کیا آپ کو ایلان کُردی (Alan Kurdi) یاد ہے؟ ہونا چاہیے‘ لیکن اگر نہیں یاد تو میں یاد دلا دیتا ہوں۔ ایلان کُردی شام کا کُرد نسل کا وہ بچہ تھا جو ستمبر 2015ء میں اپنے خاندان کے ہمراہ کشتی میں یورپ کی طرف سفر کے دوران کشتی ڈوبنے سے جاں بحق ہو گیا تھا۔ اس کے والد عبداللہ کُردی نے انسانی سمگلروں کو اس مقصد کے لیے بھاری رقم ادا کی تھی کہ وہ اس کے خاندان کو ایک کشتی کے ذریعے ترکی سے یونان کے ایک جزیرے پر پہنچائیں گے۔ اس خاندان کو انسانی سمگلروں کی طرف سے مہیا کی گئی ربڑ کی کشتی میں ایلان‘ اس کا بھائی غالب‘ والدہ ریحانہ‘ والد عبداللہ کُردی اور کئی دیگر تارکینِ وطن سوار تھے۔ یہ کشتی طوفانی لہروں کی وجہ سے سمندر میں ڈوب گئی تھی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ربڑ سے بنی اس کشتی پر گنجائش سے دوگنا افراد سوار تھے جس کی وجہ سے یہ سانحہ پیش آیا۔ اس واقعے میں ایلان‘ اس کا بھائی اور اس کی والدہ سمندر میں ڈوب گئے تھے جبکہ اس کا والد زندہ بچ گیا تھا۔ پھر ایلان کُردی کی ننھی لاش کو سمندر کی لہروں نے ترکی میں بودرم کے ساحل پر لا پھینکا تھا۔ اس بچے کی لاش کی دنیا بھر میں گردش کرنے والی تصویریں عالمی ضمیر کے لیے ایک بڑا دھچکا اور انتہائی تکلیف دہ منظر ثابت ہوئی تھیں۔ اس کے ردِ عمل میں شام اور کُرد علاقوں سے ہجرت کرنے والوں کے لیے یورپ نے اپنی سرحدیں کھول دی تھیں اور مہاجرین کو ہر طرح کی سہولتیں فراہم کی تھیں۔
کہاں گیا وہ یورپ اور انسانی حقوق کی علمبردار وہ عالمی تنظیمیں جو ایک ایلان کُردی کی لاش کو دیکھ کر تڑپ اُٹھے تھے؟ فلسطین میں ایک قیامت برپا ہو گئی اور روئے ارض پر کوئی اسرائیل کا ہاتھ نہ روک سکا‘ زخمی ہوتے بچوں کے زخموں پر مرہم نہ لگا سکا‘ یتیم ہوتے بچوں کی اشک شوئی نہ کر سکا۔ ایلان کُردی جیسے گیارہ ہزار بچے اسرائیلی بارود کا نشانہ بن گئے‘ لیکن عالمی سطح پر کہیں کوئی بڑی کسک مشاہدے میں نہیں آئی۔ پوری دنیا کے ممالک میں عوام احتجاج کر رہے ہیں‘ عالمی برادری کی توجہ اسرائیل کی چنگیزیت کی طرف دلا رہے ہیں‘ اس ظلم کو بند کرنے کے مطالبات پر مبنی مظاہرے کر رہے ہیں‘ لیکن عالمی ضمیر ایسا سویا پڑا ہے کہ جاگنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ زیادہ سے زیادہ اسرائیل کے خلاف کوئی قرار داد منظور کر لی جاتی ہے اور بس۔ وہ قرار داد بھی تب منظور ہو پاتی ہے جب امریکہ اس معاملے پر توجہ نہ دے‘ ورنہ منظور ہونے سے پہلے ہی ویٹو کر دی جاتی ہے۔ ذرا اندازہ لگائیے امن اور انصاف کا علمبردار امریکہ اسرائیل کے خلاف کتنی قراردادوں کو ویٹو کر چکا ہے۔ امریکی انتظامیہ بار بار اپنا یہ مؤقف دہرا رہی ہے کہ اسرائیل کو اپنے تحفظ کا حق حاصل ہے‘ کوئی اس معاملے پر توجہ نہیں دیتا کہ فلسطین کو اسرائیل کے خلاف کارروائی پر کس نے مجبور کیا تھا۔ کسی کی توجہ 75برسوں سے جاری اسرائیل کی توسیع پسندی کی طرف نہیں جاتی جس نے فلسطینیوں کو دیوار کے ساتھ لگا دیا ہے۔
سات اکتوبر کو فلسطین (غزہ) پر اسرائیلی حملے اور پھر مسلسل گولہ باری و میزائل باری کے نتیجے میں اب تک 42 ہزار افراد شہید ہو چکے ہیں‘ جن میں بچوں کی تعداد 11 ہزار اور خواتین کی تعداد چھ ہزار ہے۔ ان کی اوسط نکالی جائے تو اس ایک سال میں روزانہ 115 فلسطینی شہید کیے گئے جن میں 30 بچے اور 16 خواتین (روزانہ) شامل ہیں۔ ان میں وہ بچے‘ خواتین اور دوسرے افراد شامل نہیں جو اب تک لاپتا ہیں یا جو ملبے کے نیچے دب کر مر چکے ہیں۔ ان کی تعداد کم و بیش 20 ہزار بتائی جاتی ہے۔ معروف طبی جریدے The Lancet کے مطابق براہِ راست کے ساتھ ساتھ بالواسطہ اموات جیسے بھوک سے ہونے والی اموات‘ ایندھن یا توانائی کے ذرائع نہ ہونے کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال کے نتیجے میں ہونے والی اموات اور میڈیکل کی سہولتیں نہ ملنے کی وجہ سے ہونے والی اموات کو شامل کیا جائے تو غزہ میں ہونے والی کل شہادتوں کی تعداد ایک لاکھ 86 ہزار تک ہو سکتی ہے۔ غزہ میں سویلین انفراسٹرکچر مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے یا اسے جزوی طور پر‘ لیکن شدید نقصان پہنچا ہے۔ 68 فیصد زرعی اراضی اور سڑکیں تباہ ہو چکی ہیں۔ صرف 17 سے 36 فیصد ہسپتال باقی بچے ہیں اور وہ بھی جزوی طور پر کام کر رہے ہیں کیونکہ ان میں ایندھن کی کمی ہے‘ طبی وسائل ضرورت سے بے حد کم ہیں اور وہاں پینے کا صاف پانی بھی دستیاب نہیں ہے۔
پچھلے پورے سال کے دوران اسرائیل کی جانب سے بین الاقوامی انسانی قوانین (International Humanitarian Law)کی شدید ترین خلاف ورزیاں کی گئیں۔ اس دوران فوجی اور سویلین اہداف کو بے دردی اور نہایت بے رحمی کے ساتھ نشانہ بنایا جاتا رہا‘ جس کا اندازہ غزہ کے علاقے میں ہونے والی تباہی سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے حتیٰ کہ محفوظ قرار دیے گئے علاقوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ اسرائیل کی جانب سے فوجی طاقت کے بے رحمانہ استعمال کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ پچھلا پورا سال گھروں پر اوسطاً ہر چار گھنٹے بعد بمباری کی گئی‘ پناہ گزین کیمپوں اور عارضی پناہ گاہوں پر اوسطاً ہر 17گھنٹے بعد حملے کیے گئے‘ سکولوں اور ہسپتالوں کو ہر چار گھنٹے بعد نشانہ بنایا گیا‘ جنگ زدہ علاقوں میں امداد کی تقسیم کے لیے بنائے گئے پوائنٹس پر اوسطاً ہر پندرہ دن بعد ایک حملہ کیا جاتا رہا۔ یہ حملے نہیں ہیں بلکہ انسانیت کے خلاف وہ سنگین جرائم ہیں جن کی مثال تاریخِ انسانی کے وحشیانہ ادوار میں بھی نہیں ملتی ہو گی۔ حیرت اس بات پر ہے کہ وہ جنہوں نے فیصلے کرنے ہیں‘ مہر بلب ہیں جبکہ انسان‘ انسانیت اور انسانی حقوق کا پرچار کرنے والے زبانی کلامی اسرائیل کی مذمت کر رہے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ بھی قرار دے رہے ہیں کہ اپنا تحفظ کرنا اسرائیل کا حق ہے۔ یہی نہیں عالمی امن کا بھاشن دینے والے ممالک اور ان کی قیادت‘ دونوں اسرائیل کو متواتر اسلحہ فراہم کر رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا فلسطینیوں کو اپنے دفاع کا کوئی حق نہیں ہے جن کی سرزمین پر قبضہ کیا گیا اور جنہیں بے وطن اور بے گھر کیا جا رہا ہے؟
پیر کے روز ایوانِ صدر میں مظلوم فلسطینیوں سے اظہارِ یکجہتی کیلئے منعقدہ آل پارٹیز کانفرنس میں مطالبہ کیا گیا کہ اسرائیل کو بین الاقوامی اور جنگی قوانین کی دھجیاں بکھیرنے اور نسل کشی کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے اور غزہ میں فوری جنگ بندی کی جائے۔ اے پی سی کے اعلامیہ میں کہا گیا کہ مسئلہ فلسطین کو اقوام متحدہ اور او آئی سی کی قراردادوں کے مطابق حل کیا جائے اور غزہ کے محاصرے کو ختم کیا جائے۔ اعلامیہ میں کہا گیا کہ حال ہی میں اسرائیل کی طرف سے لبنان میں کی جانے والی جارحیت‘ غزہ میں حملوں‘ حماس کے رہنما کی تہران اور لبنان میں حزب اللہ کے سربراہ کی شہادت خطے میں امن کی صورتحال کو خراب کر رہی ہے۔ کانفرنس کے اعلامیے میں فلسطینیوں کے حقِ خودارادیت کی غیر مشروط حمایت کا اعلان اور مسئلہ فلسطین کو اقوامِ متحدہ اور او آئی سی کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے پر زور دیا گیا۔
پاکستان کی جانب سے غزہ اور لبنان کے مسلمانوں کے حق میں صائب آواز بلند کی گئی ہے‘ لیکن یہ آواز اسی وقت بلند آہنگ ہو گی جب دوسرے ممالک کی آواز بھی اس آواز میں شامل ہو گی۔ آخر کیا وجہ ہے کہ باقی جس جس ملک پر پابندیوں کی ضرورت پیش آتی ہے‘ اس پر فوری پابندی لگ جاتی ہیں یا لگا دی جاتی ہیں‘ ایک اسرائیل ہے جس کے سامنے باقی ساری دنیا بے بس نظر آتی ہے۔ انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے اس بے بسی کو ختم کرنے کی اشد ضرورت ہے۔