"IYC" (space) message & send to 7575

اے پی سی اور ملکی سیاست!!

ریاست پاکستان نے ایک بار پھر دہشتگردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔ پچھلی بار جب اس عزم کا اعادہ کیا گیا تو پھولوں کا شہر پشاور سانحہ اے پی ایس سے لہو لہان تھا اور اب دوبارہ ہمارا یہ عظیم شہر سو شہادتیں سہنے کے بعد انصاف مانگ رہا ہے۔ پہلے بھی ریاست جب دہشتگردی کیخلاف یکجا ہوئی تو دو برس کے اندر اندر امن قائم ہو گیا تھا ‘ اب بھی قوی امکان ہے کہ دہشتگردی پر کاری اور حتمی ضرب لگائی جائے گی۔ لیکن 2014ء کے مقابلے میں آج حالات بہت مختلف ہیں ۔ اُس وقت ملک عزیز پاکستان نہ تو سنگین معاشی بحران کا شکار تھا نہ ہی اتنی شدید سیاسی تقسیم تھی۔ گوکہ عمران خان کا دھرنا تب بھی جاری تھا لیکن سیاسی مخالفت آج جس طرح نفرت کا روپ دھار چکی ہے ایسا تب نہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ لمحۂ موجود میں سول قیادت کے مابین جو خوفناک لڑائی جاری ہے اس سے عوام میں بے چینی نظر آتی ہے۔ بے چینی ہو بھی کیوں نہ‘ اس وقت سیاسی ‘ معاشی اور معاشرتی‘ ہر سطح پر تنزلی نظر آرہی ہے ‘ ایسے میں دہشتگردی کے بڑھتے حملے۔ وزیراعظم میاں شہباز شریف کی جانب سے 7 فروری کو بلائی گئی آل پارٹیز کانفرنس سے اندازہ ہوا کہ بطور حکمران وہ ملک کو درپیش چیلنجز کا ادراک رکھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ سیاسی جماعتیں ملک کو درپیش سنگین چیلنجز پر اپنا نقطہ نظر پیش کریں۔ اس کیلئے وزیراعظم نے چیئر مین تحریک انصاف عمران خان کو بھی کانفرنس میں دعوت دی ہے کیونکہ ایک پاپولر لیڈر کی حیثیت سے ضروری ہے کہ وہ کانفرنس میں شرکت کریں ورنہ دوسری صورت میں اس اے پی سی کے فیصلوں کی اہمیت کم ہوجائے گی۔ اسی طرح پشاور میں ہونے والی اپیکس کمیٹی کی میٹنگ میں بھی پی ٹی آئی کے دو نمائندوں کو مدعو کیا گیا ‘ لیکن پاکستان تحریک انصاف نے کسی بھی ایسی میٹنگ میں شرکت سے صاف انکار کردیا۔ پی ٹی آئی پر جب اس حوالے سے عوامی سطح پر تنقید ہوئی تو انہوں نے وضاحت دی کہ وزیراعظم آزاد کشمیر اور وزیراعلیٰ گلگت بلتستان نے پی ٹی آئی کے نمائندوں کے طور پر شرکت کی اور ساتھ ہی یہ واضح کردیا کہ عمران خان 7 فروری کی اے پی سی میں بھی شرکت نہیں کریں گے۔
عرض یہ ہے کہ یہ وقت سیاست کرنے کا نہیں اور خاص طور پر عوام کی لاشوں اور مجروع ارمانوں پر سیاست کرنے کا تو بالکل نہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف اگر واقعی چاہتے ہیں کہ عمران خان اس کانفرنس میں شرکت کریں تو اس کے لئے اعتماد سازی کے کچھ اقدامات اٹھانے چاہئیں‘ چاہے وہ نمائشی ہی کیوں نہ ہوں۔ پی ٹی آئی کے رہنماؤں اور ان کے ہمدردوں پر مقدمے اور گرفتاریاں فی الفور روک دینی چاہئیں جس سے کسی اور کا نہیں بلکہ جمہوریت کا نقصان ہورہا ہے۔ اسی طرح عمران خان کو مناسب طریقے سے دعوت نامہ بھیجیں تاکہ تمام تر اخلاقی دباو ٔکپتا ن کے اوپر پڑے اور ضروری ہو تو انہیں یہ امید بھی دلوادی جائے کہ الیکشن کی تاریخ پر بھی کانفرنس کے بعد بات ہوسکتی ہے۔ یہ سب اس لئے ضروری ہے کیونکہ عمران خان ہر چیز میں اپنا سیاسی فائدہ دیکھنے کے عادی ہیں اور جب تک انہیں یقین نہیں دلوایا جائے گا کہ اس کانفرنس میں شرکت کا انہیں کوئی فائدہ ہوگا تب تک وہ اس اے پی سی میں شرکت نہیں کریں گے۔ یاد رہے کہ جب سانحہ اے پی ایس ہوا تھا تو اس وقت انہوں نے اسلام آباد میں جاری دھرنا آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے کہنے پر ختم کر دیا تھا ۔ پھر جب وہ وزیراعظم نوازشریف کی بلائی آل پارٹیز کانفرنس میں گئے تو اس کے بعد انہوں نے مشترکہ پریس کانفرنس میں بیٹھنے سے انکار کردیا حتیٰ کہ سینیٹر مشاہد حسین سید کی مداخلت پر وزیراعظم نے ان کے چار حلقے کھولنے کا مطالبہ منظور کرلیا۔ اس تمام ایکسرسائز کا فائدہ یہ ہوا کہ کم ازکم تمام سیاسی قیادت شدت پسندی کیخلاف ایک صفحہ پر آئی اور خاص طور پر طالبان سے مذاکرات کے حامی سمجھے جانے والے عمران خان نے بھی ملٹری آپریشن کے حق میں دے دیا‘ جس کا نتیجہ ضرب عضب جیسے کامیاب آپریشن کی صورت میں نکلا۔
اس دفعہ بھی دہشتگردوں کیخلاف آپریشن میں عمران خان کی رضا شامل ہونا ضروری ہے کیونکہ وہ اپنے دورِ حکومت میں 5 ہزار ٹی ٹی پی جنگجوؤں اور اُن کے پینتیس سے چالیس ہزار اہلِ خانہ کو سابقہ فاٹا ایجنسیوں میں بسانے کے کسی منصوبے پر کام کررہے تھے ‘ جس کی بہرحال نہ تو قومی اسمبلی نے منظوری دی تھی اور نہ ہی نیشنل سکیورٹی کمیٹی نے۔ اس سے ہماری کمزوری ان پر عیاں ہوتی ہے ‘اس لئے کسی بھی آپریشن سے قبل دہشتگردوں کو بھی یہ پتہ ہونا چاہیے کہ اب پیچھے ان کا کوئی ہمدرد نہیں اور انہیں ریاست پاکستان کو پہنچائے ہر نقصان کا جواب دینا پڑے گا۔ پی ٹی آئی ذرائع کی جانب سے یہ خبر بھی آرہی ہے کہ اے پی سی کانفرنس میں جماعت کی نمائندگی اعظم سواتی اور شیخ رشید احمد کریں گے۔ یہ ایک غیر سنجیدہ تجویز ہے اور پی ٹی آئی کی جانب سے حسب معمول سیاست کھیلنے کی کوشش بھی۔اعظم سواتی اور شیخ رشید دونوں ہی سیاست کے سنجیدہ کردار نہیں ‘ان کی قابلیت مخالفین کو گالیاں دینے سے زیادہ کچھ نہیں۔ آج کل کیونکہ وہ عمران خان کے بیانیے کے ساتھ کھڑے ہیں اور جیل کی ہوا کھا چکے ہیں اس لئے خان صاحب کی خواہش ہوگی کہ انہیں اے پی سی میں بھیجا جائے۔ یہ تمام صورتحال پریشان کن ہے ‘ ایک جانب وزیراعظم پی ٹی آئی سے کے پی کے میں دہشتگردی کیخلاف فنڈنگ کا حساب مانگ رہے ہیں تو دوسری جانب عمران خان ان پر الزام لگارہے ہیں کہ دہشتگردی ان کی ناک کے نیچے کیوں ہورہی ہے ‘ ساتھ ساتھ وہ ان کی حکومت کو سازش کے تحت مسلط کرنے کا بیانیہ بھی دہرا رہے ہیں۔ ایک ایسا وقت جب دشمن ہماری صفوں میں موجود افراتفری کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرسکتا ہے ‘ ایسے میں یہ تمام تر صورتحال نہایت خطرنا ک بھی ہے اور تشویشناک بھی۔
اگر عمران خان منگل کو ہونے جارہی اے پی سی کانفرنس میں شرکت نہیں کرنا چاہتے تو اپنی جماعت سے شاہ محمود قریشی ‘ پرویز خٹک‘ اسد عمر اور اسد قیصر جیسے لیڈروں کو وفد کی صورت میں بھیجیں تاکہ تعمیری اور سنجیدہ بات ہوسکے۔ یہ پاکستان کی بقا اور مستقبل کا سوال ہے ‘ خدا رااس موقع کو انا اور ذاتی مفاد کی بھینٹ نہ چڑھائیں۔وزیراعظم بھی اس موقع پر حساب کتا ب کا سوال رہنے دیں ‘ بطورِ حکمران دل بڑا کریں اور اپوزیشن کو ساتھ لیکر چلنے کی کوشش کریں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں