بلند آہنگ اضطراب کی خبر دیتا ہے۔لہجوں کی بڑھتی تلخی کے پیچھے تصادم کا اندیشہ ہے، اوراس میں نقصان سراسر حکومت کا ہے۔
اپوزیشن کا کل بوجھ خان کے کاندھوں پر ہے۔2013 ء کے بعد پی پی کا کردار مصلحت پسندانہ رہا، اب اُسے موقعے کی تلاش ہے۔ خان نے گزشتہ چار برس میں جو غلط فیصلے کیے، اُن کے پیچھے جذباتیت بھی تھی ،اور مسند اقتدار تک پہنچنے کی خواہش بھی۔روایتی اور کرپشن زدہ سیاست دانوں کا انتخاب، جلسوں کی سیاست پر انحصار،الزامات کا بے انت سلسلہ؛ مقبولیت میں کمی آئی ہے، تو حیران کن نہیں۔کراچی میں تو گویاصفایا ہوگیا۔ ایسے میں ن لیگ کو مطمئن و مسرور ہونا چاہیے تھا، مگر معاملہ اِس کے برعکس ہے۔
دس ارب کی پیش کش کے لا حاصل انکشاف کے بعد،نااہلی کیس میںغیرملکی فنڈنگ کی منی ٹریل پیش کرنے میںخان کو درپیش دقتوں کے بعد، پی پی کے گرتے گراف کے بعد، بالخصوص ڈان لیکس سے نبردآزما ہونے کے بعد یہ تاثر ابھرنے لگا تھا کہ ن لیگ مسائل کے بھنورسے نکل آئی ہے۔جب سپریم کورٹ کی جانب سے پاناما کیس کے فیصلے میں جے آئی ٹی بنانے کا حکم دیا گیا ، تب بھرپورجشن منا کراس تاثر کوقوی کرنے کی کوشش کی گئی کہ حکومت سرخرو ہوئی ہے۔ راقم الحروف کااس وقت یہی موقف تھا کہ حکومت پر دبائو کم ضرور ہوا ہے، مگر ختم نہیں ہوا، خطرہ ابھی ٹلا نہیں ہے۔ بدقسمتی سے یہ اندازہ درست ثابت ہوا۔
کچھ حلقوں کا خیال تھا کہ جے آئی ٹی سیاست کے غصیل سمندر میں فقط ایک کنکر ثابت ہوگی، مگر جوں جوں وقت گزرا، یہ خیال کم زور پڑتا گیا۔اب تو یوں لگتا ہے کہ یہ تفتیشی ٹیم ، جسے سپریم کورٹ کی مکمل حمایت حاصل، کسی نئے طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے۔پہلے پہل حکومتی وزرا کے لہجے سخت ہوئے،طریقۂ کار اورجے آئی ٹی ارکان پر انگلیاں اٹھائی جانے لگیں۔
وزیر اعظم کے صاحب زادے حسین نواز کی جانب سے ٹیم کے ارکان بلال رسول اورعامر عزیز پر سیاسی وابستگی اور شریف خاندان کے خلاف پرانے مقدموں کی تفتیش کا حصہ ہونے کے باعث اعتراضات کیے گئے تھے، جنھیں جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے مسترد کر دیا۔تنائو بڑھ رہا تھا۔البتہ ہیجان کا نقطۂ ابال ن لیگ کے راہ نما، نہال ہاشمی کی سخت اور ڈرامائی تقریر تھی،جس میں وہ میاں صاحب کا احتساب کرنے والوں پر زمین تنگ کرنے کی دھمکی دیتے نظر آئے۔یہ تک کہا: تمھارا وہ حشر کریں گے کہ تمھاری نسلیں یاد رکھیں گی۔ حالات بگڑ گئے۔ جج صاحبان نے حکومت کو سیسیلین مافیا سے تشبیہ دی، توحکومتی ترجمان نے ان ریمارکس کو معزز ججز کے حلف کی خلاف ورزی قرار دے دیا۔
وہ قومیں جنھوں نے فقط کمزوروں کوسزا دی، اور طاقتوروں کو معاف کیا، صفحۂ ہستی سے مٹ گئیں۔وزیر اعظم کے بیٹوں کا تفتیشی ٹیم کے سامنے پیش ہوناایک مثبت قدم ہے۔اِس کا سہرا فقط عدلیہ اور اپوزیشن(عمران خان) کے سر نہیں، یہ درحقیقت جمہوریت کی دین ہے۔ جمہوریت، جس سے اِس ریاست کا مستقبل وابستہ ۔اس معاملے میں میاں نواز شریف کا تحمل بھی قابل ستائش ، جو ماضی کے تلخ تجربات سے بہت کچھ سیکھ چکے ہیں۔البتہ نہال ہاشمی کے بیان کے بعد حالات تیزی سے تبدیل ہوئے ۔تجزیہ کار یہ کہتے دکھائی دیے کہ اُنھیں اپنے قائدین کی آشیرباد حاصل تھی۔اعتزاز احسن سمیت اپوزیشن کے بیش تر لیڈروں کا موقف یہی۔ گواس کی تصدیق ممکن نہیں، مگر جج صاحبان کے سخت ریمارکس کے جواب میں حکومتی ترجمان کا ردعمل اِس موقف کو تقویت پہنچاتاہے۔ معاملہ یہ پرخطر ہے۔ لہجوں کی تلخی بڑھ رہی ہے۔آہنگ بلند ہوتا جارہا ہے، جو اضطراب کی خبر دیتا ہے، اوراس میں نقصان سراسر حکومت کا ہے۔
ن لیگ کی موجودہ سرکار نے دھرنے اور ڈان لیکس سمیت کئی بحرانوں کا سامنا کیا۔کٹھن مسائل خوش اسلوبی سے نمٹائے۔ ماڈل ٹائون سانحہ، نئے آرمی چیف کی تعیناتی، ہندوستان سے تعلقات اور سی پیک اِس کی چند مثالیں۔ مناسب یہی کہ جے آئی ٹی کے معاملے میںتصادم سے بچا جائے، تحمل اور تدبیرسے کام لیا جائے۔ ابھی اورکئی اہم محاذ ہیں، جن میں کلیدی سینیٹ کا انتخاب ہے۔ ضیا دور کے بعد قائم ہونے والی تین سیاسی حکومتیں بیک وقت دونوں ایوانوں میں یوںاکثریت حاصل نہ کرسکیں کہ یہ مرحلہ آنے سے قبل ہی ۔۔۔اسمبلیاں توڑ دی گئیں۔ ہاں، میاں صاحب کی دوسری حکومت نے یہ مرحلہ طے کر لیا تھا، مگراس سے حاصل ہونے والی سیاسی طاقت مشرف آمریت پر منتج ہوئی۔ اچھا،اُسی دور میںسپریم کورٹ پر حملہ ہواتھا۔ یہ نکتہ بھی یاد رکھیں کہ گزشتہ چار عشروں میں کوئی سیاسی جماعت لگاتار دو بار الیکشن جیتنے میں کامیاب نہیں ہوئی۔ہاں، بھٹو صاحب نے یہ کرشماکر دکھایا تھا،مگر اس کے بعدملک میں فسادات پھوٹ پڑے ، ضیا الحق نے حکومت کو تختہ الٹ دیا،اور وعدہ خلافی کا عہد شروع ہوا۔
قصۂ مختصر شریف برادرزکو اپنے سیاسی تجربے کو بروئے کار لاتے ہوئے اس مسئلے کا حل تلاش کرنا ہوگا۔ اگر معروضی حالات کو پیش نظر رکھیں، تو سینیٹ اور آئندہ انتخابات میںن لیگ کا پلہ بھاری ہے۔ وہ دونوں ایوانوں میں کامیابی حاصل کرکے لگاتار دوسری بار وفاق میں حکومت بنا سکتی ہے۔ پی پی نے اپنی گزشتہ حکومت کے آخری برسوں میں سیاسی شہید بننے کی بھرپور کوشش کی، مگر عسکری قیادت کی دانش مندی کی وجہ سے یہ بیل منڈھے نہیں چڑھی۔امید ہے، ایسا کوئی نسخہ ن لیگ قیادت کے پیش نظر نہیں ہوگا۔ سپریم کورٹ پر حملے والا تو قطعی نہیں۔وہ اس کے بغیر انتخابی مراحل میں کامیابی حاصل کرسکتی ہے۔ ضرورت ہے تدبیر اورتحمل کی۔لہجوں کو تلخی سے پاک رکھنا ہوگا، احتیاط کا دامن تھامے ہوئے سنبھل سنبھل کر آگے بڑھنا ہوگا۔عسکری، عدالتی اور سیاسی نظام کی مضبوطی ہی ترقی کی ضامن ہے۔ اور پھر ایسے حالات میں جب بھارت کی سازشیں عروج پر ہیں، افغانستان اور ایران کا لہجہ دھمکی آمیز، امریکا سے تعلقات میں سردمہری،سی پیک جیسا میگا پراجیکٹ ملک میں جاری،اورمزید دھرنے متوقع ؛ وزیر اعظم کی ذمے داری بڑھ جاتی ہے۔
اگر ن لیگ جے آئی ٹی سے بچ نکلی، تو زرداری صاحب کے دعوے اور عمران خان کے ارادے، دونوں بے کار جائیں گے۔ عوام پھر میاں صاحب کے حق میں فیصلہ سنادیں گے، وفاق پھر شریف خاندان کے پاس ہوگا، لیکن اگر اداروں سے تصادم کے نتیجے میں حکومتی ساکھ کو نقصان پہنچا، اس نے اعتماد کھو دیا، تو ووٹ کے ذریعے اُس کی بحالی ذرامشکل ہے۔ تمام اسٹیک ہولڈرز، بالخصوص میڈیاکو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ جب تک کوئی شخص مجرم ثابت نہیں ہوتا، وہ بے قصور ہے۔ معاملہ برابری کی سطح پر ہونا چاہیے۔ عمران خان اور حسین نواز کے لیے یکساں اصول ہیں۔ساتھ ہی ن لیگ کو بھی جاوید لطیف اور نہال ہاشمی جیسے افسوس ناک کیسز میںہمیشہ سخت ترین موقف اختیار کرنا چاہیے۔ یہی وقت کا تقاضا ہے۔