وفاق میں کس کی حکومت بنے گی‘ یہ بلی بالآخر تھیلے سے باہر آ گئی ہے۔ شہباز شریف نے انتخابات سے ایک دن پہلے ایک ٹی وی چینل کو دیے گئے انٹرویو میں کہا تھا کہ اگر مسلم لیگ (ن) سادہ اکثریت حاصل کرے گی تو وزیر اعظم نواز شریف ہوں گے‘ لیکن اگر ہماری پارٹی کو سادہ اکثریت نہ ملی اور مخلوط حکومت بنانا پڑی تو اس صورت میں وزیراعظم کے امیدوار کا فیصلہ باہمی مشورے سے کیا جائے گا۔ ان کی ان باتوں کے بعد تجزیہ کاروں نے یہ نتیجہ اخذ کر لیا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کے وزیراعظم کے امیدوار شہباز شریف جبکہ پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کی امیدوار مریم نواز ہوں گی۔ اب جبکہ انتخابات ہو چکے ہیں‘ ان کے نتائج آ چکے ہیں‘ پارٹی پوزیشن بھی واضح ہو چکی ہے اور یہ نوشتۂ دیوار ہے کہ مخلوط حکومت بنانے کے سوا کوئی چارہ نہیں‘ چاہے وہ کوئی بھی پارٹی بنائے تو مسلم لیگ (ن) کی جانب سے وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب کے امیدواروں کا اعلان بھی کر دیا گیا ہے۔ اس طرح یہ بات طے ہو گئی ہے کہ ان دونوں اہم ترین عہدوں پر کون بیٹھے گا۔ مسلم لیگ (ن) کو حکومت سازی کے حوالے سے اپنی کامیابی کا اتنا یقین ہے کہ اس کی قیادت نئی کابینہ کی تشکیل میں بھی مصروف ہے۔ اس سلسلے میں پارٹی میں صلاح مشورے جاری ہیں۔
واقفانِ حال کے مطابق حکومت سازی کے سلسلے میں پاکستان پیپلز پارٹی‘ ایم کیو ایم (پی) اور دیگر اتحادی جماعتوں کے ساتھ باقاعدہ طور پر ایک تحریری معاہدہ کیا گیا ہے جس میں یہ طے پایا ہے کہ ملک کی صدارت پاکستان پیپلز پارٹی کو ملے گی‘ نئی بننے والی حکومت کو پانچ سال تک بغیر کسی سازش اور بغیر کسی لیگ پُلنگ کے کام کرنے دیا جائے گا اور کوئی بھی اتحادی کسی بھی مرحلے پر‘ کسی بھی حوالے سے اپوزیشن کا ساتھ نہیں دے گا‘ معاہدے میں جو معاملات طے پائے ہیں ان کی ہر حال میں پاسداری کی جائے گی۔ معاہدے میں یہ بھی طے پایا کہ پنجاب سے پاکستان پیپلز پارٹی کو سینیٹ میں دو نشستیں دی جائیں گی جبکہ ایم کیو ایم کو وفاقی کابینہ میں دو سے تین وزارتیں مل سکتی ہیں۔ علاوہ ازیں کراچی اور حیدر آباد کیلئے وفاقی حکومت کی طرف سے ڈیویلپمنٹ اور ماس ٹرانزٹ کے نئے منصوبے شروع کیے جائیں گے۔ حکومت سازی کے سلسلے میں اگرچہ پی پی پی نے مسلم لیگ (ن) کا ساتھ دینے کا وعدہ کیا ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا ہے کہ وہ حکومت کا حصہ نہیں بنے گی یعنی وزارتیں نہیں لے گی۔
پارٹی پوزیشن پر ایک نظر ڈالیں تو یہی حقیقت سامنے آتی ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے حکومت بنانے کے امکانات زیادہ ہیں۔ آزاد امیدوار 93ہیں اور وہ جس پارٹی کے ساتھ مل کر حکومت بنانا چاہتے ہیں‘ اس کی قومی اسمبلی میں صرف ایک سیٹ ہے جبکہ 265کے ایوان میں حکومت بنانے کیلئے کسی بھی پارٹی کے پاس کم از کم 133نشستیں ہونی چاہئیں۔ ایوان میں سادہ اکثریت حاصل کرنے کیلئے بھی مجموعی طور پر 169سیٹوں کی ضرورت ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار یہ تعداد کیسے پوری کریں گے۔ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کے ساتھ پارٹی کے رہنما بیرسٹر گوہر خان تو اب تک دعویٰ کر رہے ہیں کہ انہوں نے پورے ملک سے 170نشستیں جیتی ہیں‘ اور ان کی طرف سے آج وزیراعظم کے امیدوار کیلئے نام کا اعلان کر دیا جائے گا۔ یاد رہے کہ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کا حکومت بنانے کیلئے کسی پارٹی کا حصہ ہونا ضروری ہے۔ اب تک کا ایک اہم سوال یہ تھا کہ کیا منتخب آزاد امیدوار مل کر حکومت بنا سکتے ہیں۔ سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد نے آزاد امیدواروں کے حکومت بنانے یا نہ بنا سکنے کا مسئلہ حل کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ اگر کسی جماعت کے پاس انتخابی نشان ہو اور کوئی نشست نہ جیت سکی ہو تو بھی آزاد امیدوار اس جماعت میں شامل ہو سکتے ہیں۔ یعنی وہ خود اپنے طور پر تو حکومت نہیں بنا سکتے لیکن اگر وہ کسی سیاسی جماعت میں شامل ہو جائیں تو اس جماعت کی حکومت بن سکتی ہے۔ پی ٹی آئی مجلس وحدت المسلمین کے ساتھ اسی طرح کا اتحاد قائم کرنا چاہتی ہے۔ اب مجلس وحدت المسلمین نے تو آزاد امیدواروں کو خوش آمدید کہا ہے اور آنے والوں کو اپنے ایجنڈے پر عملدرآمد کی کھلی چھوٹ دینے کی بات کی ہے لیکن جماعت اسلامی نے حکومت سازی کے سلسلے میں پی ٹی آئی کے ساتھ تعاون نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ پی ٹی آئی کا مجلس وحدت المسلمین کے ساتھ اتحاد ہو بھی جائے تو مطلوبہ تعداد میں نشستیں کہاں سے پوری ہوں گی۔ آزاد امیدواروں کے بعد سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے والی تینوں بڑی سیاسی جماعتیں یعنی مسلم لیگ (ن)‘ پاکستان پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم پاکستان تو متحد ہو بھی چکیں اور ان کے درمیان معاہدہ بھی طے پا چکا۔ مسلم لیگ (ن) کے پاس 79سیٹیں ہیں اور ایم کیو ایم پاکستان کے ساتھ اس کا اتحاد الیکشن سے خاصا پہلے ہو چکا تھا‘ جس کے پاس 17 سیٹیں ہیں۔ پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی کی 54 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی ہے۔ تینوں پارٹیوں کی کل نشستیں 150بنتی ہیں۔ اگر کچھ آزاد طور پر منتخب ہونے والے امیدواروں کی حمایت حاصل ہو جائے تو مسلم لیگ (ن) کیلئے ایک مخلوط لیکن مضبوط حکومت بنانا مشکل نہیں رہے گا۔
اس کے باوجود شہباز شریف نے آزاد امیدواروں کو حکومت بنانے کی دعوت دی اور کہا کہ وہ اگر مطلوبہ تعداد میں ووٹ اکٹھے کر سکتے ہیں تو حکومت بنا لیں‘ ہم اپوزیشن بنچوں پر بیٹھ جائیں گے۔ اس زمینی حقیقت کو کوئی بھی جواز پیش کرکے جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ ملک کو اس وقت جن حالات کا سامنا ہے‘ ملک کو سنبھالنا آسان کام نہیں ہے؛ چنانچہ ممکن ہے مسلم لیگ (ن) نے سوچا ہو کہ آزاد امیدوار اگر حکومت بنا سکتے ہیں تو بنا لیں‘ کون سا یہ چل جانی ہے‘ بالآخر انہی کی باری آئے گی۔ بہر حال عوام کیلئے یہ خوش خبری ہے کہ اگلے چند روز میں ملک میں ایک نئی حکومت قائم ہونے والی ہے جو اگر مسلم لیگ (ن) کی ہوئی اور اگر اتحادیوں کی جانب سے معاہدے کی پاسداری کی گئی تو اس کے پانچ سال پورے ہونے کے امکانات زیادہ ہوں گے۔ ماضی میں حکومتیں اگر ڈِلیور نہیں کر پائیں تو اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ ان کو آئینی میعاد پوری نہیں کرنے دی جاتی رہی۔ اب اگر آئینی میعاد پوری ہو گی‘ جیسا کہ معاہدے میں طے ہوا ہے‘ تو توقع کی جا سکتی ہے کہ جو حکومت قائم ہو گی وہ ڈِلیور بھی کرے گی۔ حال ہی میں کچھ روحانی شخصیات نے یہ عندیہ دیا کہ مستقبل قریب‘ یعنی ڈیڑھ دو سال بعد پاکستان کے ترقی کرنے اور آگے بڑھنے کے امکانات روشن تر ہیں۔ ہو سکتا ہے قدرت یہ کام نئی حکومت سے کرانا چاہتی ہو اور حکومت سازی کے سلسلے میں جو معاملات طے پا رہے ہیں ان میں قدرت کی تائید بھی شامل ہو۔ ہم نے گزشتہ پون صدی حکومتوں اور حکمرانی کے تجربے کرتے ہوئے گزاری ہے۔ اللہ کرے کہ جو بھی ہو‘ ملک اور قوم کیلئے اچھا ہو۔