صاحبو،اوروں کی طرح ہمیں بھی سازشی نظریات پسند ۔
ذرا سوچیے تو، یہ کس قدرپر تجسس ہے، آپ پارک میں بیٹھے ڈوبتے سورج سے لطف اندوز ہورہے ہیں، یکدم ساتھ بیٹھا اجنبی آپ کی طرف جھکے، رازدارانہ انداز میں کہے:''حکومت کی بساط لپیٹنے کا فیصلہ ہوگیا، بس طریقۂ کار طے ہونا باقی ہے۔‘‘ چائے کے ڈھابے پر ایک نوجوان، جواخبار کے صرف اسپورٹس اور شوبز صفحات پڑھتا ہے، سرگوشی میں آپ کو بتائے:'' کسی بھی وقت ایک اعلیٰ حکومتی عہدے دار کو گرفتار کیا جاسکتا ہے۔‘‘ اِسی طرح سرکاری اسپتال کی بینچ پر بیٹھے مریضوں کو تاسف سے سرہلاتے ہوئے93ء کے سیاسی حالات کا موجودہ حالات سے موازنہ کرتے دیکھنا بھی ایک سنسنی خیز عمل ہے۔
چند بزرگ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ صحافیوں کو سازشی نظریات پر کان نہیں دھرنے چاہییں کہ یہ نظریات حقائق کی ضد۔ ظلم کا جواز فراہم کرنے کا طریقہ ہیں۔سچ کی سادگی کو سبوتاژ کرنے کی کوشش ہیں۔ وقت کا ضیاع ہیں صاحب۔ راقم الحروف بزرگوں سے متفق ، مگر کلی طور پر نہیں کہ وہ ایک فکشن نگار ہے۔ تخیل کی دنیا اسے بھاتی ہے۔یوں بھی، بہت سے حقائق افسانوں سے زیادہ افسانوی ہوتے ہیں۔ سچ پرپیچ ہوتا ہے،اور وقت کی کئی جہتیں ہیں۔ 9/11 سے جڑے سازشی نظریات میں کتنے ہی ایسے ، جو عین حقیقی معلوم ہوتے ہیں۔ ان کے حق میں ٹھوس شواہد موجود ہ۔ امریکی فلم میکر اور سماجی مبصر مائیکل مور کی ''فارن ہائٹ 9/11 ‘‘ہمیں یاد، جو جارج بش کی الیکشن میں جیت، امریکی سرکار، بش اور بن لادن خاندان کے تعلقات، عراق جنگ کے لیے گھڑے جانے والے مفروضوں اور امریکی میڈیا کے منافقانہ رویوں کا احاطہ کرتی ہے۔ Dylan Avery کی Loose Change میں اٹھائے جانے والے اعتراضات کا جواب دینے کی بہت کوشش کی گئی،مگر کیا یہ کوششیں اتنی ہی سنسنی خیز ہیں، جتنے اس ڈاکومینٹری فلم میں پیش کردہ مفروضے؟ نہیں جناب، قطعی نہیں۔
سازشی نظریات کے تناظر میں موضوع پاکستان ہو، تو پوری تاریخ پر نظر ڈالنے کی ضرورت نہیں۔ 70 اور 80 کی دہائی بہت ہے ۔ بھٹو کی گرفتاری، پھانسی، افغان وار، ضیا الحق کے طیارے کا حادثے، ہر موضوع پر محمد حنیف کے ناول A Case of Exploding Mangoes جیسی کتاب لکھی جاسکتی ہے، جو انگریزی میں ہووے، تو بیسٹ سیلر ٹھہرے، بین الاقوامی انعامات لے اڑے۔
آج کل بھی سازشی نظریات زوروں پر ہیں۔ میاں صاحب کی پارٹی کیسے ختم ہوگی،جمہوریت کی بساط لپیٹے بغیر کیسے طاقت کا مرکز بدل جائے گا ، کون اگلا وزیر اعظم ہوگا؛ یہی سوالات ان دنوںموضوع بحث۔ اِس شور و غل کی وجہ جے آئی ٹی۔ پاناما کیس کے بعد ن لیگ نے خوشی خوشی مٹھائی بانٹی۔ فیصلے کو اپنی فتح ٹھہرایا۔ اپوزیشن کا رویہ تومحتاط تھا، پی پی نے تحفظات ظاہر کیے، خان بھی منہ میٹھا کرتے ہوئے مسرور دکھائی نہیں دیے۔ مگر کچھ روز بعد وہی تفتیشی ٹیم، جس پرکل تک لطیفے گھڑے جارہے تھے، اتنی طاقت ور ہوگئی کہ حکومتی وزرا کے لہجوں میں جھنجھلاہٹ در آئی۔ جے آئی ٹی ارکان پر اعتراضات اٹھائے گئے، اُن کی سماجی سرگرمیوں، سیاسی وابستگیوں کے تذکرے ہونے لگے، تحریک چلانے کا عندیہ دیا گیا، یہاں تک کہ اس کیس کو پاکستان کے خلاف سازش ٹھہرایا گیا۔ اِس جھنجھلاہٹ کا ایک سبب اپوزیشن بھی ، بلکہ ''سازش ،سازش‘‘ کایہ معاملہ تو شروع ہی وہاں سے ہوا تھا۔اپوزیشن سے ہماری مراد عمران خان ہیں۔ مقابلہ کل بھی ن لیگ اور کپتان میںتھا، آج بھی ان ہی دو کا ہے۔ خان نے پارٹی تو سترہ برس قبل بنا ئی تھی، مگر 2013 کے آس پاس جب انھیں عروج ملا،توسازشی نظریات جنم لینے لگے۔ اُن نظریات میں خفیہ ایجنسی کے دو اعلیٰ ترین عہدوں داروں کا بھی تذکرہ آتا ہے۔ اول الذکر کاپی ٹی آئی کی تنظیم و تشہیر میں، آخر الذکر کا پی ٹی آئی کے دھرنے میں۔اول الذکرآج کل ریمنڈڈیوس کیس میں بھی زیر بحث ہیں۔
خیر، موضوع کی طرف پلٹتے ہیں، ان سازشی نظریات کی طرح، جو آج کل ہوا ئوںمیں تیر رہے ہیں۔محور ان کا پاناما کیس ہے۔ ان نظریات میں وزیر اعظم، خفیہ ہاتھ ، جے آئی ٹی ،عدلیہ اور پی ٹی آئی کا تذکرہ ہے۔ آئیں، ان خیالات، نظریات، خدشات کو جوڑ کر ایک تخیلاتی تصویر بناتے ہیں:
''ایسے میں جب ملک نازک دور سے گزر رہا ہے، وزیر اعظم کا عمرے پر جانا، عید بیرون ملک منانا طاقت کے تعطل کا اشارہ ہے۔ سوشل میڈیا پر وزیر اعظم بے اختیارقرار پاچکے ۔ کچھ ٹی وی چینلز بھی یہ فیصلہ صادر کرچکے ہیں۔ اب جے آئی ٹی رپورٹ کی بنیاد پر ایسا فیصلہ سنایا جائے گا، جو وزیر اعظم اور ان کے خاندان کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچا ئے گا۔الیکشن یوں بھی قریب ۔ عوام میں اپنا اعتماد کھونے کے بعد ن لیگ کے لیے کامیابی کا حصول مشکل ہوگا۔ ایسے میں اپوزیشن جماعتوں کا ایک ایسا اتحادابھرے گا ، جس کی قیادت توعمران خان کے ہاتھ میں ہوگی۔ البتہ کچھ اور اسٹیک ہولڈر بھی ہوں گے۔ اور یوں ملک میں ایک نیا سورج طلوع ہوگا۔‘‘
کیا یہ آنے والے کل کی حقیقی تصویر ہے؟ یا فقط افسانہ ؟ کہیںمعاملہ اس کے برعکس تو نہیں۔ ایسا تو نہیں کہ ڈان لیکس کے مانند میاں صاحب پاناما لیکس سے بھی باآسانی ابھر آئیں، سی پیک کا میگا پراجیکٹ اُن کے لیے خوش بخت ثابت ہو، چین اور سعودی عرب ان کے حق میں اعتماد کا ووٹ دے دیں ، اپنے وسیع تجربے کو کام میں لاتے ہوئے ن لیگ پھر وفاق میں حکومت بنالے۔2018 ء الیکشن کے بعد پی پی پس پردہ چلی جائے، اور عمران خان کا کیریر ڈگمگانے لگے۔
یہ دونوں ہی مفروضے اس وقت گردش میں ہیں، دونوں سنسنی خیز ہیں، دونوں افسانوی معلوم ہوتے ہیں۔ کیا خبر، ان میں سے کوئی ایک افسانہ کل حقیقت بن جائے۔
اِن تمام مفروضوں سے پرے آرمی چیف کا پارا چنار جانا، عمائدین اور متاثرین سے ملنا، پارا چنار کو پاکستان کا حصہ اور وہاں کے باسیوں کو اپنی قوت ٹھہراناایک قابل تعریف اقدام ہے۔یہ کام وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کو کرنا چاہیے تھا، مگر شاید دھرنے پر بیٹھے لوگ سول قیادت پر اعتماد کھو چکے ہیں۔
طاقت کا ڈیڈلاک تو پیدا ہوچکا ہے !