عدت میں نکاح کیس میں بانی پی ٹی آئی اور ان کی اہلیہ کو بری کیے جانے کا فیصلہ اور اس سے ایک دن پہلے مخصوص نشستوں کے کیس میں پی ٹی آئی کے حق میں فیصلہ آنے کے بعد ہمارے ملک کی سیاست میں ایک نئی گرمی پیدا ہو چکی ہے۔ جتنے منہ اتنی باتوں والا معاملہ ہے۔ ہر کوئی قیاس آرائی کر رہا ہے اور ہر کوئی اپنا مؤقف پیش کر رہا ہے۔ کوئی فیصلوں کو کُلی اور کوئی جزوی تسلیم کر رہا ہے۔ ایک عدالت پر تنقید کر رہا ہے تو دوسرا نظامِ عدل کی تعریف و توصیف کر رہا ہے۔ کوئی فیصلے کو غیر ضروری قرار دے رہا ہے تو کوئی فیصلے کو 'ٹُو دی پوائنٹ‘ اور بالکل صائب گردان رہا ہے۔ خیر جس طرح ہمارے ملک میں سیاست کی گرمی سردی کوئی نیا معاملہ نہیں ہے‘ اسی طرح عدالتی فیصلوں پر موافق اور مخالف بیانات کا سلسلہ بھی نیا نہیں ہے۔ یہاں ہر دور اور ہر زمانے میں عدالتی فیصلوں پر انگلی اٹھائی جاتی رہی ہے‘ عدالتوں کو کینگرو کورٹس تک کہا جاتا رہا ہے اور ججوں کو ان فیصلوں کی بنا پر مطعون کیا جاتا رہا ہے‘ اور لگتا ہے کہ یہ سلسلہ رکنے والا نہیں۔ سیاسی مدوجذر‘ اتار چڑھاؤ‘ گرمی سردی برصغیر کی سیاست کا خاصا ہے۔ اب تو ہمارے لوگ ان چیزوں کے اس قدر عادی ہو چکے ہیں کہ جب تک سیاست میں تیزی‘ تندی اور تناؤ نہ ہو انہیں مزا ہی نہیں آتا۔
صورتحال یہ ہے کہ مخصوص نشستیں ملنے سے پی ٹی آئی کو طاقت ملی ہے اور عدت میں نکاح کیس کا فیصلہ خود بانی پی ٹی آئی کو تقویت بہم پہنچانے کا سبب بنا ہے۔ پی ٹی آئی مخصوص نشستیں ملنے کے بعد پہلے سے زیادہ کھل کھیلنے کے قابل ہو گئی ہے۔ وہ حکومت کو کوئی بڑا چیلنج پیش کر سکے گی یا نہیں‘ اس بارے میں کچھ کہنا ابھی قبل از وقت ہو گا۔ وہ حکومت بنانے کی پوزیشن میں آ کر حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کے قابل ہو سکے گی یا نہیں‘ اس بارے میں بھی فی الحال کوئی بات نہیں کی جا سکتی‘ لیکن یہ بات طے ہے کہ وہ اب سیاست میں زیادہ سرگرم کردار ادا کرے گی‘ جس کا نتیجہ حکومت کے لیے مشکلات کی صورت میں ہی نکل سکتا ہے‘ بشرطیکہ کوئی نیا آئینی یا قانونی شوشہ نہ چھوڑ دیا گیا۔ وزیر دفاع خواجہ آصف کا یہ بیان اس حوالے سے قابلِ غور ہے‘ جس میں سپریم کورٹ کے مخصوس نشستوں سے متعلق دیے گئے فیصلے پر ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عدلیہ آئین کی تشریح کر سکتی ہے‘ لیکن آئین دوبارہ لکھنا اس کا کام نہیں‘ کل کے فیصلے کے سیاسی مضمرات واضح نظر آتے ہیں‘ جس نے دروازہ نہیں کھٹکھٹایا اسے بھی انصاف مل گیا۔ تو کیا ایک نیا پینڈورا باکس کھلنے والا ہے؟ کیا یہ معاملہ ابھی مزید طول کھینچے گا؟ کیا ہماری سیاست میں امن اور سکون نہیں آ سکے گا؟ ماضی کو پیشِ نظر رکھا جائے تو ایسا ہی محسوس ہوتا ہے‘ لیکن چونکہ یہ عدالت کا حکم ہے اس لیے الیکشن کمیشن کو فوری طور پر پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں دینا پڑیں گی‘ کسی اپیل میں جانے کا معاملہ اس کے بعد کا ہو گا۔
جیسا کہ پہلے عرض کیا‘ مذکورہ بالا دونوں فیصلے بانی پی ٹی آئی کے لیے طاقت و تقویت کا سبب بنے ہیں۔ یہ ان کی سیاسی ہی نہیں قانونی اور اخلاقی فتح بھی ہے کہ انہیں عدت میں نکاح کیس سے باعزت بری کر دیا گیا ہے۔ یہ طاقت ان کی باتوں میں بھی نظر آتی ہے۔ بانی چیئرمین پاکستان تحریک انصاف نے حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہونے کا عندیہ دیتے ہوئے تین شرائط رکھی ہیں۔ شرائط اس طرح ہیں: پہلی شرط‘ میرے کیسز ختم کریں۔ دوسری شرط‘ ہمارے لوگوں کو رہا کریں۔ تیسری شرط‘ ہمارا مینڈیٹ واپس کریں۔ سابق وزیراعظم کا کہنا تھا: آٹھ فروری 2024ء کا ڈاکا نہیں بھولا جا سکتا‘ بھوک ہڑتال کروں گا اور اسے ہم عالمی سطح پر اُجاگر کریں گے۔ اب ظاہر ہے کہ پہلی دو شرطیں اگر کوئی مان بھی لے تو تیسری شرط پوری کرنا ناممکن سی بات ہے۔ حکومت یہ کیسے کر سکتی ہے کہ مینڈیٹ واپس کرنے کے تناظر میں خود ہی اقتدار پلیٹ میں ڈال کر پی ٹی آئی کو پیش کر دے؟ اس لیے یہ بات پورے یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ فی الحال سیاست کے معاملات اسی طرح چلیں گے جیسے چل رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ سیاست کے معاملات ماضی میں بھی ایسے ہی چلتے رہے ہیں‘ جیسے اب چل رہے ہیں۔ اسے کسی پل چین نہیں آیا۔ کہا تو یہ جاتا ہے کہ حکومت کے ساتھ ساتھ اپوزیشن کا ہونا پارلیمانی سیاست یا دوسرے لفظوں میں جمہوریت کا حُسن ہے‘ لیکن جتنی بد سلوکی اس حُسن کے نام پر کی جاتی رہی اور اب بھی کی جا رہی ہے‘ اتنی کسی اور حوالے سے دیکھنے میں نہیں آئی۔ ماضی بعید کو چھوڑ کر جتنی پارٹیاں موجود ہیں اور جتنے سیاسی لیڈر حیات ہیں‘ ان کے زمانے کی بات کرتے ہیں‘ یعنی ماضی قریب کی بات کرتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کو اپنے دورِ حکومت میں کسی بڑی اپوزیشن کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا‘ لیکن یہ کسر 1977ء کے قبل از وقت کرائے گئے عام انتخابات کے بعد بننے والے سیاسی مذہبی جماعتوں کے اتحاد نے پوری کر دی۔ سب جانتے ہیں اس تحریک کا نتیجہ جولائی 1977ء کے مارشل لاء کی شکل میں نکلا تھا۔ ضیا الحق کو بھی اگرچہ کسی بڑی اپوزیشن کا سامنا نہیں تھا لیکن اپوزیشن سے بڑی اپوزیشن یہ خطرہ تھا کہ کہیں انہیں اقتدار سے بے دخل نہ کر دیا جائے۔ اس بے دخلی سے بچنے کے لیے انہوں نے نہ صرف پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کو خوفزدہ کر کے جلا وطن ہونے پر مجبور کر دیا بلکہ 'غیر جماعتی انتخابات‘ کے نتیجے میں تشکیل پانے والی 'جمہوری حکومت‘ قائم کرنے جیسے اقدامات سے بھی گریز نہ کیا۔ ان کی اصل اپوزیشن وہ تھی جس کے نتیجے میں 17اگست 1988ء کا Exploding Mangoes والا سانحہ پیش آیا۔ اس کے بعد بے نظیر بھٹو جمہوریت کے سنگھاسن پر بیٹھیں تو انہیں دو طرح کی اپوزیشن کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک اپوزیشن نواز شریف والی تھی‘ دوسری وہ جو اُن کے برسرِ اقتدار آنے کے حق میں نہیں تھی۔ ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد انہی دو اپوزیشنوں کا نتیجہ تھا‘ جو نتیجہ خیز ثابت نہ ہو سکی۔ بعینہ نواز شریف کو بھی وزیراعظم بننے کے بعد ویسی ہی اپوزیشنوں کا سامنا کرنا پڑا جن کے ردِ عمل میں انہوں نے کہا تھا 'ڈکٹیشن نہیں لوں گا‘۔ بے نظیر بھٹو دوسری بار برسرِ اقتدار آئیں تو انہیں پھر اُنہی دو اپوزیشنوں کا سامنا کرنا پڑا جنہیں وہ 1988ء تا 1990ء بھگت چکی تھیں۔ اسی طرح اکتوبر 1999ء میں نواز شریف کو وہ 'ڈکٹیشن‘ لینا پڑی جس سے وہ 1993ء میں انکار کرتے رہے تھے۔ پرویز مشرف کا دور دراصل مسلم لیگ (ق) کا دور تھا جس میں اپوزیشن نام کی کوئی چیز موجود نہیں تھی۔ 2008ء تا 2013ء بھی یہی حالت رہی‘ لیکن پھر 2014ء میں خان یک دم سامنے آ گیا اور برسرِ اقتدار پارٹیوں کو اچانک یاد آ گیا کہ اپوزیشن کیا ہوتی ہے‘ اور یہ کہ اپوزیشن کو کسی طور نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ دراصل وہ خان کی اپوزیشن (یا حکومت) سے بچنے کے لیے ہی ایک دوسرے سے ہاتھ ملانے پر مجبور ہوئے تھے۔
حالیہ فیصلوں کے بعد لگتا ہے کہ اتحادی حکومت کو ایک نئی قسم کی اپوزیشن کا سامنا کرنا پڑے گا اور یوں پاکستان کی جمہوری سیاست‘ جس کے بارے میں راوی کو چین ہی چین لکھنا چاہیے تھا‘ اس دوپٹے جیسی نظر آتی رہے گی‘ جو سائیکل یا موٹر سائیکل کی چین میں آ چکا ہو اور ارد گرد کھڑے لوگ یہ مشورے دے رہے ہوں کہ یہ نکلے گا کیسے ۔