وفاقی کے ساتھ دو‘ تین صوبائی بجٹس کا بھی اعلان کر دیا گیا ہے اور لوگ اب بیٹھے اندازے لگا رہے ہیں کہ انہیں کیا ملا‘ کیا ملنے سے رہ گیا۔ سرکاری ملازمین اور پنشنرز کو اچھا خاصا ریلیف ملا ہے۔ حکومت اگر اپنے وعدے کے مطابق مہنگائی کو سنگل ڈیجٹ پر لے آئی تو ان لوگوں کے لیے زندگی گزارنا کچھ آسان ہو سکتا ہے‘ لیکن وہ جو نظیر اکبر آبادی نے کہا تھا 'کیا خوب سودا نقد ہے‘ اس ہات دے اس ہات لے‘ تو حکومت نے بھی بجٹ بناتے وقت اس محاورے یا اس نصیحت کو نظر انداز نہیں کیا اور ایک طرف سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کیا تو اسی سانس میں انکم ٹیکس بڑھا دیا ہے۔ 'آم کے آم گٹھلیوں کے دام‘ والا محاورہ شاید ایسی ہی صورتحال کے بارے میں بنا ہے۔
اعلان کردہ بجٹ کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس میں نان فائلرز پر خصوصی توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ دیکھیں نان فائلرز کو فائلرز بننے پر مجبور کرنے کے لیے حکومت نے کیا کیا اقدامات کیے ہیں اور کیا کیا مزید کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ نے پوسٹ بجٹ کانفرنس میں بتایا کہ نان فائلرز کے لیے کاروباری ٹرانزیکشن کے ٹیکس میں نمایاں اضافہ ہوا ہے کیونکہ اس میں تین چار فیصد اضافہ ناکافی تھا۔ انہوں نے بتایا: اس کو ہم (حکومت) کئی جگہوں پر 45فیصد پر لے گئے ہیں اور اس کا مقصد یہ ہے کہ نان فائلرز ضرور سوچیں‘ یعنی نان فائلرز فائلر بننے کے بارے میں ضرور سوچیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ نان فائلرز کی اختراع کو ختم کرنے کی جانب پہلا قدم ہے۔ فائلرز اور نان فائلرز کے حوالے سے حکومت ایک اور اقدام کا بھی ارادہ رکھتی ہے۔ حکومت نے بجٹ میں نان فائلرز کے بیرونِ ملک سفر پر پابندی کی تجویز پیش کی ہے‘ جو اگر منظور کر لی گئی تو نان فائلرز کے لیے بیرونِ ملک جانا نا ممکن ہو جائے گا۔ ایف بی آر کے مطابق ٹیکس نہ دینے والے موبائل صارفین پر 75فیصد ٹیکس عائد کیا جائے گا۔ اسی طرح نان ایکٹو ٹیکس پیئر موبائل صارفین کی کال پر 75فیصد ٹیکس وصول کیا جائے گا۔ حکومت کی جانب سے نان فائلر افراد کی موبائل سمیں بلاک کرنے کا سلسلہ پہلے ہی شروع کیا جا چکا ہے۔ ان سارے اقدامات سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت بہرحال ٹیکس ریونیو بڑھانے کے سلسلے میں خاصی سنجیدہ ہے‘ لیکن یہ واضح نہیں کہ جن نان فائلرز کی سمیں بند کی جائیں گی‘ جن کے بیرونِ ملک سفر پر پابندی عائد کی جائے گی‘ جن نان فائلرز کی کاروباری ٹرانزیکشنز پر اضافی ٹیکس وصول کیا جائے گا یا جن کی موبائل کالوں پر زیادہ ٹیکس کاٹا جائے گا‘ ان کا تعین کیسے ہو گا اور اس تعین کے لیے Criteriaکیا رکھا گیا ہے؟ آیا وہ عام چھوٹے موٹے شہری ہوں گے یا ان بڑی مچھلیوں پر بھی ہاتھ ڈالا جائے گا جو روزانہ کماتی تو لاکھوں ہیں لیکن ٹیکس نیٹ سے پھر بھی باہر ہیں؟ ماضی کی اور موجودہ‘ سب حکومتیں دعویٰ تو یہی کرتی رہی ہیں کہ بڑی مچھلیوں کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے گا۔ میرے خیال میں یہی اچھا طریقہ ہے۔ بڑی مچھلیوں سے ویسے بھی بڑا ریونیو ملے گا‘ عام لوگوں سے کیا ملے گا؟ عام آدمی تو ویسے بھی کسی نہ کسی حوالے سے کچھ نہ کچھ ٹیکس دیتا ہی ہے۔ بڑی مچھلیاں پکڑی جائیں گی تو عام آدمی خود بخود ٹیکس ادا کرنا شروع کر دے گا۔ لیکن اگر ماضی کی روش کو برقرار رکھتے ہوئے حکومت نے غریب اور متوسط طبقے کو ہی نچوڑنے کا سلسلہ جاری رکھا اور متمول طبقے کو بالقصد یا بلاقصد نظر انداز کیے رکھا تو اس کے نتیجے میں یقینا مسائل پیدا ہوں گے۔
ٹیکسوں کی بات ہو رہی ہے تو میں عوام کی ترجمانی ہونا بھی ضروری سمجھتا ہوں۔ یہ بات خاصے وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ کوئی بھی شہری اپنے حصے کا ٹیکس ادا کرنے سے گریزاں نہیں‘ لیکن ان کے اس سوال کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ ان کے ادا کردہ ٹیکس جاتے کہاں ہیں؟ وہ یہ سوال کرنے میں اس لیے حق بجانب محسوس ہوتے ہیں کہ ایک جانب عوام سے بھاری ٹیکس وصول کیے جاتے ہیں‘ دوسری جانب بھاری سود پر بڑے بڑے قرضے لینے کا سلسلہ بھی حکمرانوں نے جاری رکھا ہوا ہے۔ چند روز قبل پیش کی گئی اقتصادی سروے رپورٹ کے مطابق ملک پر مجموعی قرض 67525ارب روپے ہے جس میں مقامی قرض 43432ارب روپے ہے اور بیرونی قرض 24093ارب روپے جبکہ ملک کا ہر شہری دو لاکھ اسی ہزار روپے کا مقروض ہو چکا ہے‘ حتیٰ کہ پاکستان میں پیدا ہونے والا ہر بچہ اپنے کندھوں پر قرضوں کا بوجھ لے کر پیدا ہوتا ہے۔ تو ان حالات میں پاکستانی شہری یہ سوال اٹھانے میں حق بجانب محسوس ہوتے ہیں کہ ان کے ادا کردہ ٹیکس اور لیے گئے قرضے آخر جاتے کہاں ہیں‘ کہ عوام سے تو ہر حکومت مسلسل قربانی ہی مانگتی ہے۔ اور یہ خبر اسی روز سامنے آئی جس روز بجٹ پیش کیا گیا کہ رواں مالی سال میں طاقتوروں کو ٹیکس چھوٹ 3900ارب تک جا پہنچی اور آئی ایم ایف کی شرائط کے باوجود ایک سال میں اس چھوٹ میں 27فیصد اضافہ دیکھا گیا۔ خبر میں بتایا گیا ہے کہ طاقتور شعبوں کو فراہم کی جانے والی ٹیکس استثنا کی لاگت ہر سال بڑھتی جا رہی ہے۔ طاقتور شعبے نے اس مالی سال میں پچھلے مالی سال کی نسبت 1.7ٹریلین روپے زیادہ ٹیکس استثنا حاصل کیا۔ حکومت جب پہلے سے ٹیکس اور یوٹیلیٹی بلز ادا کرنے والے لوگوں پر ہی مزید ٹیکسوں کا بوجھ لادتی ہے تو اسے اس سوال کا جواب بھی دینا چاہیے کہ ٹیکسوں میں یہ چھوٹ کس خوشی میں دی جاتی ہے؟
پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس میں صحافیوں کی جانب سے اٹھائے گئے ان سوالات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ بجٹ میں دبئی لیکس کا کہیں ذکر نہیں ہے حالانکہ دبئی میں سینکڑوں پاکستانیوں کی جائیدادیں موجود ہیں؟ کسی حکومتی نمائندے کی جرأت ہوئی کہ کسی طاقتور سے یہ پوچھے کی اربوں روپے کی پراپرٹی کہاں سے آئی؟ سوال کیا گیا کہ ایک 45ہزار روپے تنخواہ لینے والے کی سم تو بلاک کر دی گئی لیکن جن کی اربوں روپے کی جائیدادیں ہیں ان سے آج تک کسی نے نہیں پوچھا؟ اسی طرح یہ سوال بھی پوچھا گیا کہ حکومت اپنے اخراجات تو کم نہیں کرتی لیکن عوام پر ٹیکس لگائے اور بڑھائے جا رہے ہیں۔ حال ہی میں اعلیٰ سطح کی ایک کمیٹی نے کفایت شعاری کے حوالے سے جو تجاویز پیش کی تھیں‘ وزیر خزانہ نے اپنی بجٹ تقریر میں ان تجاویز میں سے ایک کا بھی ذکر نہیں کیا۔ یہ اعلیٰ سطحی کمیٹی وزیراعظم نے اپنی موجودہ حکومت کے ابتدائی دنوں میں قائم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس کے برعکس وفاقی وزیر خزانہ نے رائٹ سائزنگ کے ان اقدامات کے حوالے سے بات کی جو حکومت کے زیر غور ہیں۔ اگر حکمران قومی معیشت کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے خود ہی کفایت شعاری نہیں اپنائیں گے تو عوام کیسے اس کے لیے تیار ہوں گے؟ حالات اور وقت کا تقاضا ہو تو عوام پر بوجھ ڈالنے میں کوئی مضائقہ نہیں لیکن ان سے ہر دم قربانیاں طلب کرنا بھی کسی طور مناسب نہیں۔ ضروری ہے کہ بجٹ میں سے ان چیزوں کو منہا کیا جائے جو عوام پر کسی بھی حوالے سے مالی بوجھ بڑھانے کا باعث بنیں گی۔ میرا مشورہ یہ ہے کہ اگلے بجٹ تک بجلی‘ گیس اور پٹرولیم مصنوعات کے نرخ منجمد کر دیے جائیں‘ پھر دیکھیں عوام کی مشکلات میں کمی آتی ہے یا نہیں۔
آخری بات یہ کہ وزیراعظم شہباز شریف نے صنعتوں کے لیے بجلی کی قیمت میں 10روپے 69پیسے فی یونٹ کمی کا اچھا اقدام کیا ہے۔ اس کے نتیجے میں صنعتی اور زرعی مصنوعات کی پیداواری لاگت میں کمی واقع ہو گی اور قومی صنعتیں عالمی منڈی میں اشیا کی لاگت کے مقابلے کے قابل ہو جائیں گی‘ یوں برآمدات میں اضافہ ممکن ہو گا۔ وزیراعظم کی اس کاوش سے صنعتی ترقی کی رفتار مزید تیز ہو گی‘ روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے جس سے بے روزگاری میں کمی واقع ہو گی اور صنعتوں کے پہیے کی رفتار تیز کی جا سکے گی۔ صنعتوں کا پہیہ 24گھنٹے گھومے گا تو قومی معیشت کی ترقی کی رفتار خود بخود بڑھ جائے گی۔