توں کی جانے یار فریدا‘ روٹی بندہ کھا جاندی اے۔
جب بے بسی انسان کو اپنے حصار میں لے لے اور ہر طرف اندھیرا چھانے لگے‘ جب بڑھتی مایوسی گھٹن کا سبب بن جائے تو پھر انسان اپنی زندگی سے تنگ آکر کوئی انتہائی قدم اُٹھا لیتا ہے۔ چند روز پہلے جہانیاں میں چار بچوں کی ماں نے بھی شاید اپنی مجبوریوں کے باعث ہی ایسا قدم اُٹھایا۔ اس خاتون کا شوہر‘ جس کی روزانہ کی آمدن 400 روپے تھی‘ روز افزوں مہنگائی کی وجہ سے اپنے بچوں کو دو وقت کی روٹی نہیں کھلا سکتا تھا۔ ان حالات میں بجلی کے دس ہزار روپے کے بل نے اس خاندان کی زندگی اجیرن کر دی۔ جیسے تیسے کرکے انہوں نے رقم کا انتظام کیا۔ اس مقصدکیلئے نہ صرف گھر کی اشیا فروخت کیں بلکہ قرض لے کر بل ادا کیا لیکن یہ سب کرنے کے باوجود بھی بجلی بحال نہ ہوئی تو گھریلو حالات سے تنگ چار بچوں کی ماں نے زہریلی گولیاں کھا کر خودکشی کر لی۔ خاتون کے شوہر قاسم نے اپنی درد بھری کہانی سنائی کہ بل ادائیگی کے بعد گھر میں راشن کیلئے پیسے نہیں تھے اور اسی وجہ سے بچے دو دن سے بھوکے تھے۔ بیوی نے ان حالات سے تنگ آکر زہریلی گولیاں کھا لیں۔
بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں عوام کا استحصال جاری ہے اور اشرافیہ وسائل کے مزے لوٹ رہی ہے۔ عوام بجلی کے بڑھتے بلوں سے تنگ آکر اپنی جانیں تک دینے کو آ رہے ہیں۔ کچھ سڑکوں پر سراپا احتجاج ہیں۔ عوام پر بجلی کے بل کا بوجھ سرکاری افسروں کو بجلی کی مفت فراہمی کی وجہ سے بھی پڑ رہا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے افسروں کو سالانہ 13ارب روپے کی مفت بجلی ملتی ہے۔ ملک میں مجموعی طور پر 24سے 26کروڑ بجلی کے یونٹ نوازشوں کے بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ اب یہ خبر گرم ہے کہ گریڈ 17سے اوپر کے افسروں کی مفت بجلی بندکرنے کی سمری تیار کر لی گئی ہے‘ اب ان افسروں کو الاٹ شدہ یونٹوں کے مساوی رقم تنخواہ میں دی جائے گی۔ پاور ڈویژن کے مطابق یہ سمری کابینہ کو بھجوائی جا رہی ہے اور کابینہ کی منظوری سے یہ سہولت ختم کر دی جائے گی۔ اللہ کرے ایسا ہی ہو اور غریب عوام کا کچھ بوجھ تو کم ہو۔ یہ مفت کھاتے بند کر کے بھی کیا عوام کو کوئی فائدہ پہنچے گا یا نہیں؟ مہنگی بجلی کی اور بھی بہت ساری وجوہات ہیں‘ ان میں تیرہ سے چودہ قسم کے ٹیکس سب سے اہم وجہ ہیں۔ بجلی کے صارفین پر بجلی کی قیمت کے علاوہ 30سے 40فیصد تک مختلف طرح کے ٹیکسز لاگو کیے گئے ہیں۔ ایک عام شہری صرف اتنا جانتا ہے کہ اسے فی یونٹ کے حساب سے بل آنا چاہیے لیکن جب بل آتا ہے تو اس میں کئی طرح کے ٹیکس بھی شامل ہوتے ہیں۔ ایک شخص کو 32ہزارروپے بل آیا جس میں 12ہزار روپے ٹیکس شامل تھا۔ بجلی کے بلوں میں بجلی ڈیوٹی‘ جی ایس ٹی‘ فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ اور ایکسائز ڈیوٹی جیسے ٹیکس بھی شامل ہیں۔ وفاقی حکومت صوبوں سے0.5فیصد بجلی ڈیوٹی وصول کرتی ہے۔ حکومت بجلی کے بلوں میں صارفین سے 0.43روپے فی یونٹ مالیاتی سرچارج بھی وصول کرتی ہے۔ کمرشل اور صنعتی صارفین سے انکم ٹیکس وصول کیا جاتا ہے۔ صارفین پر18فیصد جنرل سیلز ٹیکس بھی لاگو ہے۔ فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ پر مزید جی ایس ٹی وصول کیا جاتا ہے۔ فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ پر ایکسائز ڈیوٹی بھی شامل ہے۔ آئی پی پیز سے کیے گئے معاہدے بھی ہمارے گلے کی ہڈی بنے ہوئے ہیں۔ وزارتِ توانائی نے بجلی قیمتوں میں اضافے سے متعلق حالیہ اعداد و شمار پیش کیے ہیں‘ جس کے مطابق اگست کا بل 89اعشاریہ 33روپے فی یونٹ کے حساب سے آیا ہے۔ اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ عوام کا صبر کا پیمانہ کیوں لبریز ہو رہا ہے۔ خدانخواستہ سول نافرمانی کی تحریک بھی چل سکتی ہے۔ نوبت یہاں تک آچکی ہے کہ میٹر ریڈر میٹر ریڈنگ کرتے ہوئے ڈر رہے ہیں کہ اگر وہ عوام کے ہتھے چڑھ گئے تو ان کی بُری حالت بنا دی جائے گی۔ حالات قابو سے باہر ہو رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ نگران وزیراعظم کو بار بار اجلاس بلانا پڑ رہا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے نگران کابینہ نے بھی اپنے ہاتھ کھڑے کر لیے ہیں۔ کابینہ اجلاس میں یہ طے پایا ہے کہ جب تک آئی ایم ایف سے مذاکرات نہیں ہوتے تب تک بجلی کے بلوں میں کسی قسم کا ریلیف نہیں دیا جا سکتا جبکہ آئی ایم ایف نے اس بابت حکومت سے تحریری منصوبہ مانگ لیا ہے۔
سیاسی پنڈتوں کے مطابق اگر خدانخواستہ مظاہرین بے قابو ہو گئے تو نگران حکومت کے لیے اپنے محدود اختیارات کے ساتھ صورتحال کو معمول پر لانا مشکل ہو جائے گا۔ ایک بار سول نافرمانی کی تحریک شروع ہوگئی تو پھر ملک کو تباہی کی دلدل سے کوئی نہیں نکال سکے گا۔ برصغیر میں سول نافرمانی کو بطور ٹول استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ سب سے پہلے سول نافرمانی تحریک کی شروعات گاندھی نے مارچ 1930ء میں برطانوی راج کے خلاف احمد آباد سے کی تھی۔ انہوں نے یہ تحریک سالٹ لاء کے خلاف شروع کی تھی۔ پاکستان بننے کے بعد پاکستان کی مختلف سیاسی جماعتیں حکومتوں کے خلاف احتجاج میں سول نافرمانی کی تحریک شروع کرنے کی دھمکیاں تو دیتی رہی ہیں لیکن کبھی کسی سیاسی جماعت نے پاکستان میں سول نافرمانی کی کال نہیں دی۔ پی ٹی آئی کے سربراہ وہ پہلے سیاسی رہنما تھے جنہوں نے 17اگست 2014 ء کو اسلام آباد میں انتخابی دھاندلی کے خلاف اپنی پارٹی کے احتجاجی دھرنے میں سول نافرمانی کی تحریک کا اعلان کیا اور شہریوں سے کہا کہ وہ گیس اور بجلی کے بل ادا نہ کریں اور جنرل سیلز ٹیکس نہ دیں۔ اس سے پہلے عوامی لیگ کے رہنما شیخ مجیب الرحمن نے علیحدگی کی تحریک کے دوران سول نافرمانی کی تحریک شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس تحریک کے دوران ڈھاکہ سمیت مشرقی پاکستان میں پہیہ جام ہو گیا تھا۔ تمام سرکاری اور غیر سرکاری دفاتر‘ سکول‘ بینک اور کاروباری مراکز بند ہو گئے تھے۔ عوام نے حکومت کو ٹیکس کی ادائیگیاں تک بندکردی تھیں۔ ٹیلی فون اور ٹیلی گرام کا مشرقی اور مغربی پاکستان میں رابطہ بھی بند ہو گیاتھا جس کے بعد آپریشن سرچ لائٹ کا آغاز ہوا۔ اور اس کانتیجہ بالآخر سقوطِ ڈھاکہ کی صورت میں نکلا۔
ہمیں ماضی سے سبق سیکھنا چاہیے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہمارے سیاستدان عوام کے مسائل سلجھانے کے بجائے بجلی کے معاملے پر پوائنٹ سکورنگ کر رہے ہیں۔ تاجرتنظیمیں بھی بجلی کی قیمتیں کم کرنے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ پاکستان بار کونسل بھی بلوں میں اضافے کو مسترد کر چکی ہے۔ جماعت اسلامی نے دو ستمبر کو ملک گیر احتجاج شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ایم کیو ایم نے بھی اضافہ واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ پیپلز پارٹی اپنی ہی اتحادی جماعت (ن) لیگ کی معاشی پالیسیوں سے خود کو فاصلے پر رکھ رہی ہے جبکہ وہ حکومت میں رہتے ہوئے ان معاشی پالیسیوں کا حصہ تھی۔ یعنی بجلی کی قیمتوں کے معاملے پر بھی ہر کوئی اپنی سیاست چمکا رہا ہے اور عوام کے زخموں پر کوئی بھی مرہم رکھنے کو تیار نہیں۔ حالانکہ معاشی تباہی اور بڑھتی مہنگائی کے لیے سب برابر ذمہ دار ہیں۔ تحریک انصاف نے آئی ایم ایف سے تاخیر سے معاہدہ کیا جس کی وجہ سے ملکی معیشت نے نقصان اُٹھایا۔ پی ڈی ایم اور اس کی اتحادی جماعتوں کی حکومت نے بھی سولہ ماہ میں مہنگائی میں بے پناہ اضافہ کیا۔ اب یہی جماعتیں کس کے خلاف احتجاج کرنے نکل پڑی ہیں‘ یہ سمجھ نہیں آتا؟ اصل مسئلہ اس وقت عوام کے مسائل ہیں جن کا فوری حل ناگزیر ہے۔ ورنہ خدانخواستہ صورتحال قابو سے باہر ہو سکتی ہے۔