جس وقت یہ سطریں لکھی جارہی ہیں، روشنیوں کے شہر کے کئی گوشے تاریکی میں ڈوبے ہیں، اور جب آپ یہ تحریر پڑھ رہے ہوں گے۔۔۔ شہر کا کوئی حصہ اندھیرے میں اتر رہا ہوگا۔ یہی اِس شہرکا مقدر ہے۔
اِس تحریر کاموضوع جے آئی ٹی نہیں، جس سے جڑا ہر فرد، ہر عمل آج پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کا محور بن گیا ہے۔گذشتہ ہفتے کئی اہم واقعات ہوئے ۔ میاں نواز شریف کے بعد اب شہباز شریف بھی جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوچکے ہیں۔ جس فوری تصادم کی توقع کی جارہی تھی،وہ نہیں ہوا۔میاں صاحب کا سیاسی تجربہ کام آیا۔ البتہ طاقت کا ڈیڈلاک پیدا ہونے کا خطرہ ٹلا نہیں ہے۔ نہ تو تفتیشی ٹیم مطمئن ہے، نہ ہی ن لیگ۔ دونوں ایک دوسرے سے نالاں ہیں، ایک دوسرے پرسنگین الزامات عاید کر رہے ہیں۔ الزامات، جواِس اندیشے کو بڑھاوا دیتے ہیں کہ آج نہیں تو کل، حکومت کرنے کے عمل میں تعطل پیدا ہوسکتا ہے۔وزیر اعظم کی نااہلی بھی تجزیہ کاروں میں زیربحث ہے۔کیا یہ انتہائی اقدام جمہوریت کے لیے نیک شگون ثابت ہو گا؟ یاد رہے، یہ جمہوریت ہی ہے، جس میں آپ یوسف رضا گیلانی کو نااہل قرار دے سکتے ہیں،راجا پرویز اشرف کو کٹہرے میں کھڑا کرسکتے ہیں، نواز شریف کو جے آئی ٹی کے سامنے طلب کرسکتے ہیں۔مشرف دور میں جب پاکستانی تاریخ کی مضبوط ترین عدلیہ نے ایسی کوشش کی، تو نتیجہ ایمرجنسی کی صورت نکلا تھا۔
اس ہفتے جے آئی ٹی کے بعد دوسرا گرما گرم موضوع چیمپیئنز ٹرافی رہا۔آٹھویں نمبر کی ٹیم نے حیران کن کارکردگی کا مظاہرہ کیا، اور فائنل تک جا پہنچی۔ پرتکبر بھارتی ٹیم سے ٹکرانے کے لیے، جوکچھ ہفتے قبل اُس سے کھیلنے سے انکاری تھی۔ باربار سیریز منسوخ ہوئی۔ سرفراز احمد کی قیادت میں یہ کارنامہ انجام دینے والی ٹیم جہاں تعریف کی حق دار ، وہیں پاکستان کرکٹ میں ایک بار پھر ابھرتی پنجاب اور کراچی کی خلیج قابل تشویش ہے۔ سرفراز احمدکسی ایک شہر کا نمائندہ نہیں، پورے پاکستان کا کپتان ہے۔ رائے عامہ کے نمائندوں کو، کالم نگار، سماجی مبصرین کو اس بابت لکھتے اور اظہار خیال کرتے ہوئے توازن کا دامن تھامے رکھنا چاہیے۔
اب جے آئی ٹی اور چیمپیئنزٹرافی جیسے پرتجسس موضوعات چھوڑ کرتوجہ کراچی پر مرکوز کرتے ہیں۔روشنیوں کے شہر پر، جو دھیرے دھیرے مر رہا ہے۔ اِس شہر کے المیوں کی فہرست طویل، مگر اس سمے سب سے بڑا المیہ لوڈشیڈنگ ہے۔ بجلی اب زندگی کا ایندھن ہے، جس کی بندش پاکستان کی اس معاشی شہ رگ کے لیے سم قاتل۔ اس ضمن میں کئی دعوے کیے گئے، احتجاج ہوا، مگر کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ تنقید سے تنگ آکر صوبائی حکومت نے اپنی توپوں کا رخ وفاقی حکومت کی جانب کر لیا، جو یہ موقف دہرارہی ہے کہ جن جن علاقوں میں ریکوری ہوتی ہے، وہاں لوڈشیڈنگ نہیں کی جارہی۔سندھ کے مانند خیبرپختون خوا کو بھی یہی جواب دیا گیا۔ شاید وفاق کا موقف درست ہو۔ شاید یہ نظریہ بھی ٹھیک ہی ہو کہ حکومت کا کام ادارے چلانا نہیں،اور خدمات فراہم کرنے والے سیکٹرز کی نجکاری ایک دانش مندانہ اقدام ہے، مگر دست بستہ عرض کروں، یہ اصول ترقی یافتہ ممالک پر تو لاگو ہوسکتا ہے، پاکستان جیسے ملک میں، جہاں کرپشن اور غفلت عام، بنیادی سہولیات فراہم کرنے والے ادارے حکومت کی تحویل میں ہونے چاہییں۔ اور چیک اینڈ بیلنس کا منظم و مربوط نظام ہو۔ ادھر ہونے والے گھپلوں پر بھی جے آئی ٹی بنائی جائے۔عوام کی زندگی براہ راست ان مسائل سے جڑی ہے۔ اس وقت کراچی میں پانی کا شدید بحران ہے۔ کتنے ہی علاقے پانی کو ترس رہے ہیں۔ وہاں کے باسی ذہنی مریض بن چکے ہیں۔ شہر میں بورنگ کی وبا چل پڑی ہے۔ حکومت خاموشی تماشائی بنی ہے۔ کیا کسی نے سوچا ہے، جب ہم زیر زمین پانی نکال لیں گے، مٹی میں خلا بن جائے گا، تو کیا نتیجہ نکلے گا؟ شہر کے بے ترتیب، گنجان علاقوں میں خوف ناک Sinkhole ظاہر ہونے لگیں گے۔ وہ تباہی ، جس سے نمٹنے کے لیے ہماری انتظامیہ قطعی تیار نہیں۔اس پھیلتے بکھرتے شہر میں یوں بھی ڈیزاسٹر مینجمنٹ کا کوئی تصور نہیں۔ چند منزلہ عمارتوں میں لگنے والی آگ نہیں بجھائی جاتی، کل زلزلہ آگیا، تو جانے اس شہر کا کیا ہو۔
کراچی کی سڑکوں کی خستہ حالی، قدم قدم پر موجود گڑھوں ، جگہ جگہ پڑے کچرے اور ابلتے گٹروں پر اتنا
کچھ لکھا جاچکا ہے کہ مزید کچھ کہنا لاحاصل معلوم ہوتا ہے۔ کتنی ہی مہمات چلیں، کتنی بار آواز اٹھائی گئی، ہر پلیٹ فورم سے نشان دہی ہوئی، مگر خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلا۔ یہ سڑکیں، یہ کچرا، یہ کیچڑ شہر کے چہرے پر بدنما داغ ہیں، جنھوں نے یہاں بسنے والی دو کروڑ زندگیوں کو ارزاں اور بے وقعت کر دیا ہے۔ ان ہی مسائل سے ٹریفک جام جنم لیتا ہے۔ گو'' فکس اٹ ‘‘کے عالم گیر کی کوششیں بعد میں سیاسی ہوگئیں، اور ان میں ذاتی تشہیر کا رنگ در آیا، مگر وہ نوجوان مسائل کی جانب توجہ مبذول کروانے میں کامیاب رہا۔ شہر کو اس نوع کی مزید کاوشوں کی ضرورت ہے۔ گذشتہ چار برس سے جاری آپریشن کراچی میں امن ضرور لایا، بے شک ایم کیو ایم، اے این پی اور پی پی پی کے عسکری ونگ کمزور ہوئے، بکھر گئے۔ ادھر انتہا پسند تنظیموں کی سرگرمیوں میں بھی واضح کمی آئی۔اس کا کریڈٹ قانون نافذ کرنے والے اداروں، کور کمانڈر کراچی اور ڈی جی رینجرزکو جاتا ہے۔ہاں، اسٹریٹ کرائمز کے عفریت پر پوری طرح قابو نہیں پایا جاسکا، مگر حالات 2013 کی نسبت بہتر ہیں۔ البتہ انتظامی بگاڑ ،گورنس کے مسائل امن کی کوششوں کو سبوتاژ کرسکتے ہیں۔
زندگی کے باقی شعبے بھی بدحالی کا شکار ۔ سرکاری اسکول تباہ ہوئے، بے روزگاری عام ہے، عدم تحفظ کے احساس میں کچھ کمی ضرور آئی، مگر ابھی مزید اقدامات کی ضرورت ۔ انصاف کی عدم فراہمی اور شعبۂ صحت کی بدحالی کے لیے الگ دفتر درکار۔ اچھا،اِن گوناگوں مسائل سے نہ تو سندھ حکومت نمٹ سکتی ہے، نہ ہی میئر کو ملنے والے اختیارات سے یہ حل ہوں گے۔ سندھ حکومت تو یوں بھی کراچی کی بابت سنجیدہ نہیں۔ پی پی پی کا اصل ووٹ بینک سندھ کے دیہی علاقے ہیں۔کراچی کو اون کرنا،اس کے باسیوں کو مطمئن کرنا اس کی انتخابی ضرورت نہیں۔ اگر میئر کو اختیار ات مل بھی گئے، تب بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ یاد رہے، ایم کیو ایم نے مشرف دور میں پرفارم کیا تھا،یعنی جب اسے وفاق کی مکمل سرپرستی حاصل تھی۔اس چھتری کے بغیر میگا پراجیکٹ کی تکمیل دشوار ہے۔ آج بھی اِس مرتے ہوئے شہر کو ایک وفاقی جماعت کی ضرورت ہے۔ ایسی جماعت جو مرکز میں حکومت میں ہو۔ کراچی سے متعلق چند انقلابی اقدامات بھی ضرور ی۔ دنیا کے کئی ممالک آبادی کے لحاظ سے کراچی سے چھوٹے ہیں۔ تواسے انتظامی بنیادوں پرالگ یونٹ بنانے میں، یہاں تک کہ مزید شہروںمیں تقسیم کرنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں۔ ملیر، جو کراچی کا حصہ ہے، اس کا رقبہ پاکستان کے کئی شہروں سے زیادہ ہے۔
کراچی کی بدبختی کا آغازاُس روز ہواتھا، جب ایوب دور میں یہاں سے دارالحکومت منتقل کیا گیا۔ اوائل میں یہ کیپٹل کی زیر نگرانی رہا۔ وہ دور غنیمت تھا۔جب ون یونٹ ختم ہوا، تب کلی طور پر سندھ کی حدود میںآگیا۔بعد کی کہانی تاریخ کا حصہ ہے۔ گزشتہ کئی عشروں سے یہ شہر دھیرے دھیرے مر رہا ہے۔اوریہ ققنس نہیں ہے کہ اپنی راکھ سے پھر جی اٹھائے گا۔ اسے اندھیروں سے نکالنے کے لیے چند کڑے اور کڑوے فیصلے کرنے ہوں گے، جن کی فوری امید نہیں کہ فی الحال سرکار کو پاناما کیس درپیش ہے۔