قیمت 500 روپے کلو ہوچکی‘ سبزیاں بازار میں سونے کے بھاؤ مل رہی ہیں‘ لیکن ہمارے ایوانوں اور ڈرائنگ رومز میں بحث ہورہی ہے کہ اسمبلیاں کیسے توڑی جائیں ‘ یا انہیں ٹوٹنے سے بچا کر اقتدار کو کیسے طوالت دی جائے؟
حال یہ ہے کہ وفاقی حکومت ڈالر کی بڑھتی قیمت روکنے میں ناکام ہے تو صوبائی حکومتیں صوبوں میں بڑھتی مہنگائی ‘ ذخیرہ اندوزی اور منافع خوروں کو لگام ڈالنے میں ناکام ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پی ڈی ایم ہو یا پی ٹی آئی ‘ دونوں ہی اپنی اپنی ناکامیوں کا ملبہ ایک دوسرے پر ڈالنے پر مُصر ہیں۔ اسحاق ڈار صاحب کو ہی دیکھ لیجئے‘ جب سے پی ڈی ایم نے حکومت سنبھالی‘اسحاق ڈار بے چین تھے کہ کسی طرح جلا وطنی ختم کرکے وطن واپس پہنچیں ‘ وزارت سنبھالیں اور اپنی کرشمہ سازی سے ڈالر اور مہنگائی کو اس کی اوقات میں لے آئیں۔ انہوں نے لندن میں بیٹھ کر اپنی ہی جماعت کے وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل کی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنائے رکھا اور انہیں آٹھ آٹھ آنسو رلایا حالانکہ جس طرح مفتاح اسماعیل نے پی ٹی آئی کی جانب سے آئی ایم ایف سے سبوتاژ کئے جانے والے معاہدے کو دوبارہ زندہ کیا‘ سخت فیصلے کرکے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچایا اس کے معترف ماہر ین معاشیات کے علاوہ پی ٹی آئی کے کئی رہنما بھی تھے‘ لیکن جب سے اسحاق ڈار آئے نہ آئی ایم ایف پاکستان آنے کو تیار ہوا اور نہ ہی ڈالر قابو میں آیا۔ حال تو یہ ہے کہ ڈالر اس وقت مارکیٹ سے غائب ہے اور اگر قسمت سے ملے بھی تو انٹر بینک اور اوپن بینک ریٹس میں 30 سے 40 روپے کا فرق ہے۔ آخر کار چین ہی کام آیا ‘ جس کے کہنے پر آئی ایم ایف کی سربراہ نے وزیراعظم شہباز شریف کو فون کیا اور اپنا مشن جلد پاکستان بھیجنے پر آمادگی ظاہر کی ورنہ ڈار صاحب نے اس دفعہ لٹیاڈبو دی تھی۔ بہرحال ‘ اسحاق ڈار اس معاشی کشمکش کا الزام پی ٹی آئی کے دور پر دھرتے ہیں ‘ یہ نہیں دیکھتے کہ انہوں نے جس طرح مفتاح اسماعیل کو ناکام بنایا اور پھر آئی ایم ایف کے سامنے بڑھکیں لگائیں ‘ تو اس کے نتائج کے ذمہ دار تو وہ خود ہیں۔
دوسری جانب وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی اپنی ایک ٹویٹ میں وزیراعظم کے لتے لیتے دکھائی دیے‘ جس میں وہ کہہ رہے تھے کہ شہباز شریف ایکسپوز ہوچکے ‘ مہنگائی اپنے عروج پر ہے اور اشیائے خورونوش کی قیمتیں کہاں سے کہاں جاچکی ہیں۔ عمران خان صاحب بھی مہنگائی کی شکایتیں کرتے سنائی دیتے ہیں۔ تو ان حضرات سے بھی عرض ہے کہ گندم کی قیمت ہو یا بازاروں میں مہنگائی کا راج‘ اس کی روک تھام صوبائی حکومتوں کا کام ہے‘ مرکز کا نہیں۔ گندم آپ نے خریدی‘ آپ کا محکمہ خوراک ضرورت کے مطابق گندم‘ فلور ملز کو ریلیز نہیں کررہا تو اس میں وفاقی حکومت کا قصور کیسے ہے؟ اگر پنجاب انتظامیہ اپنے ڈپٹی کمشنروں ‘ اسسٹنٹ کمشنروں اور مارکیٹ کمیٹیوں کے ساتھ بھی مہنگائی کنٹرول نہیں کررہی توکون نااہل ہے؟ کیا آپ لوگ یہ اس لئے تو نہیں کررہے کہ مہنگائی ہو اور آپ پراپیگنڈے کے ذریعے اس کا رخ وفاقی حکمرانوں کی جانب موڑ دیں؟ عمران خان صاحب تو کہتے ہیں کہ ملک کے 66 فیصد حصے پر ان کی حکومت ہے تو پھر مہنگائی کے زیادہ ذمہ دار تو وہ اور ان کی حکومتیں ہوئیں۔ وہ جو اس وقت زمان پارک میں بیٹھے دعوے کررہے ہیں کہ عوام ان کے ساتھ ہیں اور اب وہ ان کو دو تہائی سے زائد اکثریت سے وزیراعظم بنائیں گے تو عمران خان صاحب یہ بھی بتائیں کہ وہ خود عوام کے ساتھ ہیں یا نہیں ؟ وہ اگر اپنے پاس موجود حکومتی مشینری سے مہنگائی نہیں کنٹرول کرپا رہے تو جب وزیراعظم بنیں گے تب کیا تیر مارلیں گے؟ کیا وہ عوام کا سوچ بھی رہے ہیں یا دیگر سیاستدانوں کی طرح پھر عوام ان کیلئے بھی اقتدار تک پہنچے کا محض زینہ ہیں؟
یہ ہر لحاظ سے ایک دلگرفتہ صورتحال ہے۔ حال ہی میں ایف بی آر اور الیکشن کمیشن کے پاس موجود ڈیٹا سے تیار ہونے والی رپورٹ بھی ''عوام الخاص‘‘ اور'' عوام الناس‘‘ میں فرق کی مزید وضاحت کرتی ہے جس سے ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ حکمران اشرافیہ کی ترجیجات ہیں کیا۔ اس رپورٹ کے مطابق عام پاکستانی کی آمدن میں کمی اور ارکانِ اسمبلی کی دولت میں 85 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ پانچ برسوں میں اراکین ِاسمبلی کے اثاثے 49 ارب سے بڑھ کر 91 ارب تک جا پہنچے ہیں۔عمران خان کے اثاثوں میں 250 فیصد ‘ شیخ رشید کے اثاثوں میں 278 فیصد‘ رانا ثنا اللہ کے اثاثوں میں 287 فیصد‘ شاہ محمود قریشی کے اثاثوں میں 241 فیصد‘ چوہدری پرویز الٰہی اور ان کی اہلیہ کے اثاثوں میں 200 فیصد‘ مونس الٰہی کے اثاثوں میں 100 فیصد اضافہ ہوا ‘جبکہ آصف علی زرداری کے اثاثوں میں 55 فیصد اور حمزہ شہباز کے اثاثوں میں 22 فیصد اضافہ ہوا۔ صرف میاں شہباز شریف اور شاہد خاقان عباسی کے اثاثوں میں معمولی کمی ہوئی۔ دوسری جانب عوام کا حال دیکھیں تو اکنامک سروے آف پاکستان کے مطابق پاکستانیوں کی فی کس آمدنی میں گزشتہ تین سال میں 197 ڈالر تک کمی ہوئی ہے۔ ابھی بوجوہ کچھ مخصوص حلقوں کا تقابل یہاں پیش نہیں کیا جاسکتا ورنہ بقول عاصمہ جہانگیر ‘ جس دن ان کی دولت کے قصے سامنے آئیں گے اس دن آپ سیاستدانوں کو بھول جائیں گے۔ قصہ مختصر‘ عوام طبقۂ اشرافیہ کی ترجیح کب اور کیونکر بنیں گے ‘ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب دور دور تک نظر نہیں آتا۔