آٹھ فروری کے الیکشن کے بعد سے پاکستان تحریک انصاف مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماو ٔں سے رابطے کر چکی ہے اور پی ٹی آئی کے رہنما بیرسٹر سیف کا کہنا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کی ہدایت پر ملک میں ہم آہنگی اور مفاہمت کے لیے ایسا کیا جا رہا ہے‘ اور ان کی ہدایت پر ہی مرکز اور پنجاب میں اپوزیشن میں بیٹھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ اکثریت حاصل ہونے کے دعوؤں کے باوجود پی ٹی آئی سیٹوں کی گنتی پوری کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی اور یوں حزبِ اختلاف بننا قبول کر لیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ پیپلز پارٹی کے اتحاد اور تعاون سے مسلم لیگ (ن) کی مخلوط حکومت بننے کی راہ پوری طرح ہموار ہو گئی ہے۔جب پی ٹی آئی بیک فُٹ پر آئی‘ اسی لمحے مسلم لیگ (ن) میں یہ سوچ ابھری کہ اسے وفاقی حکومت نہیں لینی چاہیے اور صرف پنجاب پر فوکس کرنا چاہیے‘ جہاں مسلم لیگ (ن) آزاد اراکین کے ساتھ مل کر آسانی سے حکومت بنا سکتی ہے۔ پارٹی قائد نواز شریف کا خیال ہے کہ وفاقی حکومت بنانے کے لیے کسی اتحادی جماعت کی غیر اصولی بات کو نہیں ماننا چاہیے۔ پارٹی کے کچھ شرکا کی رائے ہے کہ صرف ایک مقصد کے لیے وفاقی حکومت لے لینی چاہیے‘ یہ کہ ملک معاشی بحران کا شکار ہے ‘ ریاست کو بچانے کی ضرورت ہے۔
میرے خیال میں معاملہ صرف ریاست اور معیشت کو بچانے تک محدود نہیں‘یہ جمہوریت اور سیاست کو بچانے کا بھی وقت ہے۔ آپ سوچیں گے کہ یہ میں نے کیا بات کہہ دی۔ جمہوریت اور سیاست کو بچانا بھی حالات اور وقت کا تقاضا بن چکا ہے۔ یہ تقاضا 'دی اکانومسٹ‘ کے انٹیلی جنس یونٹ کی ایک تازہ رپورٹ سامنے آنے کے بعد مزید اہمیت اختیار کر چکا ہے۔''Age of Conflict‘‘ کے عنوان اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2023ء میں دنیا بھر میں ڈیموکریٹک سٹینڈرڈز کا گراف نیچے گرا جس کی وجہ جنگیں ‘ آمرانہ کریک ڈا ؤنز اور بڑی سیاسی پارٹیوں پر اعتماد میں کمی ہے۔ پاکستان میں یہ گراوٹ خاصی زیادہ ہوئی ہے۔ گلوبل ایوریج انڈیکس 2022ء کے 5.29 کی نسبت کم ہو کر 2023ء میں 5.23 ہو گیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں کہا جا سکتا ہے کہ پوری دنیا کا جمہوریت کا گراف نیچے آیا ہے‘ لیکن پاکستان اس ایوریج سے بھی خاصا نیچے ہے اور اس کا سکور محض 3.25ہے ‘ جو 2022ء میں 4.13تھا۔اس طرح پاکستان ہائبرڈ رجیم سے اتھاریٹیرین رجیم (آمرانہ نظام) کی کیٹیگری میں ڈاؤن گریڈ ہو گیا ہے۔ اس حوالے سے کی گئی عالمی رینکنگ میں پاکستان سال 2023ء میں 11 درجے نیچے چلا گیا ہے۔ یاد رہے کہ اس خطے کے 28 ممالک میں سے زیادہ تر یعنی 15ممالک کا سکور اس حوالے سے کم ہوا ہے جبکہ صرف آٹھ ممالک کا سکور بڑھا ہے۔ پاکستان ان چھ ممالک میں شامل ہے جن کی کلاسیفکیشن بھی تبدیل ہوئی ہے یعنی پاکستان 2022ء میں ہائبرڈ رجیم کیٹیگری میں تھا لیکن ایک سال بعد اتھاریٹیرین رجیم یا آمرانہ نظام کے درجے میں آ گیا ہے۔
اکانومسٹ انٹیلی جنس یونٹ کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ بات حیرت کا باعث نہیں کہ بنگلہ دیش‘ پاکستان اور روس میں ہونے والے انتخابات رجیم چینج یا جمہوریت میں اضافے کا سبب نہیں بن سکیں گے۔ ذہن میں رہے کہ 3.46سکور والے ممالک آمرانہ حکومتوں (Authoritarian Regime) میں شمار ہوتے ہیں۔ 5.46 سکور والے ممالک ہائبرڈ رجیم والے ملک ہوتے ہیں۔ 7.46 سکور والے ممالک Flawed democracies کہلاتے ہیں ‘ جبکہ 8 سے 10 سکور والے ممالک Full democraciesکہلاتے ہیں۔ یہ سکور انتخابی نظام‘ پلورل ازم (Pluralism)‘ معاشرتی آزادیوں ‘ حکومت کی کارکردگی‘ حکومتی عمل میں سیاسی حصے داری اور سیاسی کلچر کے حوالے سے سوالنامے کے جوابات کے تجزیے سے اخذ کیے جاتے ہیں۔ ہم اپنا تقابل اکثر بھارت سے کرتے ہیں ‘ تو اس رپورٹ میں بھارت کوFlawed democracyقرار دیا گیا یعنی وہ جمہوریت کے حوالے سے ہم سے کلاسیفکیشن میں دو درجے بہتر ہے۔ یہ بہتری اس حقیقت کے باوجود موجود ہے کہ بھارت میں سیاسی خلفشار ہے‘ وہاں اقلیتیں مسائل اور مشکلات کا شکار ہیں اور بھارت میں علیحدگی کی تحریکیں بھی چل رہی ہیں۔ ان تمام نامساعد حالات کے باوجود انہوں نے اپنی جمہوریت کو مستحکم رکھا ہے‘ اچھی پوزیشن پر‘ اچھے درجے پر۔ ہمیں بھی جمہوریت کے استحکام کے سلسلے میں ایسی ہی کاوشیں کرنے کی ضرورت ہے۔
رپورٹ میں بیان کردہ باتوں سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا۔ یہ حقیقت ہے کہ ہمارے ملک میں جمہوریت اور جمہوری روایات‘ دونوں کا گراف نیچے آیا ہے۔ پُرانی جمہوری روایات نہیں رہیں تو جمہوریت پہلے جیسی کیسے رہ سکتی تھی۔ یہ بھی جمہوریت کے زوال کی ہی ایک نشانی ہے کہ ملک میں نئے انتخابات ہوئے جن کے بعد عوام خوش ہیں اور یہ توقع کر رہے ہیں کہ ان کے منتخب نمائندے نئی حکومت تشکیل دیں گے تو ملک سے بے یقینی کا خاتمہ ہو جائے گا اور معیشت کو آگے بڑھنے کیلئے ایک جہت مل جائے گی۔کمشنر راولپنڈی نے مگر ایک نیا پینڈورا باکس کھول دیا ہے۔ انہوں نے عام انتخابات میں بے ضابطگیوں کا اعتراف کرتے ہوئے اپنے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا اور کہا ہے کہ انہوں نے راولپنڈی ڈویژن میں انتخابات کے دوران دھاندلی کی۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے ہارے ہوئے امیدواروں کو پچاس پچاس ہزار کی لیڈ میں تبدیل کیا۔ میں نے راولپنڈی میں نا انصافی کی‘ مجھے اس جرم پر راولپنڈی کے کچہری چوک میں پھانسی دے دینی چاہیے۔ حالیہ عام انتخابات میں دھاندلی کی باتیں اور بیانات اس سے پہلے بھی سامنے آ رہے تھے‘ حتیٰ کہ بیرونِ ملک سے بھی انتخابی نتائج کے بارے میں آوازیں اٹھ رہی تھیں ‘ جن کی دفترِ خارجہ کی جانب سے تردید کی جا رہی تھی لیکن کمشنر راولپنڈی کے اعتراف نے ساری صورتحال ہی تبدیل کر کے رکھ دی ہے۔ اب بیرونِ ملک سے انتخابی عمل پر اٹھائے جانے والے اعتراضات پر ردِ عمل ظاہر کرنا بھی مشکل ہو گیا ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے کمشنر راولپنڈی کی جانب سے لگائے گئے الزامات کو مسترد کر دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ الزامات بے بنیاد ہیں۔ انہوں نے بڑی صائب بات کی کہ الزامات کوئی بھی لگا سکتا ہے‘ الزامات لگانا ان کا حق ہے مگر اس کے ساتھ ثبوت بھی ہونے چاہئیں اور الزام لگانے والے کمشنر راولپنڈی نے کوئی ثبوت پیش نہیں کیا۔
کمشنر راولپنڈی کے ان انکشافات کے بعد کیا ہو گا‘ یہ تو میں نہیں جانتا لیکن یہ ضرور جانتا ہوں کہ جہاں کہیں سے بھی دھاندلی کی آوازیں آرہی ہیں ‘ ان کی جامع تحقیقات ضرور کی جانی چاہئیں کیونکہ ملک میں جمہوریت کی بقا ہی نہیں استحکام کے لیے بھی شفاف‘ غیر جانبدارانہ اور منصفانہ انتخابات ناگزیر ہوتے ہیں۔ جمہوریت کے گراف پر ہمارے ملک کا مسلسل نیچے کھسکنا ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں ‘ دونوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ ایسی پالیسیاں وضع کی جانی چاہئیں اور ایسے اقدامات کرنے چاہئیں کہ جمہوریت ڈی ریل تو بالکل نہ ہو‘ لیکن ڈی گریڈ بھی نہ ہو سکے۔ اگلی حکومت جس پارٹی کی بھی بنے‘ میرے خیال میں اسے دوسرے چیلنجز کے ساتھ ساتھ اس چیلنج سے بھی نبرد آزما ہونا پڑے گا۔