"IKC" (space) message & send to 7575

عید، المیہ اور شہر سرفراز

ہم سرفراز احمد کے گھر کے باہر تھے، جب کراچی میں پولیس اہل کاروں پر حملے کی اطلاع ملی!
یہ کراچی کے ضلع وسطی کا ایک متوسط علاقہ ہے۔چار سو گز کے ترتیب سے بنے ہوئے مکانات۔ درمیان میں کشادہ سڑک، جس پر تازہ تازہ استر کاری ہوئی تھی۔ دونوں داخلی حصوں پر پولیس موبائلیں کھڑی تھیں، مگر آنے جانے والوں کی تلاشی نہیں لی جارہی تھی۔ پاکستان کو آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی جتوانے والا کپتان اطمینا ن سے، اپنے پرانی طرز کے بنگلے کے دروازے پرکھڑامداحوں سے مل رہا تھا۔اِس سڑک نے 18 جون کے بعد وہ مناظر دیکھے ، جن کی پاکستان کی حالیہ تاریخ میں نظیر نہیں ملتی۔ جب سرفراز احمد ٹرافی لیے لوٹا، تو یہاں ہزاروں افراد استقبال کو موجود تھے۔ نعرہ تکبیر اور پاکستان زندہ باد کے نعروںسے درودیوار ہلتے محسوس ہوتے۔اس سسکتے شہر کو نیا ہیرو مل گیا تھا، جو حافظ قرآن تھا، اور ان ہی گلیوں میں پلا بڑھا تھا۔۔۔ہماری رہایش نزدیک ہی ہے۔ میرا بیٹا اپنے قومی ہیرو کے آٹو گراف کا متمنی تھا۔جب کچھ روز گزر گئے، اور رش کچھ کم ہوا، تو میں اُسے لیے پہنچ گیا۔ چھوٹے سے مجمع کے درمیان سرفراز کو دیکھا جاسکتا تھا۔ آٹو گراف لینے کے بعد میرے بیٹے کی آنکھوں میں خوشی دمک رہی تھی،اور ٹھیک ان ہی لمحات میں موبائل کی نیوز ایپ نے خبر سنائی کہ کراچی میں فائرنگ کا واقعہ ہوا ہے۔
ایسے میں جب عید کا سماں ہو، آپ اہل خانہ اور دوستوں سے بغل گیر ہورہے ہوں، کرب کا تذکرہ کرناکچھ مناسب نہیں لگتا، مگر کیا کیجیے کہ مجبوری ہے۔ شاید دہشت گردوں نے اِسی لیے یہ تاریخ چنی۔ چیمپئنز ٹرافی کی جیت سے سرشار، عید کی منتظر پاکستانی قوم کے عزم کو نشانہ بنایا گیا۔ جمعۃ الوداع کے بابرکت دن تین حملے ہوئے۔کوئٹہ میںتیرہ افراد اپنی جان سے گئے۔ پھر پارا چنارپر قہر اترا۔ دو دھماکے، درجنوں افراد اپنے اہل خانہ کو سوگوار چھوڑ گئے۔اب کراچی میں پولیس اہل کاروں کو نشانہ بنایا گیا۔ یقینی طور پر دہشت گردوں نے بھرپور تیار ی کی تھی۔ جب جب یوں محسوس ہوتا کہ ہم نے اُن کی کمر توڑ دی ہے، وہ بھرپور حملہ کرکے اپنی موجودی اور اس خطرے کا، جو ابھی ختم نہیں ہوا، پھر احساس دلا دیتے ہیں۔۔۔بے شک فوجی آپریشنز نے امن و امان کی صورت حال پر مثبت اثرات مرتب کیے ہیں۔ دہشت گردی میں واضح کمی آئی ، جو ہماری ملٹری قیادت کی پالیسی اور قربانیوں کی دین ہے۔ سول قیادت کو بھی کریڈٹ جاتا ہے۔ فوجی عدالتوں سمیت چندکڑے فیصلے کیے گئے، مگر اب بھی بہت کام باقی ہے۔ ایک نظریاتی آپریشن کی ضرورت ہے ۔ انتہاپسندی ریاست کی رگوںمیں سرایت کر گئی ہے۔اس کے لیے نصاب میں انقلابی تبدیلیاں کی ضرورت ۔ ایک متوازن، غیرمتعصب اور روشن خیال نصاب۔ ہر ادارے کو اِس مشن میں شامل کرنا ہوگا۔ وہ غریب، پس ماندہ اور دور افتادہ علاقے، جہاں اسکول نہیں، ادھربھی مساجد اور مدارس موجود ہیں۔ خاندان معاشرے کی بنیادی اکائی۔ ضیا دور میں اختیار کردہ بیانیے سے نجات اور نئے بیانیے کے اطلاق کے لیے اِس اکائی کو اِس عمل میں شامل کیے بغیر کامیابی ممکن نہیں۔ اِس اکائی کو ہمارے فیصلہ سازوں نے کبھی اہمیت نہیں دی۔ اسی وجہ سے ہم ہنوز ایک ہجوم ہیں، قوم نہ بن سکے۔ عوام کو حکومت پر اعتبار نہیں۔ کچھ کی توجہ کا محور سعودی عرب ، کچھ کی فکر کا مرکز ایران۔ ملا عمر کے دور میں جن طبقات کی افغانستان سے امیدیں وابستہ ہوئیں، وہ اب بھی قائم ہیں۔کسی کو امریکا کی خوشنودی مقصود، کسی کو برطانیہ کی توجہ درکار۔ ہم سب کچھ ہیں، ماسوائے پاکستانی کے۔ ایسے میں یہ کرکٹ ہے ، جو لسانی، مذہبی اور سیاسی طبقات میں بٹی قوم کو، کچھ دیر ہی کے لیے سہی، ایک کردیتی ہے۔شاید یہ اتحاد دشمن کو گوارا نہیں۔ اِس لیے وہ پلٹ پلٹ کا وار کر رہا ہے۔ اشرافیہ کے بجائے نشانہ عوام ہوتے ہیں، جن کی موت خبر تو بنتی ہے، مگر نظام میں کوئی شگاف نہیں ڈالتی۔ یہاں ایک چھوٹے سے گروہ کے پاس تمام مراعات اور اختیارات ہیں۔برابری کا دعویٰ کھوکھلا ہے۔ جارج آرویل کا ناول ''اینیمل فارم‘‘ یاد آتا ہے: ''سب جانوربرابر ہیں، مگر کچھ جانورزیادہ برابر ہیں۔‘‘
امن و امان کے محاذ پر لڑی جانے والی چومکھی جنگ کے علاوہ سیاسی میدان میں بھی گھمسان کا رن پڑا ہے۔ حکومتی ارکان کی جے آئی ٹی کے سامنے پیشی، سپریم کورٹ میں جاری کیس، ن لیگ کے وزراء اور اپوزیشن راہ نمائوں کے بیانات؛ سرگرمی یہ زور شور سے جاری ہے۔جے آئی ٹی کے فیصلے سے تین طرح کے نتائج سامنے آسکتے۔ پہلا: وزیر اعظم اور اُن کے خاندان کو کلیئر قرار دے دیا جائے۔۔۔ یہ فیصلہ اگلے انتخابات میں ن لیگ کی کامیابی پر تصدیق کی مہر ثبت کر دے گا۔ دوسرا: ایسی صورت حال پیدا ہوجائے کہ وزیر اعظم کو فوری الیکشن کروانے پڑیں۔۔۔ اس صورت میںن لیگ کو نقصان پہنچے گا، کچھ سیٹیں بھی کھونی پڑیں گی، مگر دیگر جماعتیںبھی واضح اکثریت حاصل نہیں کرسکیں گی۔ تیسرا: وزیر اعظم کو نااہل قرار دے دیا جائے۔۔۔ تیسرا فیصلہ انتہائی ہوگا، آئینی اداروں کے آمنے سامنے آنے کے بعد اور طاقت کا تعطل پیدا ہونے کے بعد بہت سے سینئر اور باخبر تجزیہ کار اِسے امکانی قرار دے رہے ہیں۔ اگر واقعی اس نوعیت کا کوئی فیصلہ ہوتا ہے۔تو پھر کیا ہوگا؟ کیا کسی بنگلادیش ماڈل کا تجربہ کیا جائے گیا یا فوری انتخابات منعقد کیے جائیں گے؟ دونوں صورتوں میں عمران خان توجہ کا محور ہوں گے ۔ پی ٹی آئی کے فیصلے اہمیت اختیار کرجائیں گے۔ اِدھرپی پی کی ایک اور وکٹ گر گئی۔ فردوس عاشق ایوان اور نذر گوندل کے بعد بابر اعوان بھی عمران کے ہم نوا ہوگئے۔ انھوں نے شیخ رشید کو بھی دعوت دی ہے، قمر الزماں کائرہ سے متعلق بھی اپنی خواہش ظاہر کی ہے۔ ممکن ہے، کچھ افراد یہ اعتراض کریں کہ کپتان روایتی سیاست کا شکار ہوگئے، مگر یاد رہے، پاکستان کی انتخابی سیاست میں یہی کلیہ کارگر ۔ اِن ہی نسخوں کے طفیل علیم خان نے ضمنی انتخابات میں ایاز صادق کے لیے مشکل پیدا کر دی تھی۔یہی نسخے مستقبل میں بھی کام آئیں گے۔ مگر پی ٹی آئی میں شامل ہونے والے افراد سے زیادہ مجھے اُن کا خیال رہتا ہے ، جو پی ٹی آئی سے علیحدہ ہوئے۔ کیسے کیسے کردار تھے۔ معراج محمد خاں جیسا جید نام ، جن کی ولولہ انگیز قیادت نے 70 کی دہائی میں نوجوانوں کو پی پی پی کے پلیٹ فورم پر اکٹھا کر دیا تھا۔ جسٹس وجیہہ الدین احمد جیسا بے داغ شخص خان کو چھوڑ گیا۔اب جسٹس صاحب نے عام لوگ اتحاد(ALI) نامی پارٹی بنائی ہے۔ گذشتہ دنوں معروف ترقی پسند سیاسی کارکن اور معراج محمد خاں کے دیرینہ رفیق اظہر جمیل ساتھیوں سمیت عام لوگ اتحاد کا حصہ بن گئے۔ اظہر جمیل کوسیکریٹری جنرل کا عہدہ سونپا گیا ہے۔ یہ سب مخلوص اور مثبت لوگ ہیں۔ میرا دل جسٹس وجیہہ کی پارٹی کے ساتھ ہے۔ انتخابی سیاست میں اِس نوع کی نظریاتی جماعتوں کے ماضی کوکچھ دیر کے لیے بھول کر میں اِس اتحاد کے لیے دعا گو ہوں۔نئے کپتان سرفراز کی صورت ایک نیا ہیرو ملنے کے بعد یہ شہر نئی سیاسی قیادت کا بھی متقاضی ہے۔ اوریہ وہ خلا ہے، جسے عمران خان پر کرنے میں ناکام رہے ۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں